ذرائع ابلاغ خواہ وہ اخبارات ہوں یا ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ… ان کی اہمیت اور اثرانگیزی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ اب فکر و نظر کے زاویے تبدیل کررہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فکر و نظر کی آزادی کے ساتھ آزادیِٔ رائے کا احترام بھی موجود ہے؟ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ کوئی قومی اور دینی ذمے داری بھی پوری کررہے ہیں؟ کیا ان کا کوئی قومی ایجنڈا ہے؟ آخر ہمارے ذرائع ابلاغ میں کیا دکھایا، سنایا اور شائع کیا جارہا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے فرائیڈے اسپیشل فورم کا انعقاد کیا گیا جس کی میزبانی جہانگیر سید نے کی۔ فورم سے جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد، معروف اداکار طلعت حسین، سی پی این ای کے سابق سیکریٹری جنرل جبار خٹک، سینئر صحافی وکالم نگار ثروت جمال اصمعی، صحافی و دانش ور شاہ نواز فاروقی نے اظہارِ خیال کیا۔پروگرام کے آخر میں فرائیڈے اسپیشل کے ایڈیٹر یحیٰی بن زکریا صدیقی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭٭
دیکھیں آج ہمارے فورم کا موضوع ’’ذرائع ابلاغ اور قومی ایجنڈا‘‘ بہت حساس معاملہ بن چکا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا خبروں، ڈراموں اور اشتہارات کے اعتبار سے بہت سنجیدہ اور جان دار ہوتا تھا۔ ہمارے ڈراموں اور انڈیا کے ڈراموں میں معیار کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق تھا۔ اب ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اب ہم اُن کی نقل کرکے فخر محسوس کررہے ہیں اور وہ ہمارے اسٹار بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے کئی فنکار، اداکار پیسہ کمانے کے لیے بھارت یاترا کرتے رہتے ہیں۔ اسی کو قومی تشخص کا زوال کہا جاتا ہے۔ آج اگر ہم اپنے چینلوں کی روش دیکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ یہ بیرونی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کئی ممالک کے قومی بجٹوں میں ہمیں اپنی تہذیب اور تہذیبی روایات سے ہٹانے کے لیے فنڈز مختص کیے جارہے ہیں۔ ہمارے کئی اینکرز بھی بکائو مال بن چکے ہیں۔ ہر قوم میں نگرانی اور نگاہ داری کا ایک مضبوط اور طاقت ور نظام ہوتا ہے، یہ کام ذاتی مفادات پر سمجھوتہ کرنے والوں سے نہیں لیا جاسکتا۔ اس میں باکردار افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج ہمارے باکردار پچھلی بینچوں پر بھی شاذونادر نظر آتے ہیں، البتہ بدکرداروں کی میڈیا سمیت ہر شعبہ حیات میں خوب چمک دمک نظر آرہی ہے۔
کسی بھی ملک کے ادارے اس معاشرے کو ظاہر کرتے ہیں۔کئی مرتبہ مجھے احساس ہوا ہے کہ آزادی کے بعد 1947ء کا جو پاکستان تھا اور اُس وقت کی جو اقدار تھیں، اُس وقت کا جو انفرااسٹرکچر تھا، اکیسویں صدی میں پہنچنے کے باوجود ہم وہاں سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے آگئے ہیں۔ کچھ قدریں آفاقی ہوتی ہیں۔ قائداعظم نے جس مرکزی نقطہ کو لے کر آزادی کی جنگ لڑی، اس کو دیکھیں تو وہاں آپ اسلام اور اس کی اقدار سے بچ نہیں سکتے۔ لیکن اسلام صرف کسی کتاب کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک فلسفے کا نام ہے۔ یہ ایک طریقہ زندگی کا نام ہے۔
میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہمارے اشتہارات نہ صرف ہماری قوم کے مفاد میں نہیں ہیں بلکہ وہ جس طرح مائونٹ ایورسٹ پر جمپ مارتے ہوئے دکھاتے ہیں یہ کیا ترغیب دی جارہی ہے! ہمارے بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ تم یہ حرکت بھی کرسکتے ہو۔ اس قسم کی بے حساب چیزیں ہیں جو نہ صرف نوجوانوں کے کردار پر منفی اثر ڈالتی ہیں بلکہ ان کو اس طرح کی چیزیں سکھائی جاتی ہیں جن سے ان کو جسمانی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ برطانیہ میں اسکول کی کینٹین میں پابندی لگائی ہوئی ہے کہ آپ ڈرنکس بچوں کو فراہم نہیں کریں گے، جبکہ ہمارے ہاں یہ فوڈ چینز نہ صرف یہ ڈرنکس دیتی ہیں، بلکہ اگر آپ یہ نہ لیں کچھ اور مانگیں تو وہ اضافی رقم لیتی ہیں۔ اس چیز کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر دوسرے یہ کہ ہمارے جس طرح کے اشتہارات ہیں ان میں عریانی کا پہلو بھی واضح طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے، لیکن ہمارے پیمرا میں جس طرح تقرر ہوتے ہیں آپ کو معلوم ہے۔ اور اکثر اشتہارات تو ہمارے ہاں بنتے ہی نہیں ہیں، اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کیوں کہ یہ ملٹی نیشنل ہیں اور سارے جنوبی ایشیا میں آپریٹ کررہے ہیں، ان کے لیے آسان یہ ہے کہ انڈیا سے کام کرالیں۔
پیمرا میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ بنیادی طور پر اپنی نوکریاں بھگتا رہے ہیں، وہ کام کچھ نہیں کررہے، ان کا احتساب کیسے ہو؟ وہاں پر صحیح تقرر ہونے چاہئیں۔ جس طرح کے قوانین پاکستان میں ہیں ویسے ہی برطانیہ میں ہیں، یورپ میں ہیں، وہی قوانین امریکہ میں ہیں۔ لیکن وہاں حالت اتنی خراب نہیں ہے۔ ساری بات قوانین پر عمل درآمد کرانے کی ہے۔
دوسری طرف کچھ ٹی وی چینلز اور اخبارات ہیں، ان کے خاص قسم کے مقاصد ہیں۔ وہ خاص سیاسی جماعتوں اور خاص لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اس کو تو کوئی قانون کنٹرول نہیں کر سکتا۔وجہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں پیسے خرچ کرتی ہیں جو اشتہار کی مد میں ہوتے ہیں، لیکن ساتھ میں آگے کے جو پراسس پیکٹ نظر آتے ہیں کہ اگر یہ جماعت اقتدار میں آگئی اور یہ حکومت چلتی رہی تو ہمارے یہ مفاد پورے ہوں گے۔ لیکن یہ چیزیں وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجائیں گی اور لوگ پہچان جائیں گے کہ یہ چینل یا یہ اخبار فلاں مقاصد کو آگے لے کر چل رہا ہے۔ یا تو لوگ اس کو دیکھنا بند کردیں گے یا پڑھنا بند کردیں گے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کو مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ چینلز اور اخبارات تو واضح طور پر غیرملکی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ پھر کچھ اس قسم کے لیڈران ہیں جن کو باہر کی سپورٹ حاصل ہے، ان کو زبردست پروجیکشن ملتی ہے، چھوٹی سی بات کرتے ہیں تو بڑی خبر کے طور پر آجاتی ہے۔ بات ساری یہ ہے کہ جو ترقی یافتہ قومیں ہوتی ہیں وہاں پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون بات کررہا ہے، وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا بات کررہا ہے۔ ہمارے ہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ کون بات کررہا ہے۔ اگر ہمارے ہاں اس طرح کا بندہ ہے جس پر انہوں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے تو اس کی چھوٹی بات بھی بڑی بن جاتی ہے۔ پاکستان کے لیے جنہوں نے قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں وہ بڑی سے بڑی بات کرتے ہیں تو وہ چھپتی نہیں ہے، کوئی پوچھتا نہیں ہے۔
معاشرے میں سب سے اہم رول چیک اینڈ بیلنس کا ہوتا ہے، یعنی کہیں پر بھی Absolute Power (مطلق طاقت) نہیں ہوتی، اور جہاں بھی یہ طاقت ہوتی ہے اس کے لیے واچ ڈاگ ہوتے ہیں، وہ اس تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ جہاں جہاں خرابی ہورہی ہے وہاں پر وہ ہاتھ ڈالیں۔ اب جیسے امریکہ ہے، وہاں ٹیکس چوری کرنا آسان کام نہیں ہے، اگر آپ ٹیکس چوری کرتے پکڑے گئے تو نتائج سخت ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں چیک اینڈ بیلنس ہے۔ ہمارے ہاں بھی محتسب کے وفاقی اور صوبائی ادارے ہیں۔ آپ نے کبھی پڑھا کہ انہوں نے احتساب کا کوئی بڑا کام کیا ہے؟ کبھی کوئی رپورٹ اس کی آئی؟ ادارے تو یہی ہیں، یعنی پارلیمان ہے، عدالتیں ہیں، محتسب ہے، پیمرا ہے۔ اسی قسم کے دوسرے ادارے ہیں، اگر یہی ادارے فعال ہوجائیں اور لوگ معاملات کو ان کے پاس لے کر جائیں، اخبارات ان موضوعات پر اداریے لکھیں، سیاسی جماعتیں ازخود معاملات کو اٹھائیں، یہ مثبت طریقے ہیں جن سے معاملات حل ہوسکتے ہیں۔ میڈیا کے لیے قومی ایجنڈے کی تشکیل کے تسلسل میں کہنا چاہوں گا کہ ایک تو سرکار کے معاملات میں احتساب کے ادارے کو تسلسل کے ساتھ اپروچ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر اشتہارات کی مد کا معاملہ ہے جس کے ذریعے اخبارات کی وفاداری خریدی جاتی ہے۔ پھر الیکٹرونک میڈیا کے مواد کے بارے میں پیمرا کو اپروچ کیا جاسکتا ہے۔ سائبر کرائم کی جو بھی اتھارٹیز ہیں ان کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ہتک عزت اس طرح کے معاملات میں عدالتوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ جب عدالتوں میں اس طرح کے معاملات جائیں تو وہاں پر ان کو ترجیح دی جائے۔
کسی بھی مذہب میں انسان کی عملی زندگی کی فزیکل ایگزسٹنس ہے۔ کسی بھی مذہب میں ان معاملات کو اس طرح ایڈریس نہیں کیا گیا جیسے کہ اسلام میں کیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان چیزوں سے ہماری توجہ بالکل ہٹ گئی ہے۔ یا تو ہم مادر پدر آزاد ہوگئے ہیں، یا جس طرف مغربی اقوام چلی گئی ہیں ہم اُس طرف چلے گئے ہیں۔ اگر ہم دین کی طرف گئے ہیں تو زیادہ سے زیادہ نماز کی حد تک یا فرائض کی حد تک گئے ہیں، اس سے آگے ہم نہیں گئے۔ اسلام کی روح سے فائدہ اٹھانا یا استفادہ صدیوں سے ہم نے نہیں کیا۔ میں اسلام کی روح کی بات کررہا ہوں۔ میں ضیاء الحق دور کی ظاہر داری اور نمائشی اقدامات کی بات نہیں کررہا ۔ میڈیا مجموعی طور پر گمراہی پھیلا رہا ہے، اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر ادارے کے چیکس اینڈ بیلنس ہونے چاہئیں۔ میڈیا کے چیکس اینڈ بیلنس کہاں ہیں؟ اور اگر ہیں تو متاثر کن کیوں نہیں ہیں۔ ان ہی میں کچھ اندرونی اور کچھ بیرونی مسئلہ ہوتا ہے۔
عدالتوں میں سپریم کورٹ کے علاوہ، اور عدالتِ عظمیٰ میں آرٹیکل (3) 184 بھی ہے، وہ نارمل طریقہ نہیں ہے۔ غیر معمولی عوامی معاملات وہاں اٹھائے جاتے ہیں۔ عدالتوں سے اگر آپ کو کوئی کام کرانا ہے تو آپ کو عدالت کو بریف کرنا پڑتا ہے۔ عدالت میں مقدمہ لے کر جانا پڑتا ہے، اور مقدمے کو قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ اگر وہ قانون کے دائرے میں نہیں ہے تو رد ہوجائے گا۔
میڈیا کا کام اپنی چیز بیچنا ہے، جتنے اچھے آپ سیلزمین ہیں اتنا اچھا آپ کا اخبار یا چینل چلے گا۔ پھر چینل کے ٹاک شوز سے لوگوں کے سیاسی ادراک میں اضافہ ہوا ہے۔ گائوں دیہات میں ڈھابے پر جہاں لوگ شام میں بیٹھتے ہیں، ٹی وی لگا ہوتا ہے، اس سے انہیں پتا چلتا ہے کہ دنیا میں اور ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ ریڈیو بھی چلتے ہیں۔
آج کے فورم کا موضوع ’’ذرائع ابلاغ اور قومی ایجنڈا‘‘ کئی اعتبار سے ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ ہر قوم کی کچھ ترجیحات ہوتی ہیں جو سماجی اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی کئی حوالوں سے قابلِ قدر سمجھا جاتا تھا، بعض حوالوں سے آج بھی میڈیا قابلِ قدر کردار ادا کررہا ہے۔ میں ایک عرصے سے میڈیا میں ہوں لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تہذیبی اقدار کا زوال آگیا ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جہاں بات چیت میں بڑی تہذیب تھی۔ پھر رفتہ رفتہ بے شمار مسائل آئے اور وہ تمام تصورات جن کو ہم سمجھتے تھے کہ ہماری شناخت ہیں، ان تصورات کا بالکل قلع قمع کردیا گیا۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے میڈیا میں کمرشل ازم آگیا ہے۔ کمرشل ازم کا مطلب ہے کہ تجارتی اور کاروباری بنیاد پر ریڈیو اور چینلوں کا چلانا۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ دولت کمانے کی دوڑ میں ہماری اخلاقی اقدار کہیں پیچھے چلی گئی ہیں۔ میڈیا میں کمرشل ازم آتے ہی اچانک ایک سو چینل کود پڑے۔ اب جس ملک میں اعلیٰ و عام تعلیم کا فقدان ہو وہاں ان چینلوں کا کمرشل پیٹ بھرنے کے لیے اتنے زیادہ پیشہ ور اور تعلیم یافتہ لوگ کہاں سے آئیں گے؟ ہمارے یہاں انگلش بولنے والوں کو قابل اور تعلیم یافتہ مان لیا گیا ہے۔ آج کے انگلش بولنے والے درست انگلش بول پاتے ہیں نہ اردو، نہ کوئی مقامی زبان درست طور پر ادا کرپاتے ہیں۔ گویا جو میڈیا قوم کی سماجی اور اخلاقی تربیت کا فریضہ انجام دیتا تھا، اب پورے طور پر یہ فریضہ ادا نہیں کر پارہا ہے۔ اب ذرا میں آپ کو ماضیٔ قریب میں لیے چلتا ہوں، آپ سب مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اُس وقت کے ڈرامہ نویس بڑی محنت سے کہانی لکھتے، بلکہ بُنتے تھے۔ کہانی کی بنت بہت اچھی ہوا کرتی تھی۔ ہدایت کار بہت جان مارتے تھے۔ پیش کار ڈرامے کی صورت میں شاہکار ڈرامہ دینا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے شاہکار تخلیق کرنے کے لیے بھاری اخراجات ہوتے تھے۔ کہانی میں عامیانہ پن بالکل نہیں ہوتا تھا۔ لب و لہجے کا خوب خیال رکھا جاتا تھا۔ سب کی ایک ہی پکار ہوتی تھی: معیار، معیار اور صرف معیار۔ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا تھا، اور نہ کرنا چاہتا تھا۔ آج کا اداکار تھک کر چُور ہوجاتا ہے۔ اس سے ڈائریکٹر کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے “Do More”۔ اب یہ بھی سن لیجیے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ یعنی ہمارے میڈیا میں اعلیٰ اخلاقی و سماجی اقدار سے ہٹ کر رجحانات کب اور کیسے داخل ہوئے۔ یہ اُس وقت ہوا جب ہمارے میڈیا میں کمرشل ازم آگیا۔ کمرشل ازم کی اخلاقیات ہی دوسری ہوتی ہیں، قوم جائے بھاڑ میں بس دولت آنی چاہیے۔ کمرشل میڈیا کا مسئلہ نہیں ہوتا کہ ان کے پروگراموں اور تحریروں سے قوم کے بچوں کی زبان بگڑ رہی ہے۔ ان کے ٹاک شوز سے آپس میں لڑائی جھگڑے کے انداز میں بات کرنے کی روایت عام ہورہی ہے۔ ٹیلی وژن پر گلی محلوں کے معیار کی زبان بولی جارہی ہے۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا۔ اب پاس داری کس چیز کی کریں! اگر آپ انگریزی بول سکتے ہیں تو بہت بڑے دانشور کہلاسکتے ہیں۔ اگر آپ بدتمیزی سے بات کرسکتے ہیں تو اینکرز شپ کے دروازے آپ پر کھلے ہیں۔ اگر آپ چینلوں پر انسان نما مرغے لڑا سکتے ہیں تو آپ کی کیا بات ہے۔ اگر آپ مذہب کا مذاق اڑا سکتے ہیں تو آپ میڈیا کے لیے بہت قیمتی فرد ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ نہایت بھونڈا مذاق کرکے یا سماج میں سنسنی پھیلا کر چینل کے لیے ریٹنگ لاسکتے ہیں تو آپ کے اپنے ریٹ بہت ہائی ہوجائیں گے۔ آج پیسے بچانے اور زیادہ مال کمانے کے لیے کمرشل بھارت میں بن رہے ہیں۔ ان میں ہمارے اداکار ہوتے ہیں نہ ہماری زبان کا اپنا مزا، نہ ثقافت کی کوئی جھلک۔ سب ان سے کرایا جارہا ہے، ہمارا فن کار کیا کرے! ان ساری خرابیوں کی جڑ کمرشل ازم سے جڑتی ہے۔ دوسرے ہمارے پاس اپنی ترجیح نہیں ہے۔ ہر قوم کی عزتِ نفس ہوتی ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ مال کمانے کے لیے نفس کام کرتا ہے، عزتِ نفس کوئی معانی نہیں رکھتی۔ آج ہمارا ٹیلی ویژن انڈیا کی طرز پر ساس بہو کے جھگڑوں میں پڑگیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے ڈرامے پورے بھارت میں سب کام چھوڑ چھاڑ کر دیکھے جاتے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ ہم نے اپنی تہذیب و تمدن کی ڈگر چھوڑ دی۔ آج بھارت کے ڈرامے پاکستان میں شوق سے دیکھے جارہے ہیں جن کی کہانیوں کا سر پیر نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی ڈگر اور اپنے راستے پر واپس آنا ہوگا ۔ ہمارے میڈیا میں بے قدری کی وجہ سے نہایت قابلِ قدر رائٹر، ایڈیٹر، قومی دانشور اپنی عزت بچانے کے لیے اِدھر اُدھر ہوگئے ہیں۔ اب جو آرہے ہیں انہیں نہ اپنی، اور نہ قومی عزت کی پروا ہے۔ پروا ہے تو صرف یہ کہ چینل کی ہر صورت میں ریٹنگ بڑھا کر اپنے ریٹ بڑھوائیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج بھی ایسے فنکار اور لکھاری موجود ہیں جو ہمارے ذرائع ابلاغ کے زوال پر بہت دکھی ہیں، لیکن اصلاحِ احوال کے لیے قوم کا درد رکھنے والوں سے کوئی رجوع ہی نہیں کرتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو موضوعات آج جن کے پاس ہیں، سب گھسے پٹے ہیں۔ طلاق کا مسئلہ، سسرال میں لڑکی پر ظلم ہورہا ہے، گالم گلوچ کی جارہی ہے… اس موضوع پر ڈرامے بن رہے ہیں۔کیا ایسے ڈرامے دیکھ کر لوگ بدل جائیں گے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ لکھاری آپ کے پاس ہیں نہیں، سو چینل کھول لیے ہیں آپ نے، تباہی تو ہونی ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ انسان کی اچھائیاں یا برائیاں یکساں ہوتی ہیں۔ خواہ وہ کہیں کا انسان ہو، وہ ایک ہی طرح کی غلطیاں کرے گا۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم مغربی ڈراموں کی نقل کررہے ہیں، میں کہتا ہوں مغربی ڈرامہ ہم سے بہت آگے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج کے میڈیا نے اپنے ڈراموں کے ذریعے جاگیردارانہ نظام اور جاگیرداروں کے مفادات کا پردہ چاک کیا ہے، دوسری طرف ہمارے حکمران، جاگیردار اور سرمایہ دار پچاس پچاس لگژری گاڑیوں کے فلیٹ یا قافلوں کی شان و شوکت دکھاتے ہیں۔ یہ سب بے وقوف بنانے کی باتیں ہیں۔ آج ہم سے سب سے زیادہ جو سوال کیا جاتا ہے وہ یہ کہ میڈیا میں بگاڑ کا کوئی سدھار کا طریقہ بھی ہے؟ میں کہتا ہوں میڈیا ہی کیا، قوم کے مہذب ہونے کی اہمیت پر زور دیا جائے۔ آپ کا لب ولہجہ میٹھا اور گفتگو کا سلیقہ ہونا چاہیے۔ لکھاری کو ہماری تہذیب کے دائرے میں بات کہنی چاہیے۔ تہذیب کا یہ دائرہ ہی ہمارے قومی خدوخال کو خوبصورت بناسکتا ہے، جو ہماری تہذیبی اقدار کی پہچان ہے۔ آج خبر کے نام پر سامعین اور ناظرین پر جبر کیا جاتا ہے۔ فرض کریں ایک خبر ہے اسرائیل نے سعودی عرب پر راکٹ داغ دیا۔ پندرہ مرتبہ سب اس کو دہرائے جارہے ہیں۔ آگے کی خبر کہاں سے لائیں! مستند نیوز ایجنسی سے لیں تو انہیں پیسے نہیں دے رہے۔ اچھے رپورٹر سستے ریٹ پر تو ملتے نہیں۔ بس طوطے کی طرح رٹ لگائی جارہی ہے۔ یہ ابلاغ ہے؟ یہ تو بے مقصد سی بات ہے۔ میڈیا چینل چلانے کے طریقے ہیں۔ آج میں یہاں دل کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ اب مجھے حالات سے بہت ڈر لگنے لگا ہے۔ لگتا ہے اب اللہ نے ہمارے ہاتھ سے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ سب باتیں کرتے ہیں، جھوٹی اور منافقانہ باتیں… جب اللہ کسی قوم کو سیدھا کرنے پر آتا ہے اور رسّی کھینچتا ہے تو سب کچھ کھینچ لیتا ہے۔ ایسا ہی وقت آگیا ہے، اللہ خیرکرے۔ ایک وقت آئے گا یہ مذاق لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجائے گا۔ لوگ ڈنڈے لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ان مرغوں اور مرغے لڑانے والوں کو ٹھکانے لگادیں گے۔ سڑکوں پر اتنا خون بہے گا کہ الامان و الحفیظ۔
اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے پہلا کام تو یہ ہوگا کہ پرانے دور کے انداز میں ہر چینل کو یہ حکم دیا جائے گا کہ اپنی علاقائی زبانوں میں پروگراموں اور خبروں کے لیے وقت مقررکردیا جائے، باقی تمام وقت قومی زبان میں پروگراموں اور خبروں یا ڈراموں کو دیا جائے۔ دوسرا کام یہہونا چاہیے کہ پانچ چھے چینلوں کے سوا سب بند ہوجائیں جو دراصل ریٹنگ اور دولت کی دوڑ میں قوم کے لیے انتشار کا باعث بن رہے ہیں۔ اس حکم کے نتیجے میں ان چینلوں کو بہترین دماغ، اعلیٰ تہذیبی اقدار کے حامل قابل ترین اور حقیقی معنوں میں پیشہ ور، پختہ کار اورکام سے مخلص لوگ مل جائیں گے جو ہمارا قومی تشخص اجاگر کرسکیں گے۔ کسی مکروہ فعل پر قطعی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آج ہمارا پیمرا، جو میڈیا پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے وہ کہتا ہے انڈین ڈرامے چلائے جائیں، جبکہ وہ ہمیں کاپی کرکے وہاں تک پہنچے ہیں۔ میں اگر وزیر اطلاعات و نشریات ہوتا تو پاکستان میں انڈین ڈراموں پر پابندی لگادیتا۔ پاکستانی ڈرامہ انڈیا میں چل سکتا ہے؟ پھر ہم اُن پر اتنے مہربان کیوں ہیں؟
لوگ کہتے ہیں فن و فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اگر بھارت ہم سے امتیازی سلوک کرتا ہے، ہمارے ڈرامے، ہماری خبریں چلنے نہیں دیتا تو ہم کیوں چلنے دیں؟ سیدھی بات ہے جیسے کو تیسا۔ ہمیں پتا ہے ہماری ثقافت کیا ہے، ہماری سماجی ضروریات کیا ہیں۔ میڈیا کی تربیت کے لیے اکیڈمیاں قائم کروں گا۔ لوگ عریانی اور فحاشی پر بات کررہے ہیں۔ اس کا حل تو اسلامی تعلیمات میں موجود ہے۔ اگر عریانی کو منع کیا گیا ہے تو دوسری طرف عریانی کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنی نگاہوں کو نیچے رکھنے کے لیے کہا گیاہے۔ پہلی ذمہ داری تو ہماری ہے کہ عریاں ڈرامے، فلمیں، پروگرام نہ دیکھیں، پھر توقع کریں کہ عریانی پر پردہ پڑا رہے۔ جب کسی چیز کی پذیرائی نہیں ہوتی سماج میں تو وہ پھلتی پھولتی نہیں۔ جتنا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہے، پہلے وہ تو کریں، دوسرا خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہمارے میڈیا کے لیے بھی ضابطۂ اخلاق ہونا چاہیے جو ہماری تہذیبی اقدار کا امین ہو، ہماری سماجی روایات کے مطابق ہو۔ مذہبی تعلیمات کے مطابق ہو۔ دین کے بغیر کسی قوم کا کردار نہیں بن سکتا۔ قرآن تین چوتھائی حقوق العباد کے بارے میں ہے اور ایک چوتھائی ہے جو شریعت کے بارے میں ہے۔ جس ملک میں اس قرآن کے ماننے والے ہوں اور وہاں حقوق العباد کا یہ حال ہو؟ یہ باتیں اٹھانی چاہئیں۔ میرے خیال میں ذرائع ابلاغ کا یہ پہلا کام ہے کہ وہ دیکھیں کہ ہمارے ملک میں گراں فروشی کیوں ہورہی ہے۔ ہمارے ملک میں جوچیزیں تیار ہوتی ہیں وہ بھی میسر نہیں ہوتیں۔ ملک کی پالیسی اس طرح کی نہیں کہ کسی قسم کی ملک میں بہتری آسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نہایت ایمان داری سے جو مسائل ہیں ان کی حقیقت کو جانتے ہوئے ان کے خلاف جہاد کرنا ہے، اور اگر نہیں کریں گے تو نسلیں پہلے ہی بگڑ رہی ہیں آگے بھی بگڑ جائیں گی۔
ہم تہذیبی اقدار کے لحاظ سے بہت امیر کبیر قوم ہیں۔ بس یہی اقدار ہمارا قومی ایجنڈا ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر جبارخٹک
آج کا میڈیا تجارتی میڈیا ہے۔ یہ میڈیا بھی ہمارے یہاں منافع خوری کی بنیا دپر تشکیل پایا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا میڈیا بھی اسی کاایک حصہ ہے۔اب ہمیں میڈیا پر جبر کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اب اسی طرح چلنا پڑے گا۔اور اس کے مقابلہ میں ایک اچھا میڈیا لانا پڑے گا۔وہ شروع میں چاہے کمزور ہی کیوں نہ ہو۔لیکن وہ ضابطہ اخلاق کے مطابق ہو۔عریانی و بے حیائی کی اصلاح تو عام طور پر ہم استعمال کرتے ہیں اس کی تعریف ہر ایک کے سامنے الگ الگ ہے۔آپ جبری طور پر اگر کوئی چیز نافذ کریں گے تو اس کا ایک رد عمل ہوگا۔ میڈیا کو ہم سماج سے کاٹ کر نہیں دیکھ سکتے۔میڈیا کی اصلاح کرنے پر اپنی توانائی خرچ کرنے کے بجائے ایک اچھا اور صالح میڈیا پیدا کرنا چاہیے۔اور اس میں اتنی جاذبیت ہونی چاہیے کہ اس کی طرف لوگ کھنچیں۔میڈیا پر چند اداروں کا قبضہ ہے۔وہ نام نہاد قومی ایجنڈے کی تشکیل کرتے ہیں۔اور اسی سے ہمیں تکلیف بھی ہوتی ہے۔میڈیا پر مقامی اور چھوٹے علاقوں کے کوئی ایشوز نہیں آتے اور نہ ان کی قیادت کو سامنے لایا جاتا ہے۔ہمیں مقامی میڈیا کی تشکیل کرنی چاہیے۔بدقسمتی سے ہمارے مین اسٹریم میڈیا نے سازش کرکے صرف سیٹلائیٹ چینل کی اجازت دی ہے۔ہمیں اس چیز کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ بے راہ روی اور عریانیت پھیلے گی۔جو ویسے بھی پھیل رہی ہے۔ پاکستان میں شراب خانے بند کرکے کیا آپ نے شراب خوری کو روکا ہے؟راستہ بند کرکے آپ کسی کو نہیں روک سکتے ہیں۔ہمیں آج کی تاریخی حقیقت کے مطابق ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہیے۔
میڈیا کے کردار کو تو آپ اس تناظر میں لیں گے کہ یہ قومی مفاد کے مطابق نہیں ہے اور ہماری ترقی کی ضروریات کو مہمیز نہیں دیتا ہے۔ میڈیا کو صرف عریانی اور فحاشی کے حوالے سے نہیں دیکھیں اس کی تعمیر کردار سماج اور جہتوں کے حوالے سے دیکھیں گے۔
میڈیا بہت وسیع ہوچکا ہے‘ آپ کو نیا میڈیا تشکیل دینا ہوگا جو آپ کے تصورات‘ آئیڈیالوجی اور نظریات کی عکاسی کرے اور ان کی تکمیل کرے۔ ہم نے اجتماعی نظریات کی تشکیل کے لیے اپنے سماج کو منتشر و تقسیم کر دیا ہے۔ اجتماعی سوچ جمہوری عمل سے بنتی ہے‘ اجتماعی سوچ، غیر جمہوری عمل اور آمرانہ طرز حکومت کی کبھی نہیں بنی۔ میں میڈیاکے موجودہ کردار کا سخت ترین ناقد ہوں۔ یہ میڈیا شترِِ بے مہار ہے اور صرف تجارتی مقاصد کے لیے لوگوں کو مس انفارم بھی کرتا ہے اور صحیح رخ سے ہٹاتا ہے بھی۔ اس کے مقاصد اس کے مالکان طے کرتے ہیں جن کا مقصد صرف منافع خوری اور ذاتی مفاد ہے۔ جب آپ اپنے آپ کو تجارتی جنس بنا لیں تو پھر آپ اپنے آپ کو جس قیمت پر بیچنا چاہتے ہیں بیچتے رہتے ہیں۔ مثال دیتا ہوں جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے خلاف جب مہم چلائی تو اسی نے جنگ اخبار کو اشتہار دیا تو جنگ اخبا رکی انتظامیہ نے اشتہار چھاپنے سے انکار کردیا اور کہاکہ کے الیکٹرک ہمیں زبردست اشتہار دیتی ہے‘ ہم کے الیکٹرک کے خلاف کوئی خبر اور اشتہار نہیں چھاپ سکتے۔ بحریہ ٹائون‘ جس نے کراچی کی زمینوں کی لوٹ مار مچا رکھی ہے اس کے خلاف جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے کسی بھی میڈیا پر سپریم کورٹ کی خبر نہیں آئی۔ غیر ملکی فنڈنگ ریاست کے مابین ہونی چاہیے اگر ریاست کے مابین نہیں ہوتی اور وہ خفیہ مقاصد کے لیے ہوتی ہے تو وہ غلط ہے لیکن ہم بھی اس سلسلے میں متضاد رویہ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران سے آنے والی امداد کو ہم غیر ملکی نہیں کہتے لیکن یورپ کے آزاد او ر جمہوری ممالک سے آنے والی امداد کو کیوں کہ وہ ہمارے سماج کی خرابیوں کے خلاف مدد دیتے ہیں اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ہمارا معیار ایک ہونا چاہیے اور وہ معیار یہ ہے کہ جو بھی مقاصد ہوں واضح ہوں کوئی خفیہ مقاصد نہ ہوں اور ہماری حکومتوں اور سماج کو اس رقم کے آڈٹ کرنے اور اس پر گہری نظر رکھنے کی آزادی ہو۔
ہم نے عریانی اور فحاشی کے خلاف مہم چلاتے ہوئے معاشرے کو جنس زدہ کر دیا ہے اور جنس کو خواہ مخواہ شہوت بھری چیز بنا دیا ہے یورپ میں اگر خواتین اسکرٹ یا منی اسکرٹ میں گھومتی ہیں تو کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ہمارے ہاں جہاں لڑکی کی مرضی شامل نہیں ہوتی زبردستی اس کا نکاح کر دیتے ہیں اس کو آپ جائز قرار دیتے ہیں ہمارے ہاں اسلامی عقائد اور نظریات کا غلط استعمال ہو رہا ہے نکاح کے معاملے کو ہم نے بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔
چور بازاری‘ جھوٹ بولنا‘ منافع خوری‘ انسانیت دشمنی یہ سارے کے سارے غیر اخلاقی عمل ہیں ہم کسی بھی نام پر ان غیر اخلاقی پریکٹس کو اچھا قرار نہیں دے سکتے۔ میڈیا اخلاقی معیار پر پورا نہں اتر رہا میڈیا خود اپنے اخلاقی معیار کو فالو نہیں کرتا تو وہ سماج کے مختلف حصوں کو کیسے معیار دے سکتا ہے۔ دنیا میں یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ ضابطہ ہائے اخلاق اختیاری ہوتے ہیں‘ انہیں کسی قانونی حکم کے تحت پابند نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب میں بھی جتنی پابندیاں ہیں وہ سب رضا کارانہ اختیاری ہیں‘ وہاں پابندیاں ہیں جہاں میڈیا شخصی آزادی کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔
پمرا سمیت تمام ریاستی ادارے قومی تقاضوں کی خود ساختہ تعریف کرتے ہیں اور حکمرانوں کی قومی تقاضوں کی تعریف عوام کے مجموعی مفاد کے خلاف اکثر نہیں ہوتی۔ میڈیا کو جمہوری معاشرے کی تشکیل‘ رواداری‘ برداشت پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اگر وہ معاشرے میں غیر جمہوری افکار پھیلائے‘ سماج کو منتشر کرنے کے لیے اپنے مواد کی تشہیر کرے تو امن و آشتی اور بھائی چارے کے خلاف اس کا مواد ہو تو اسکی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
میڈیا اس وقت غیر پشہ ور افراد کے ہاتھوں میں ہے جن کا مقصد صرف تجارتی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ اسی نے سماجی مفاد کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔سندھی میڈیا اردو اور انگریزی میڈیا کے مقابلے میں اپنے سماج کی کسی حد تک حقیقی عکاسی کرتا ہے ان کی امنگوں اور خواہشظں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جاگیردری کے خلاف بھی سندھی میڈیا نے کردار ادا کیا ہے جو میڈیا سندھی سماج کی عکاسی نہیں کرتا وہ غیر مقبول ہوتا جاتا ہے۔ بعض سندھی اخبارات‘ جن کی اشاعت ٹھیک ہے لیکن قومی امنگوں کی عکاسی نہیں کرتے‘ ان کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے۔
سندھی میڈیا میں بعض اوقات ایسی چیزوں کو پروموٹ کیا جاتا ہے جس کے ذریعے جاگیردارانہ کلچر کو پروموٹ کرنا ہو۔ ان کو یہ بتایا جائے کہ مار دھاڑ‘ اغوا اور قتل یہ چیزیں ایک وڈیرے کی مثبت خصلت ہے جن ڈراموں اور پروگراموں میں ایسی کی گئی ہے لوگوں نے ان کے خلاف بات کی ابھی پمرا نے بھی ایک نوٹس ٹی وی چینلوں کو جاری کیا ہے کہ وہ اس قسم کی چیزوں سے اجتناب کریں۔
سندھی میڈیا کو اپنے سماج کی منفی روایات کے خلاف بولنا چاہیے۔ اس کے لیے جہاد کرنا چاہیے‘ ان غلط روایات میں جاگیردارانہ اور غلامانہ ذہنیت ہے اس کے خلاف اسے ڈٹ کر بات کرنی چاہیے۔ با اثر افراد کے حاکمانہ طرز عمل کے خلاف بات کرنی چاہیے۔ آئین اور قانون کی بات کرنی چاہیے‘ تحمل اور برداشت پر مبنی سماج کی تشکیل کی بات کرنی چاہیے‘ کرپشن‘ بدعنوانی‘ چوری اور عوام کے مفاد کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف کام کرنا چاہیے۔
شاہنواز فاروقی
ذرائع ابلاغ اور قومی ایجنڈے کی بحث کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہر قوم کا ایک تصورِ حیات ہوتا ہے، ایک کا تصورِ تہذیب ہوتا ہے، ایک تصورِ تاریخ ہوتا ہے، ایک تصورِ معاشرہ ہوتا ہے، اس کا ایک تصورِ اخلاق ہوتا ہے، اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تاریخ کے طویل سفر میں جتنی بھی اقوام گزری ہیں اور دنیا میں اس وقت بھی موجود ہیں اُن سب کا ایک قومی نصب العین رہا ہے، ایک قومی ایجنڈا رہا ہے، اور ان کے قومی ایجنڈے کا قومی فنڈامنٹل سے، ان کے بنیادی عقائد سے، بنیادی تصورات سے گہرا تعلق رہا ہے۔ اس کی میں دو مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ مثال کے طور پر اس روئے زمین پر جن دو ممالک سوویت یونین اور چین میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا، وہاں ہم نے دیکھا کہ سوویت یونین سوشلسٹ ریاست تھا۔ اس کا ایک تصورِ انسان تھا، اس کا ایک تصورِ تاریخ تھا، اس کا ایک تصورِ تہذیب تھا، اس کا ایک تصورِ معیشت تھا۔ اور سوویت یونین کے جو ذرائع ابلاغ تھے وہ انہی تصورات کی ترویج کے لیے، انہی کی تعلیم کے لیے اور انہی کے حوالے سے شعور کو عام کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ اور سوویت یونین میں کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ سوویت یونین کے جو فنڈامنٹل ہیں، اس کے جو اساسی تصورات ہیں اُن سے کوئی ایک اخبار بھی، کوئی ایک لکھنے والا یا پڑھنے والا بغاوت کرسکتا ہے۔ اگر ایسی کوئی کوشش ہوئی تو وہاں پر اس کی سخت سزا مقرر تھی۔ یعنی اس کی سزا یہ تھی کہ اسے سائبیریا بھیج دیا جائے گا۔ مغربی دنیا کا تجربہ اس حوالے سے ہمارے سامنے ہے۔ مغربی دنیا کا اپنا ایک تصورِ انسان ہے، اس کا اپنا ایک تصورِ تاریخ ہے، تصورِ تہذیب ہے۔ وہ آزادی، جمہوریت اور مساوات پر مشتمل ہیں۔ اور ان کے ذرائع ابلاغ کو آپ انہی کو پھیلاتا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اس پر خواہ کتنے ہی باہمی اختلافات رکھتے ہوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکہ میں یا یورپ کے اندر آدمی اٹھ کھڑا ہو اور کہے کہ میں آزادی کے تصور کو نہیں مانتا… یا یہ کہے کہ میں جمہوریت کے تصور کو نہیں مانتا… یا کہے کہ میں برابری کے تصور کو نہیں مانتا… یا انہوں نے اپنا جو تصورِ انسان بنایا ہے کوئی اس کو اٹھ کر کہے کہ میں اس کو نہیں مانتا، یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ ملک جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں، ظاہر ہے کہ اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اور اسلام کا اپنا ایک تصورِ انسان ہے، اسلام کا اپنا ایک تصورِ تہذیب ہے اور اس کا اپنا ایک تصورِ تاریخ ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے۔ یا تو تقویٰ کو فضیلت حاصل ہے یا وہ جو صاحبِ علم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو تصورات یعنی تقویٰ اور علم ہماری اور ہمارے ذرائع ابلاغ کی اوّلین ترجیحات ہونی چاہئیں۔لیکن یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ہمارے سامنے پچاس ساٹھ سال کا تجربہ ہے۔ اس تجربے کا لبِ لباب یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا کوئی بھی قومی ایجنڈا سرے سے موجود ہی نہیں ہے، اور اس قومی ایجنڈے کا ہمارے مذہب سے، ہماری تہذیب سے، ہماری تاریخ سے، ہمارے تصورِ انسان سے، ہمارے تصورِ اخلاق سے، ہمارے تصورِ کردار سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اور صورت حال اب اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ہمارے عقائد کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ براہِ راست ریڈیو پر، ٹیلی ویژن پر، اخبارات میں ان کو چیلنج کیا جارہا ہے اور ایک ایسی فکر کو عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا ہمارے مذہب سے، ہماری تاریخ کے تجربے سے، ہمارے تصورِ تہذیب سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اور عجیب وغریب بات یہ ہے کہ اس بات پر نہ ریاست توجہ دے رہی ہے، نہ ذرائع ابلاغ کو مانیٹر کرنے والے ادارے توجہ دے رہے ہیں کہ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ اور پرنٹ میڈیا میں کیا چھپ رہا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے؟ ہماری اقدار سے اس کا کیا تعلق ہے؟ ہمارے تصورِ زندگی سے کیا تعلق ہے؟ ہمارے ٹیلی ویژن سے کس طرح کی خبریں نشر ہورہی ہیں؟کس طرح کے ٹاک شوز نشر ہورہے ہیں؟کس طرح کے ڈرامے نشر ہورہے ہیں؟ کس طرح کا میوزک چل رہا ہے؟ کس طرح کے گیت لکھے جارہے ہیں؟ اس کا کوئی تصور ہمارے ذرائع ابلاغ میں موجود نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کا سرسری جائزہ لیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا علم کی روایت سے جو ہماری شاندار روایت ہے، کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ ایک لاعلمی اور بے شعوری کی کیفیت ہمارے ذرائع ابلاغ کے اوپر طاری ہے۔ ہم اس بات کا نوحہ پڑھتے رہتے ہیں کہ معاشرے کے اندر اخلاقیات زوال پذیر ہوگئی ہیں۔ بالکل درست بات ہے کہ معاشرے کی اخلاقی حالت اچھی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے کی اخلاقی حالت درست کرنے کے لیے اپنا کوئی کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ اسی طرح علم اور شعور کی بات کرلیجیے۔ اگر آپ اخبارات کا تجزیہ کریں کہ ان میں کیا چھپا ہے، یا ٹیلی ویژن میں جو خبریں ہیں ان میں کتنی علمی خبریں ہیں تو آپ پر یہ انکشاف ہوگا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا 99 فیصد حصہ سیاست سے متعلق ہے۔ اس کا کوئی تعلق ہماری سماجیات سے نہیں ہے، ہماری معاشیات سے نہیں ہے، ہمارے آرٹس سے نہیں ہے، ہمارے کلچر سے نہیں ہے، ہمارے ادب سے نہیں ہے۔ اور سیاست کے حوالے سے بھی ایک ایسی بے شعوری ہے کہ جیسے آج وزیر اعظم نے یہ کہہ دیا ہے، صدرِ مملکت نے یہ فرما دیا ہے، آرمی چیف کا یہ بیان آگیا ہے، اس پر ہم گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یعنی ہماری خبریں بھی سیاست مرکز ہیں، ہمارے تجزیے بھی سیاست مرکز ہیں، ہمارے کالم بھی سیاست مرکز ہیں، ہمارے ٹاک شوز بھی سیاست مرکز ہیں۔ اور سیاست کے اس تجزیے میں بھی جو سیاست کا علمی پس منظر ہے، اس کا جو ایک تہذیبی پس منظر ہے، جو ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کا جو اخلاقی پس منظر ہے اس کو ہم کہیں زیر بحث آتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کاکوئی بھی تعلق ہماری تہذیب و ثقافت سے نہیں ہے۔
ہم ایک ایسی ریاست اور ایک ایسا معاشرہ ہیں جہاں آزادی کے ستّر سال بعد بھی ساٹھ فیصد لوگ تعلیم سے محروم ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں کبھی یہ بات زیر بحث ہی نہیں آتی کہ ہم ستّر سال کے بعد بھی ناخواندہ قوم کیوں ہیں اور اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا کیا پس منظر ہے؟ اس کا کون ذمہ دار ہے؟ اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری آبادی کا ستّر فیصد وہ ہے جو خطِ غربت پر کھڑا ہے، چالیس فیصد خطِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ ایک ڈالر سے نیچے جن کی آمدنی ہے۔ مزید بیس پچیس فیصد وہ ہیں کہ جن کی آمدنی ایک یا دو ڈالر کے درمیان ہے۔ لیکن ہم کبھی بھی اس بات کو زیر بحث آتے ہوئے نہیں دیکھتے کہ ستّر سال کے بعد بھی ہماری معاشی حالت ابتر کیوں ہے؟ اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا کیا پس منظر ہے؟ اس کا کون ذمہ دار ہے؟… حکمران ذمہ دار ہیں؟ پالیسی میکر ذمہ دار ہیں؟ ریاستی ادارے ذمہ دار ہیں؟ امریکہ ذمہ دار ہے؟ کون ذمہ دار ہے؟… اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاست نے تعلیم کی فراہمی سے ہاتھ اٹھا لیا ہے، صحت کی فراہمی سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ تعلیم پرائیویٹائز ہوگئی ہے اور مہنگی ہوگئی ہے، اور صحت بہت مہنگی ہوگئی ہے۔ اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے لیے اس کو پرائیویٹ ہسپتال میں جاکر علاج کروانا پڑے گا اور وہ بہت مہنگا ہے۔ اسی طرح آپ کو اسکول، کالج، اور یونیورسٹی کی سطح پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنی پڑے گی اگر آپ معیاری تعلیم چاہتے ہیں۔ معیار خود ایک قابلِ غور اور قابلِ بحث مسئلہ ہے۔ آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے ذرائع ابلاغ ہمارا جو تاریخی تجربہ ہے، جو تاریخی شعور ہے، ہماری تہذیبی میراث ہے، ہماری علمی میراث ہے، ہمارے مذہب نے ہمیں جو تصورات پیش کیے ہیں، ان کی بنیاد پر وہ نہیں چل رہے ہیں۔
قائداعظم نے فرمایا تھا کہ قوموں اور ذرائع ابلاغ کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب کوئی قوم عروج کی طرف جاتی ہے تو ذرائع ابلاغ اس کو عروج کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری جدوجہدِ آزادی میں ذرائع ابلاغ کا کردار بہت بنیادی ہے۔ لیکن اِس وقت یہ صورت حال ہے کہ ذرائع ابلاغ میں آزادی خود ایک سوال بن گئی ہے۔کیا ہمارے ذرائع ابلاغ آزاد ہیں؟ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں قدغن کی ایک صورت نہیں ہے۔ پہلے تو یہ مسئلہ ہوتا تھا کہ اسٹیٹ ایک سنسر کا مسئلہ لے کر آجاتی تھی۔ اب اس میں سنسر کی کئی صورتیں نکل آئی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ اسٹیٹ اس کو کنٹرول کررہی ہے۔ اسٹیٹ کے ادارے اس کو کنٹرول کررہے ہیں۔ اس کی ایک مثال اُس وقت سامنے آئی جب ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ بحیثیتِ مجموعی جس طرح سیاسی جماعتیں کنٹرول ہیں اسی طرح ہمارے ذرائع ابلاغ بھی کنٹرول ہیں۔ اور مصطفی کمال نے براہِ راست یہ بات کہی ہے کہ پاکستان کا کون سا اینکر ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے ہدایت نہیں لیتا؟ اور مجھے حیرت ہے کہ ساٹھ ستّر اینکرز میں سے ایک بھی اینکر ایسا نہیں نکلا جو کھڑے ہوکر یہ کہتا کہ میں وہ آدمی ہوں جو اسٹیبلشمنٹ سے ہدایت نہیں لیتا، میں اپنے پروگرام کو خود کنڈکٹ کرتا ہوں، اپنے ایجنڈے کو خود سیٹ کرتا ہوں۔ ایک آدمی بھی ایسا سامنے نہیں آیا،کوئی کالم نویس ایسا سامنے نہیں آیااور پورے ذرائع ابلاغ میں سے کوئی ایک آدمی بھی ایسا نکل کر سامنے نہیں آیا جو کہتا کہ ہم اپنا ایجنڈا خود سیٹ کرتے ہیں۔ ہمارے ایجنڈے کا ہماری تاریخ سے، ہماری تہذیب سے، ہمارے مذہب سے تعلق ہے۔ اس سے پتا چلا کہ ہمارے یہاں ذرائع ابلاغ کی آزادی ایک خواب ہے، اور وہ ریاست کے کنٹرول میں ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے جو مالکان ہیں وہ خود ایک بہت بڑا ویسٹرن انٹرسٹ بن چکے ہیں اور وہ ایجنڈا سیٹنگ میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ کون سی خبر چھپے گی اور کون سی نہیں چھپے گی… کون سا کالم چھپے گا اور کون سا نہیں چھپے گا… کون سا ٹاک شو ہوگا اور اس کا کیا موضوع ہوگا، اس کے شرکا کون ہوں گے، اس کا کیا نتیجہ نکالا جائے، اس پر مالکان کا غیر معمولی اثر ہے، کنٹرول ہے۔ اور وہ جو صحافیوں کی آزادی کا تصور موجود رہا ہے ایک زمانے تک کہ پروفیشنل صحافی طے کرے گا کہ کیا چیز، کس طرح اخبار میں یا ریڈیو، ٹیلی ویژن پر پیش کی جائے گی وہ تصور ختم ہوگیا… اور اب معاشرے کے اندر یہ تصور آگیا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ بیرونی امداد لیتے ہیں۔ اس میں این جی اوز کا کردار ہے۔ این جی اوز بتا رہی ہیں کہ آپ کو کیسا ڈراما پروڈیوس کرنا ہے۔ کیا موضوع ہوگا۔ اس کے اداکار کون ہوں گے اور اس کا کیا ہدف ہوگا؟ اس میں لوگ امریکہ اور یورپ کا نام لے رہے ہیں۔ ان کا سرمایہ آرہا ہے، اور یہ بھی بحث چل رہی ہے کہ بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کرنے کا طریقہ نکال لیا گیا ہے ذرائع ابلاغ کی صورت میں۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ آزاد ہیں اور وہ اپنا ایجنڈا خود سیٹ کررہے ہیں۔ لیکن معلوم یہ ہورہا ہے کہ ذرائع ابلاغ اپنا ایجنڈا خود سیٹ نہیں کررہے ہیں۔ اس ایجنڈے کا ہمارے مذہب سے، ہماری تہذیب سے، ہماری تاریخ سے، ہماری معاشرت سے، ہمارے اجتماعی اہداف سے، ہمارے نصب العین سے نہ کوئی تعلق تھا، نہ ہے، اور نہ کوئی ایسا امکان نظر آتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق ہوگا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کا اگر آپ تجزیہ کریں، پچاس کالم نویسوں کے کالموں کا اگر تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں دانش وری کا مواد صفر ہے۔ روزمرہ کی بنیاد پر سیاست زیر بحث ہے۔ ان میں نہ ہماری تہذیب زیر بحث آرہی ہے، نہ ہماری تاریخ زیر بحث آرہی ہے، نہ ان میں ہمارا مذہب زیر بحث آرہا ہے، نہ ہماری بنیاد زیر بحث آرہی ہے، نہ ان کے اثرات زیر بحث آرہے ہیں، نہ ان کی اہمیت زیر بحث آرہی ہے۔ صرف سیاست زیر بحث ہے۔ سیاست بھی بہت سرسری زیر بحث ہے، اس کا کوئی علمی حوالہ موجود نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایسی افیون اپنی قوم تک ذرائع ابلاغ کے ذریعے منتقل کررہے ہیں، اور اگر ہمارے عوام اس کے عادی ہوگئے اور تقریباً عادی ہوچکے ہیں، تو پھر آپ جان لیں اس بات کا کوئی بھی امکان نہیں ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ سے تیار شدہ انسان کچھ دنوں کے بعد کچھ سنجیدہ سننے کے لیے تیار ہوں گے۔ جیسے ہی کوئی سنجیدہ بات کریں گے وہ شٹ ڈاؤن کی طرف جائیں گے، جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کمپیوٹر شٹ ڈاؤن ہوجاتا ہے۔ یہ عمل تو پہلے ہی سوسائٹی کے اندر موجود ہے۔ کسی مجلس کے اندر چلے جائیں، آپ کوئی سنجیدہ بات زیر بحث نہیں دیکھیں گے۔ لوگ بالکل غیر سنجیدہ بات کررہے ہوتے ہیں۔ سیاست زیر بحث ہوتی ہے یا روزمرہ امور زیر بحث ہوتے ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہورہا ہے کہ ذرائع ابلاغ ایجنڈا سیٹنگ کی کوئی صورت نہیں پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے پرنٹ میڈیا کا، ہمارے انگریزی میڈیا کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے، یعنی میں تقریباً تیس سال سے انگریزی اخبارات پڑھ رہا ہوں اور اپنے مشاہدے کی روشنی میں بتا سکتا ہوں کہ ان میں روزمرہ کی بنیاد پر ایسا مواد شائع ہورہا ہے کہ جو ہمارے مسلمہ تاریخی تصورات کو ملیا میٹ کررہا ہے، ان کے بارے میں کنفیوژن پھیلا رہا ہے، بے اعتباری کو پیدا کررہا ہے، جو ہمارے مذہب پر حملے کررہا ہے، ہماری تاریخ پر حملے کررہا ہے، جو ہماری اقدار کے پورے نظام کو تہس نہس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئینی طور پر تو پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن اس کے ذرائع ابلاغ اس کے اسلامی تصورات کو تہ و بالا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی کوئی مانیٹرنگ نہیں، ان کے خلاف احتجاج کی کوئی صورت نہیں۔ نہ یہ کسی سیاسی جماعت کو نظر آرہا ہے، نہ یہ علما کے کسی دائرے کو نظر آرہا ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر بہت حیرت ہوئی کہ حسینہ معین نے جو بڑے ڈراما نگاروں میں سے ہیں، ایک بڑے اخبار کو انٹرویو دیا، اس میں انہوں نے یہ بات کہی کہ ہمارے ڈرامے اب ایسے ہیں کہ ان کو ہم فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ یہ وہ بات ہے جو ہم پہلے ہندوستانی فلموں کے بارے میں کہتے تھے۔ ہندوستانی فلمیں ہم اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ یہ بات اگر کسی مولوی یا ملاّ نے کہی ہوتی تو لوگ کہتے کہ یہ تو مولوی ہیں، ان کا تو کام ہی یہی ہے، یہ اس طرح کی ہی بات کریں گے۔ لیکن یہ حسینہ معین نے کہا ہے اور بہت طویل گفتگو کی ہے انہوں نے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر ایسا مواد موجود ہے جس کے بارے میں ہمارے مذہبی طبقے کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہاں عریانی اور فحاشی ہے۔ آج ہمارے ذرائع ابلاغ پر ایسا مواد موجود ہے جس کے بارے میں عریانی اور فحاشی کے الفاظ بھی ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بات اب اس سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ قوم کے احساسات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے قومی ذرائع ابلاغ کا جو ایجنڈا ہے اس میں رتی برابر کی بھی گنجائش نظر نہیں آتی کہ وہ قوم کے اندر امید پیدا کرے، اس کو قومی تاریخ سے مربوط کرے، اس کے مذہب سے مربوط کرے، اس میں آرزو پیدا کرے، پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے ایک امید پیدا کرے اور بتائے کہ مسائل ہیں، مشکلات ہیں، لیکن ان مشکلات و مسائل سے نکلنے کی بھی کوئی صورت ہوسکتی ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کا اگر ایک نکاتی ایجنڈا کہا جائے تو وہ یہ ہے کہ ان کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ بحیثیتِ مجموعی دکانداری کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ دکانداری بھی اس کے لیے بہت چھوٹا لفظ ہے۔ اخبارات بھی دکانداری کررہے ہیں، ریڈیو، ٹیلی ویژن بھی دکانداری کررہے ہیں، اور اس دکانداری کے نتیجے میں پورا معاشرہ ایک بہت بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور کا نمونہ پیش کررہا ہے، اور ڈپارٹمنٹل اسٹور کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی، اس کا کوئی تہذیبی تصور نہیں ہوتا، اس کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔ اور وہ کسی بڑے تصور و نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے والے نہیں ہوتے۔
ذرائع ابلاغ اور قومی ایجنڈا
(ثروت جمال اصمعی)
یہ ایک اچھی کوشش ہے کہ ہم مل بیٹھ کر ذرائع ابلاغ کے لیے ایک قومی ایجنڈا طے کریں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سے چینل اور کون سے اخبارات ہیں جو ہمارے اس ایجنڈے کو لے کر چلیں گے۔ اب تو سیاست ، صحافت اور میڈیا سب پیسے والوں کا اور پیسے بنانے کا کھیل ہے۔ سب کے اپنے ایجنڈے ہیں۔ سب کا مطلوب و مقصود اپنے مفادات ہیں۔اور یہ کوئی چند شخصیات کا مسئلہ نہیں ۔ کثیر القومی کمپنیاں اس کے پیچھے ہیں ۔بین الاقوامی تنظیمیں اس کے پیچھے ہیں ۔ان کے فنڈز کام کررہے ہیں۔بلاشبہ کبھی مشنری صحافت بھی ہواکرتی تھی جس نے برصغیر میں آزادی کی تحریک کو کامیاب کیا۔محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، سید مودو دی رحمہم اللہ علیہ جیسی شخصیات ہواکرتی تھیں۔لیکن رفتہ رفتہ ہر پیسے والا اس میں کود پڑا۔ اور کیفیت یہ ہوگئی کہ ’’ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی ۔۔۔ رہ گئی معتبر نہ کسی معتبر کی بات‘‘ ۔ پھر باہر کی طاقتوں کے فنڈز اس میں استعمال ہونے لگے۔ یہ بیرونی طاقتیں اپنے ایجنڈے کے لیے، اپنے مفادات کی خاطر ہمارے معاشرے کو بالکل دوسرے رنگ میں رنگنا چاہتی ہیں۔اس کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے، ہمارا میڈیا جس طرح استعمال ہورہا ہے، ہماری اقدار جس طرح پامال کی جارہی ہیں، ہر معاملے میں کنفیوژن جس طرح پھیلایا جارہا ہے، وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔
اس لیے یہ کوئی چھوٹا سا مسئلہ نہیں ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر ایک قومی ایجنڈا طے کرلیں اور میڈیا سے کہیں کہ وہ اس پر کام کرے اور کام شروع ہوجائے۔ اس کے لیے ایک جہاد کی ضرورت ہے۔یہاں جہاد سے مراد بندوق کا جہاد نہیں بلکہ قلمی جہاد ہے۔ علمی جہاد ہے۔ تحقیق کا جہاد ہے۔یہ کرنے کا اصل کام ہے۔ اس کے لیے کچھ سوچ بچار کرنے والے لوگ مل بیٹھیں تو امید ہے کہ مفید نتائج سامنے آئیں گے۔ کوئی ٹھوس، سنجیدہ اور قابل عمل پروگرام بنے توباشعور، دردمند اور مخلص لوگ اس میں ضرور تعاون کریں گے۔ الحمد للہ یہ امت اتنی باشعور ہے، اتنی جاندار ہے کہ دین و ملت کی خاطر شروع کیے جانے والے مخلصانہ اور مفید کاموں کے لیے عملی تعاون میں، مالی وسائل فراہم کرنے میں اس کی جانب سے کبھی کوتاہی نہیں ہوتی۔ اس کو جہاد کے راستے پر لگایا گیا تو اس کے لیے حکومتوں ، تنظیموں اور جماعتوں سے کہیں بڑھ کر عام لوگوں نے وسائل فراہم کیے ۔ بعد میں یہ جہاد جو رنگ اختیار کرگیا، خانہ جنگی میں بدل گیا، وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ اس کے بھی اسباب ہیں ، سنگین غلطیاں ہیں، لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔اسی طرح دیکھیںجو خدمت کے ادارے ہیں، مساجد اور مدارس ہیں ان کے لیے عام لوگ ہی وسائل فراہم کرتے ہیں۔جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت کے ایک ذمہ دار نے مجھے حال ہی میں بتایا کہ اچھے منصوبے سامنے رکھے جائیں تو ان کے لیے لوگ کروڑوں روپے بھی بآسانی دے دیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے۔ میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ،ان کو تو ہارنا ہی ہارنا ہے۔تو یہ حالات ہیں، یہ مسائل ہیں۔ لہٰذابات صرف اتنی نہیں کہ ہم ایک ایجنڈا سیٹ کرلیں تو سب کچھ اس کے مطابق ہونے لگے گا۔
اگر بات یہ ہوتی کہ ہماری قیادت نے مقاصد پاکستان کے مطابق ایک قومی ایجنڈا تیار کررکھا ہے اور ذرائع ابلاغ کو اسے لے کر چلنا ہے تو ہمارا کام بہت آسان ہوجاتا۔ لیکن میرے علم میں تو سرے سے کوئی اچھا یا برا قومی ایجنڈا ہے ہی نہیں۔ہمارے ہاں تو ہر شخص کا ذاتی ایجنڈا ہے۔خاندانی ایجنڈا ہے۔جماعتی ایجنڈا ہے۔گروہی ایجنڈا ہے۔ جو سارا کا سارا اپنے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ حکمرانی ان کے خاندان میں رہے۔ان کے بیٹے اور بیٹیاں حکومت کریں۔لیکن حقیقتاً ہمارا ایک قومی ایجنڈا بھی ہے جسے ہم نے بھلا رکھا ہے۔ یہ وہ ایجنڈا ہے جو قائد اعظم اور تحریک پاکستان کی قیادت نے ہمیں دیا تھا۔ جو اقبال کے تصور پاکستان پر مبنی ہے۔ جس کے حوالے سے اقبال کا کہنا تھا کہ شمالی ہند میں بننے والی مسلم ریاست اسلام کے حقیقی طرز حکمرانی کو زندہ کرکے وہ داغ مٹائے گی جو اسلام کے دامن پر عرب امپیریلزم نے لگادیے ہیں۔ قائد اعظم اپنے سینکڑوں بیانات میں کہتے رہے کہ پاکستان دور جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنے گا۔اور دنیا کو ہم ایک نیا نظام دیں گے۔ایک سیاسی نظام بھی، ایک معاشی نظام بھی ۔ اسٹیٹ بینک کے شعبہ تحقیق کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ دنیا فساد سے بھر گئی ہے۔اور جس نظام پر یہ چل رہی ہے، وہ جاری رہا تو انسانی معاشرہ تباہ ہوجائے گی لہٰذا ہمارے ماہرین معیشت اور تحقیق کاروں کو اسلامی اقدار کی روشنی میں ایک نیا اور منصفانہ نظام معیشت دنیا کو دینا ہے۔
یہ تھا پاکستان کے لیے بانیان پاکستان کا ایجنڈا جسے ہمارا ایجنڈا ہونا چاہیے۔یہ تھا ہمارا قومی ایجنڈا جس پر ہمیں کام کرنا چاہیے۔ اس کے لیے کچھ لوگوں کو سیاست چھوڑ کر، سیاسی نعرہ بازیاں چھوڑ کر علمی و تحقیقی کام کیلئے جمع ہونا چاہیے تاکہ اس نظام زندگی کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے جو فساد کو مٹاتا ہے ، انسانوں کو تقسیم کرنے کے بجائے جوڑتا ہے ، نفرتوں کی آگ بھڑکانے کے بجائے اخوت و محبت کے پھول کھلاتا ہے۔ پاکستان اسی نظام عدل و رحمت کے نفاذ کے لیے بنایا گیا تھا۔اس ملک میں ، اس معاشرے میں اس نظام کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہمارے ذرائع ابلاغ کا اصل ایجنڈا ہونا چاہیے۔ اب تو ہمارے حکمراں اسلام کا نام کم ہی لیتے ہیں لیکن ماضی میں اس ملک کے کرتا دھرتایوم آزادی وغیرہ پر اپنے روایتی پیغامات میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا کرتے تھے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اسلام کا لائٹ ہاؤس قرار دیا جانا چاہیے تھا۔ خوشبو گھر کہا جانا چاہیے تھا۔یہاں سے ساری دنیا میں اسلام کی روشنی اور خوشبو پھیلنی چاہیے تھی۔ لیکن جن حالات سے ہم گزرتے رہے اور جو کچھ اس ملک میں ہوتا رہا اس کے نتیجے میں مفاد پرست اور خود غرض قوتیں غالب آتی چلی گئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کی قیادت کی تھی، جنہیں جہاز کا پائلٹ سمجھ کر ہندوستان کے مسلمان اس جہاز میں بیٹھے تھے،وہ جہاز بہت جلد اغواء ہوگیا۔ اغواء کار اس پر قابض ہوگئے۔اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس دور میںپاکستان کا نظریاتی قبلہ بدلنے کی کوششیں ان لوگوں نے کیں جنہوں نے چند سال پہلے خانہ کعبہ میں رمضان کی ستائیسویں شب میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں اقتدار ملے گا تو ہم پاکستان میںقرآن و سنت کا نظام نافذ کریں گے لیکن دو سال پہلے انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا کہ’’ عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے‘‘۔پھر اللہ کی لاٹھی جس طرح ان کے خلاف حرکت میں آئی وہ آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس اعلان کے چند ہفتوں کے بعد ہی بالکل غیر متوقع طور پر حالات ان کے خلاف ہوتے چلے گئے اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔اس ملک کا نظریاتی قبلہ بدلنے کی کوشش پر یہ فوری گرفت بتاتی ہے کہ اس ملک کے لیے اس کے حقیقی اور آئینی مقتدر اعلیٰ کا بھی ایک ایجنڈا ہے جسے کوئی بدل نہیںسکتا۔
بہرحال حکمرانوں کی نیتوں کے کھوٹ کے سبب خرابیاں بڑھتی رہیں، اصل قومی ایجنڈے سے فاصلے بڑھتے رہے۔ لہٰذا عوام بھی جو پاکستان کے اصل ایجنڈے سے پوری طرح مخلص تھے اور آج بھی ہیں ، مایوسی ، بے یقینی اور بے اعتباری کے سبب ان میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئیں لیکن مقاصد پاکستان سے حقیقی معنوں میںاخلاص رکھنے والی قیادت ملک کو میسر آجائے تو عوام کا حال پلک جھپکتے بدل سکتا ہے۔ میں نے اپنی نوعمری کے دنوں میں 65ء کی جنگ دیکھی ہے ۔ ایوب خان نے سات ستمبر کی دوپہر ریڈیو پر ایک تقریر کی اور اس میں کہا کہ دشمن نے اس قوم کو للکارا ہے جس کے دل لاالا الہ اﷲ کی صدا کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ان الفاظ نے جادو کا سا اثر کیا اورساری کی ساری قوم یک جہت اور یک جان ہو گئی۔ حب الوطنی اور دیانت داری کی ایسی مثال ان سترہ دنوں میں قائم ہوئی کہ چوروں نے چوریاں کرنی چھوڑ دیں۔جیب کتروں نے جیبیں کاٹنا چھوڑ دیں۔ ڈاکوؤں نے ڈاکے ڈالنا چھوڑ دیا۔اس وقت ہمیں میڈیا کی طاقت کا بھی بھرپور اندازا ہوا۔اس دور میں الیکٹرانک میڈیا کے نام پرصرف ایک ریڈیو پاکستان ہوا کرتا تھا ۔ اخبارات بھی آج کی طرح تکنیکی سہولتوں سے لیس نہ تھے۔ ٹیلی ویژن اس زمانہ میں ملک میں عام نہیں ہوا تھا۔لیکن اسی ریڈیو پر ہمارے دانشوروں نے ، ہمارے شاعروں نے ، ہمارے گانے والوں نے عجیب سماں باندھ دیا اور یہ سب کچھ اسلام کے حوالے سے تھا۔شہادت کی باتیں ، اﷲ اکبر کے نعرے، پاکستان کا مطلب کیا ،لاالہ الا اللہ کے نغمے۔لیکن جب وہ دور گزر گیاتو باقاعدہ منصوبہ بندی ہوئی کہ اب پھر قوم کو پھر دوسرے راستے پر لے جانا ہے۔چنانچہ اس فضا کو رفتہ رفتہ باقاعدہ کوشش کرکے ختم کردیا گیا۔تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے لیے واحد قوت محرکہ صرف اسلام ہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی اور قیام پاکستان کی جدوجہد ہی نہیں مسلم ملکوں میں انڈونیشیا سے الجزائر تک پچھلی صدی کے دوران استعماری قبضوں سے آزادی کی ساری تحریکیں اسلام کے نام پر چلیں۔ ایران میں صدیوں پرانی بادشاہت کے خاتمے کی تحریک اسلام کے نام پر برپا اور کامیاب ہوئی۔ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد اسلامی جذبے ہی سے جیتا گیا اور پچھلے سولہ برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی جدید ترین ٹیکنالوجی اور طاقتور ترین افواج رکھنے کے باوجود خاک نشین افغانوں کے جذبہ شہادت کے مقابلے میں مٹی کے مادھو ثابت ہوئے ہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ خود مول لی ہوئی اس مصیبت سے چھٹکارا کیسے پائیں۔ آج کا ترکی بھی اس حقیقت کا گواہ ہے کہ مسلم عوام اور معاشرے ہمیشہ اسلام کے نام پر متحرک ہوتے ہیں۔ وہ ملک جس پر ستر سال تک بالجبر سیکولرزم مسلط کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے معاشی ، سماجی اور سیاسی حالات بد سے بدتر ہی ہوتے چلے گئے، ڈیڑھ عشرہ پہلے جب اسے اسلام سے مخلص باصلاحیت قیادت ملی تو اس کے حالات تیزی سے بہتر ہونے لگے اور آج یہ ملک ترقی یافتہ دنیا میں ممتاز مقام رکھتا ہے اور عالمی سیاست میں اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ دوسرے تمام مسلم ملکوں سے بلند ہے۔یہ حقائق بتاتے ہیں کہ دوسری قوموں کی طرح مسلمان عوام کو قوم اور وطن کی محبت کی بنیاد پر منظم نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمان کا ذہنی سانچہ خاک وطن کو دیوتا بنانے پر راضی ہی نہیں ہوسکتا۔ مسلمان یا تو اللہ اور رسولؐ کا وفادار ہوگا یا کسی کا وفادار نہیں ہوگا ۔ اللہ رسول کا حوالہ نہ ہو تو وہ اپنے ذاتی مفادات کا بندہ تو بن سکتا ہے مگر قومی مفادات کے نام پر اس کے اندر کوئی جذبہ کم ہی جاگتا ہے۔ مسلم معاشروں میں کرپشن کا یہی اصل سبب ہے۔مسلم ملکوں کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب انہیں کسی ہیر پھیر کے بغیر اسلام کی بنیاد پر منظم کیا جائے کیونکہ مسلمان کے لیے واحد قوت محرکہ اسلام ہے۔
ان تفصیلات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہمارا قومی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ہمیں دنیا کے سامنے اپنے عمل سے اسلامی تعلیمات کے مطابق اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک منصفانہ نظام مملکت اور ضابطہ حیات کا ماڈل پیش کرنا ہے ۔ پارلیمانی خلافت کا تصور جو علامہ اقبال نے قرآنی تعلیمات سے اخذ کرکے دیا تھا،اسے قائم کرنا ہے۔ بانی پاکستان کی تلقین کے مطابق اسلامی اصولوں کی روشنی میں پوری دنیا کے سامنے موجودہ پریشان کن معاشی مسائل کا قابل عمل حل پیش کرنا ہے ۔ اس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے سب سے پہلے سماجی انصاف قائم کرنا ہوگا۔ہمارے یہاں جو لوٹ کھسوٹ ہے ، ہر طاقتور کمزور کا حق مار رہا ہے،اس کو ختم ہونا چاہیے۔ حصول تعلیم کے مواقع ،معاشی ترقی کے مواقع سب کے لیے یکساں ہونے چاہئیں۔ پورے ملک میں امیر غریب سب کے لیے ایک نظام تعلیم ہونا چاہیے جس کے اخراجات کم سے کم ہوں۔ایک غریب بچہ اگر فیس نہ دے سکے تو ریاست اس کی فیس دے۔تاکہ قوم کا بہترین ٹیلنٹ پروان چڑھے جو یقینی شواہد کے مطابق بگڑے ہوئے امیرزادوں کی نسبت نچلے طبقوں میں متوسط اور غریب خاندانوں کے بچوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ اساتذہ کا معیار بہتر بنایا بھی ضروری ہے جس میں تعلیم اور تدریسی صلاحیت ہی نہیں اخلاق و کردار کا کھراہونا بھی لازمی شرط ہو۔ ذرائع ابلاغ کی جانب سے باصلاحیت طالب علموں، بچوں اور جوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ہمارے کئی چینل رمضانوں میں عین افطار کے وقت غل غپاڑے کے ساتھ لوگوں میں کروڑوں کے انعامات بانٹتے اور یوں عملاً رمضان کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔جبکہ قوم اور ملک کی اصل خدمت یہ ہے کہ میرٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جو بچے امتحانات میں ٹاپ کرتے ہیں، اپنی محنت سے اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ، قوم کے اصل ہیرو اور مستقبل کے معمار وہ ہیں۔سائنس کے مختلف شعبوں کے کتنے طالب علم ہیں جو ہر سال نئے نئے اور مفید پروجیکٹ بناتے ہیں مگر ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ان کا برائے نام ذکر بھی کم ہی ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا میڈیا میرٹ کی، ان محنتی اور باصلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے ۔ انعامات اور مالی وسائل ان کے لیے مختص کیے جائیں۔
کرپشن اور دوسری سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے راہ ہموار کرنا بھی قومی ایجنڈے کا لازمی حصہ ہے جس کے حصول میں میڈیا کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اخلاقی بحران ہمارا بنیادی مسئلہ ہے جس کا ایک رخ کرپشن اور مالی بدعنوانیاں ہیں اور دوسرا رخ بے حیائی ، فحاشی، بداخلاقی اور جنسی بے راہ روی ہے جس کے فروغ میں ہمارا میڈیا اپنے تفریحی پروگراموں، ڈراموں اور اشتہارات کے ذریعے دن رات مشغول ہے۔ مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی عورت کو جنس بازار بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ ہمارے ہاں اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نام نہاد ترقی پسند اور بزعم خود روشن خیال عناصر ملائیت اور دقیانوسیت کا علم بردار قرار دیتے ہیں لیکن ایسے لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ بے حیائی اور فحاشی کے طوفان سے خود اہل مغرب کس قدر پریشان ہیں لیکن اس سے نجات حاصل کرنا ان کے لیے کس درجہ دشوار ہوگیا ہے۔ بطور مشتے نمونہ از خروارے انٹرنیٹ پر آپ بارہ مارچ 2013 کو جاری کی گئی وائس امریکہ کی وہ رپورٹ ملاحظہ فرمالیجیے جس کی سرخی ہے ’’ یورپی یونین: خواتین کی عریاں تشہیر پر پابندی کی تجویز‘‘۔ ستائیس یورپی ملکوں پر مشتمل یورپی پارلیمنٹ میں اس تجویز کے حق میں تقریر کرتے ہوئے برطانوی لبرل ڈیموکریٹ ممبر فلوایلا بنجامن نے کہا کہ ’’ عورت کو محض نمائش کی شے سمجھ لیا گیا ہے، ہمیں عورت کو شوپیس سمجھنے والی سوچ کو بدلنا ہے۔میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ ہم کس طرح عورت کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلائیں گے اور اپنے بچوں کو بے حیائی کے اس چنگل سے کیسے آزاد کراسکیں گے۔‘‘ اور پھر یہی ہوا کہ فحاشی کے کاروبار میںکھربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے طاقتور عناصر نے اس تجویز کو آزادی اظہار پر ناروا پابندی قرار دے کر پیسے کے بل پراس کے خلاف پرزور مہم چلائی اور اسے یورپی پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے مطلوبہ حمایت نہیں مل سکی۔لیکن مغرب کا یہ حشر ہمارے لیے بہرحال عبرت کا باعث ہونا چاہیے اور اس نوبت کے آنے سے پہلے ہی ہمیں خود کو درست کرنے کی فکر کرلینی چاہیے۔
قومی ایجنڈے کے حوالے سے ایک اور بڑا مسئلہ بنیادی معاملات کو متنازع بنانے اور طے شدہ امور میں کنفیوژن پیدا کرنے کی منظم کوششوں کی صورت میں ہمیں درپیش ہے جس کا میڈیا کی جانب سے مسکت جواب دیا جانا چاہیے۔ ملک کے قیام کو سات دہائیاں گزرجانے اور قرارداد مقاصد سے موجودہ دستور تک کے مراحل میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کو پوری طرح تسلیم کیے جانے کے باوجود یہ شوشا اب تک چھوڑا جاتا رہتا ہے کہ مسلمانان برصغیر نے بے مثل جدوجہد کرکے اور لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر یہ ملک قرآن و سنت کی حکمرانی کے لیے نہیں بلکہ سیکولر اسٹیٹ کے قیام کے لیے حاصل کیا تھا۔ اسی طرح صدارتی نظام کو بار بار قوم کی جانب سے مسترد کیے جانے اور اس کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان جیسا سانحہ جھیلنے کے بعد بھی پارلیمانی کے بجائے صدارتی طرز حکومت کو ملک کی ضرورت قرار دیا جارہا ہے۔ ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کا معاملہ آئین میں چار دہائی پہلے اس کے لیے قومی زبان کا فیصلہ ہوجانے کے بعد بھی اب تک معلق ہے اور اسے بھی متنازع بنارکھا گیا ہے۔ طے شدہ معاملات میں کنفیوژن پیداکرنے کی ان کوششوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ذرائع ابلاغ کو مسکت اور مدلل جوابات کے ذریعے ان کا سدباب کرناچاہیے کیونکہ طے شدہ معاملات کو متنازع بنائے رکھنا قوم کو قومی ایجنڈے اور اہداف کے حوالے سے پریشان خیالی میں مبتلا رکھنے کے مترادف ہے جبکہ یکسوئی اور یکجہتی کے بغیر کوئی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ آئین کی حکمرانی، قانون کی بالادستی، سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت کی ترویج ، مورثی قیادت کا خاتمہ اور قومی اتحاد و یکجہتی کا فروغ ہمارے قومی ایجنڈے کے بنیادی نکات ہونے چاہئیں۔ذرائع ابلاغ کو اسی ایجنڈے کو لے کر چلنا چاہیے۔لیکن اس کے لیے ایسے علمی، تحقیقی اور نشریاتی اداروں کی ضرورت ہے جو کسی کے ذاتی ، گروہی ، مسلکی یا سیاسی ایجنڈے اور مفادات کے تابع نہ ہوں بلکہ جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ہر قسم کے تعصبات سے بلند ہوکر پوری انسانیت کی فلاح و نجات کے راستے کی جانب رہنمائی کا کام کریں اور جن کے وابستگان فی الواقع اس کام کے اہل ہوں۔ باشعور، بے لوث ، مخلص اور دردمند اہل علم اور اہل خیر ایسے اداروں کے قیام کو اپنا ہدف بنائیں تو اللہ کی مدد ضرور ان کے شامل حال ہوگی اور اِن شاء اللہ کامیابی ان کا مقدر بنے گی۔