مسعود احمد برکاتی نے جنہیں بالعموم اُن کے رفقا ’’برکاتی صاحب‘‘ کہا کرتے تھے، اس دنیائے رنگ و بو سے آخر آخر کو اپنا منہ موڑ لیا اور ربِّ حقیقی سے جا ملے۔ وہ بہت عرصے سے بیمار تھے اور دفتر وغیرہ بھی پابندیٔ اوقات سے جانے کی جو ساری عمر عادت رہی، اس سے بھی مستغنی کردیے گئے تھے۔ ان کا شمار بلاشبہ اُن شخصیات میں کیا جاسکتا ہے جنہیں ’’محسنِ قوم‘‘ کا لقب دیا جائے تو ہر طرح بجا ہوگا، اس لیے کہ انھوں نے ہمدرد فائونڈیشن کے رسالے ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے ذریعے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے تک کم از کم پانچ نسلوں کی ذہنی، ادبی اور اخلاقی تربیت کی۔ اتنی مدت میں قومی تہذیب و معاشرت میں جانے کتنی تبدیلیاں آئیں، کتنے اتار چڑھائو آئے لیکن بچوں کا رسالہ ’’نونہال‘‘ اپنے ڈھب سے اور اسی سلیقے سے نکلتا رہا جس طرح 1953ء میں اس کا اجراء ہوا تھا۔ برکاتی صاحب اس کے پہلے شمارے ہی سے رسالے سے وابستہ ہوئے اور تقریباً 64 سال تک رسالے کے مدیر اعلیٰ رہے۔ ان کا نام اور ان کی تحریریں آج بھی کئی نسلوں کے حافظے میں محفوظ ہوں گی۔
اس کا واقعہ انھوں نے ایک مرتبہ مجھے بھی سنایا کہ ایک مرتبہ سفر میں ان کی طبیعت ناساز ہوگئی، ٹرین سے اتر کر وہ کسی قریبی کلینک میں گئے تو ڈاکٹر نے ان کا نام سن کر فیس لینے سے انکار کردیا اور وجہ یہ بتائی کہ آپ نے اپنے رسالے کے ذریعے مجھ میں جو لکھنے پڑھنے کا ذوق و شوق پیدا کیا اس کے بعد میں آپ سے فیس کیسے لے سکتا ہوں۔
ان کی خدمات کا غیر مرئی دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور معروف دانش ور ڈاکٹر محمود حسین نے ایک بار ان سے فرمایا تھا کہ رسالے کے ذریعے آپ قوم کے نونہالوں کی جو تربیت کررہے ہیں اس کام سے کبھی بددل نہ ہونا۔ اور یہ سچ ہے کہ انھیں کئی بار مختلف علمی، ادبی، صحافتی اداروں کی طرف سے پُرکشش پیش کشیں ہوئیں لیکن انھوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ’’نونہال‘‘ کو کیسے چھوڑ دوں، اس نے تو میری آغوش میں آنکھ کھولی ہے۔ جب کراچی سے فخر ماتری نے ایک نہایت قابلِ قدر اخبار ’’حریت‘‘ نکالا تو برکاتی صاحب کو انھوں نے حریت سے وابستگی کے لیے بہت اچھی تنخواہ کی پیشکش کی۔ برکاتی صاحب کے دل میں خیال آیاکہ اخبار اچھا ہے، کراچی کی بڑی بڑی تہذیبی شخصیتیں اس اخبار سے منسلک ہیں جیسے حسن مثنیٰ ندوی، کالم نگار نصراللہ خان، رضا علی عابدی وغیرہ، تو انھوں نے حکیم محمد سعید سے اس کا تذکرہ کیا۔ حکیم صاحب نے یہ سن کر صاف لفظوں میں فرمایا ’’حضرت! کوئی اور بات کیجیے۔ رسالہ چھوڑنے کا نام نہ لیجیے۔‘‘
برکاتی صاحب ٹھیرے وضع دار آدمی، اس کے بعد پھر کبھی انھوں نے کسی طرف دیکھا ہی نہیں۔
برکاتی صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ ان کے دادا مولانا برکات احمد ٹونک کے نواب کے وزیر خزانہ اور ان کے خصوصی مشیر تھے۔ جاگیر ملی ہوئی تھی اور گھر میں ہر قسم کی آسودگی تھی۔ اسی لیے برکاتی صاحب جب ڈیڑھ سال کے ہوئے تو ان کے والدِ ماجد کا انتقال ہوگیا لیکن معاشی آسودگی اور کشادگی کی وجہ سے انھیں کسی پریشانی یا کمی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ گھر میں ایک عمدہ کتب خانہ تھا جس میں ’’الہلال‘‘ کی فائلیں اور علمی و ادبی موضوعات پر سینکڑوں کتابیں تھیں۔ گھر کے علمی ماحول اور لائبریری کی وجہ سے انھیں مطالعے کی چاٹ بچپن ہی میں پڑ گئی۔ نوعمری ہی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ’’الہلال‘‘ کے شماروں کو نہایت دل چسپی سے پڑھتے تھے اور مولانا آزاد کی عبارتوں پر جھومتے تھے۔ یہاں تک کہ عمدہ ادبی عبارتوں کی عبارتیں انھیں زبانی یاد ہوگئی تھیں۔ جو بات حیرت انگیز ہے وہ یہ کہ بچپن میں انھوں نے بچوں کے کسی رسالے کو ہاتھ ہی نہیں لگایا، پڑھنا تو دور کی بات ہے۔ اصولاً تو اس کے بعد برکاتی صاحب کی نثر نگاری کو ادق اور دشوار ہونا چاہیے تھا، تحریر میں ثقیل اور مشکل الفاظ کا استعمال بہ کثرت ہوتا تو بھی تعجب کی بات نہ ہوتی، اس لیے کہ مولانا آزاد نے سہل زبان تو صرف ’’غبارِ خاطر‘‘ ہی میں استعمال کی ہے، ورنہ ان کی نثر کو بآسانی پڑھنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے عربی اور فارسی کا پس منظر رکھنا ازحد ضروری ہے، ورنہ تحریر کی تفہیم ہی دشوار ہوتی ہے۔ لیکن برکاتی صاحب کے مطالعے اور اخذ و استفادے میں ایسی برکت ہوئی کہ انھوں نے ساری زندگی آسان زبان لکھی۔ بچوں کے لیے لکھنا ایک طرح سے بچہ بن کر لکھنا ہے، اور یہ آرٹ ہر ادیب کو نہیں آتا۔ برکاتی صاحب نے نونہال میں جو کچھ لکھا، اس کے علاوہ بچوں کے لیے انھوں نے جو کتابیں لکھیں، انھیں پڑھیے تو اتنی شستہ، صاف اور سہل و رواں دواں زبان کہ حیرت ہوتی ہے۔ یوں دیکھیے تو برکاتی صاحب جو بچوں کے ایک ہر دل عزیز ادیب اور ایک مقبول رسالے کے مدیر ٹھیرے، لیکن خود ان پر بچپن کا زمانہ بیتا ہی نہیں۔ خود بتاتے تھے کہ بچپن میں کبھی کھیل کود کی طرف مائل ہی نہ ہوئے۔ اوائل عمر سے پڑھنے کی عادت گھٹی میں ایسی پڑی کہ کتابی کیڑے بن گئے۔ بیشتر وقت کتابوں کے مطالعے میں گزارتے تھے۔ ذرا بڑے ہوئے تو دارالعلوم خلیلیہ میں داخل کرا دیا گیا، جہاں آپ نے اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ گھر پہ ایک استاد انگریزی پڑھا کر انھیں خاندان میں پہلا فرد بنا گیا جس نے انگریزی کی تحصیل کی، ورنہ سبھی کو عربی، فارسی اور اردو کے سوا کسی اور زبان سے شغف نہ تھا۔
انگریزی سیکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ برکاتی صاحب نے انگریزی زبان کی کئی اہم ادبی کتابوں کو انگریزی سے اردو میں منتقل کیا۔ مثلاً الیگزینڈر ڈوما کا ترجمہ مونٹی کرسٹو کا خواب، چارلس ڈکنس کے ناول کا ترجمہ ’’ہزاروں خواہشیں‘‘ یا تھری مسکیٹرس کا ترجمہ ’’تین بندوقچی‘‘ کیا۔ برکاتی صاحب کی کئی زبانوں پر قدرت ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی زبان پر گرفت بہت اچھی ہوگئی۔ اردو زبان دانی میں انھیں املا اور انشا کے مسائل پر بہت اچھا عبور تھا اور انھوں نے املا میں بھی بہت جدتیں کیں، مثلاً نونہال میں ’’مدیراعلیٰ‘‘ ہمیشہ ’’مدیر اعلا‘‘ چھپتا رہا۔ اس تبدیلی کے لیے دلیل یہ تھی کہ املا کو آواز سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
برکاتی صاحب نے ایک زمانے تک یونیسکو کے رسالے ’’پیامی‘‘ کو بھی اردو میں منتقل کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ جن لوگوں نے یہ رسالہ پڑھا ہے، وہ تصدیق کریں گے کہ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے یہ رسالہ کتنا مفید اور معلومات افزا تھا۔ بلاشبہ برکاتی صاحب سیلف میڈ انسان تھے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی وہ تن تنہا ٹونک سے چل کر حیدرآباد آبسے۔ خاندان وہیں ٹونک میں رہ گیا تھا۔ یہاں کچھ عرصہ ٹیوشن پڑھا کر گزارا کیا، کیوں کہ ابتدا میں والدہ منی آرڈر سے رقم بھیج دیا کرتی تھیں جس سے اخراجات پورے ہوجاتے تھے، لیکن پاکستان، ہندوستان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو منی آرڈر پر پابندی لگ گئی۔ ٹیوشن میں ملتا ہی کیا تھا، ماہانہ 6 روپے۔ جس کے بعد انھوں نے پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت کرلی۔ کچھ عرصے بعد والدہ اور بڑے بھائی حکیم محمود احمد برکاتی پاکستان آگئے، اور یوں معاشی معاملات آہستہ آہستہ سدھرتے گئے۔ برکاتی صاحب نے بابائے اردو کی انجمن ترقی اردو سے نکلنے والے رسالے ’’معاشیات‘‘ کے لیے ایک زمانے تک لکھا، اس کے ایڈیٹر محمد احمد سبزواری تھے۔ برکاتی صاحب کی انھوں نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ ’’معاشیات‘‘ کے لیے برکاتی صاحب نے اشتراکیت کے موضوع پر قسط وار مضامین لکھے جو معلومات افزا ہونے کی وجہ سے پڑھنے والوں میں بہت پسند کیے گئے۔ اس کے بعد ہی کسی ذریعے سے برکاتی صاحب کی ملاقات حکیم محمد سعید شہید سے ہوگئی۔ حکیم صاحب نے برکاتی صاحب کو اپنے ڈھب کا پایا تو انھوں نے ہمدرد فائونڈیشن سے وابستہ کرلیا۔ 1953ء میں حکیم صاحب نے ’’نونہال‘‘ رسالہ بچوں کے لیے نکالا تو برکاتی صاحب کو رسالے میں شامل کیا اور جلد ہی انھیں رسالے کا ایڈیٹر بنادیا۔ یوں ہمارے برکاتی صاحب نے 64 سال تک اس رسالے کی اپنی خونِ جگر سے آبیاری کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’نونہال‘‘ ایک رجحان ساز رسالہ ثابت ہوا اور اس کی دیکھا دیکھی بہت سے رسالے نکلے۔ چوں کہ خود میں بھی احمد فوڈ انڈسٹریز کے رسالے ’’آنکھ مچولی‘‘ کا آٹھ سال تک مدیر اعزازی رہا ہوں اس لیے اچھی طرح جانتا ہوں کہ بچوں کا رسالہ نکالنا کوئی آسان نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ بچوں کا رسالہ منافع بخش نہیں ہوتا، کیوں کہ اسے اشتہارات مشکل سے ملتے ہیں۔ مشتہرین کا عذر یہ ہوتا ہے کہ چوں کہ بچے خریدار نہیں ہوتے اس لیے بچوں کے رسالے میں اشتہار دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بچکانہ اشیاء بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ ان کے اشتہارات کے معاوضے کی ادائیگی سے رسالہ منافع کما سکے۔ پھر یہ کہ اکثر والدین اپنی جہالت و غفلت کی وجہ سے اپنے بچوں کو رسالے پڑھنے سے روکتے ہیں، ان کے خیال میں نصاب سے تعلق نہ رکھنے والے رسالوں میں قصہ کہانی پڑھنے سے بچے کا وقت ضائع ہوتا ہے اور نصاب سے توجہ ہٹ جاتی ہے، اس لیے یک سوئی اور دل جمعی کے لیے بچوں کو صرف نصابی کتابوں سے ہی اپنا تعلق رکھنا چاہیے۔ پھر یہ کہ بچوں کے رسالے کی قیمت بھی کم رکھنی پڑتی ہے تاکہ جو بچہ اپنے جیب خرچ سے رسالہ خریدنا چاہے وہ آسانی سے خرید سکے۔ انہی وجوہ کی بنا پر بچوں کا رسالہ نکالنا محض ذوق و شوق کا معاملہ رہ جاتا ہے۔ اگر حکیم سعید شہید کو برکاتی صاحب جیسا اہل، مستقل مزاج اور حاملِ استعداد مدیر نہ ملتا تو یہ کہنا مشکل ہوگا کہ نونہال اور خود ہمدرد صحت اتنی مدت تک پابندی سے نکل سکتا۔
شخصی اعتبار سے برکاتی صاحب نہایت شگفتہ مزاج بلکہ بزلہ سنج اور وضع دار و بے تکلف واقع ہوئے تھے۔ بچوں کے ساتھ تو بالکل ہی بچے بن جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب ایک دن میں ان کے گھر گیا تھا تو انھوں نے اپنے پوتے اور نواسے کا تعارف مجھ سے یہ کہہ کر کرایا کہ ان سے ملیے یہ ہیں میرے دادا جان اور یہ ہیں میرے نانا جان۔ بچے ہنسے اور شرما کر بھاگ گئے۔
ان کی شگفتہ مزاجی کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے پیرانہ سالی میں ایک اور شادی کر ڈالی۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ برکاتی صاحب دوسری شادی کا تجربہ کیسا رہا؟ مسکرا کر فرمایا ’’بھئی دوسری شادی کرکے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آدمی کو پہلی شادی بھی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
ہم دونوں دِلّی ساتھ گئے تھے۔ قیام و طعام بھی اس سفر میں ساتھ ساتھ رہا۔ اس سفر کی حسین یادیں آج بھی میرے لیے سرمایے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب بھی ہم ملتے دِلّی کی یادوں کو دہراتے اور ان پُرلطف یادوں سے اپنے قلب و ذہن کو معطر کرتے۔
برکاتی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں دولت، اقتدار اور سوشل اسٹیٹس کی ایک لامتناہی نامختتم دوڑ لگی ہو، چوہوں کی دوڑ… خوشی کی بات یہ ہے کہ برکاتی صاحب اس دوڑ میں کبھی شریک نہیں ہوئے۔ انھوں نے ساری زندگی نہایت اعتماد اور وضع داری سے ایک ایسے کام سے خود کو وابستہ کیے رکھا جسے کم سے کم لفظوں میں ’’قوم سازی‘‘ کا عمل کہا جاسکتا ہے۔ یوں ان کی زندگی بامقصد گزری، اسی لیے انھیں کبھی شکوہ سنج نہیں پایا۔
خداوند تعالیٰ ان کی روح کو سکون عطا فرمائے، آمین۔