فاٹا اصلاحات کا ایشو ویسے تو بہت عرصے سے زیربحث چلا آرہا ہے، اور یہ ایشو اپنی اہمیت کے باعث گزشتہ کئی ماہ سے میڈیا کا سب سے اہم اور ہاٹ ایشو قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن پچھلے چند روز کے دوران اس حوالے سے جو ہلا گلا دیکھنے میں آرہا ہے اس سے یہ ایشو مزید اہمیت اور شدت اختیار کرگیا ہے۔ اس ضمن میں آئینی اور انتظامی لحاظ سے تو کوئی پیش رفت نہیں ہوئی البتہ اس حو الے سے اصلاحات اور قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی حامی قوتوں کی جانب سے جو جوش و خروش اور تیزی نظر آرہی ہے اس نے سردی کی شدت میں اضافے کے باوجود سیاسی ماحو ل کو بھی کافی گرما دیا ہے۔ فاٹا اصلاحات کے سلسلے میں سیاسی لحاظ سے پہلا پتھر حسبِ روایت جماعت اسلامی نے اپنے لانگ مارچ کی صورت میں اُس وقت پھینکا جب اُس نے بابِ خیبر سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد تک اپنے تین روزہ لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ اس مارچ کا آغاز 10 دسمبر کو بابِ خیبر جمرود سے ہزاروں قبائلیوں کی موجودگی میں کیا گیا جس میں باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک جماعت اسلامی کے کارکنان اور عام قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ تاریخی باب خیبر کے سائے میں منعقد ہونے والے مارچ کے آغاز کے موقع پر موجود شرکاء سے جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر مشتاق احمد خان، فاٹا کے امیر سردار خان، فاٹا سے سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید اور دیگر قبائلی راہنمائوں نے اپنے خطاب کے دوران فاٹا اصلاحات میں تاخیر پر جہاں وفاقی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں قبائل کو درپیش امن و امان، تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ان مسائل کا حل فاٹا اصلاحات کو قرار دیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ قبائل کے ساتھ اصلاحات اور انضمام کے نام پر جاری آنکھ مچولی اور چوہے بلی کا کھیل اب ختم ہوجانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ لاکھوں قبائل کو دربدر کرنے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو شروع دن سے فاٹا اصلاحات اور قبائل کو آئینِ پاکستان کے مطابق شہری حقوق دینے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ مقررین نے کہا کہ اس لانگ مارچ کا مقصد حکمرانوں پر فاٹا اصلاحات اور فاٹا انضمام کے لیے دبائو ڈالنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا یہ احتجاج پُرامن ہے اور احتجاج کا یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک فاٹا کو خیبر پختون خوا میں آئینی ترمیم کے ذریعے ضم نہیں کردیا جاتا۔
جمرود سے لانگ مارچ کے شرکاء حیات آباد رنگ روڈ سے ہوتے ہوئے جمیل چوک پشاور پہنچے جہاں انھوں نے علامتی دھرنا دیا، اور اس کے بعد المرکز الاسلامی جی ٹی روڈ پہنچ کر پہلے دن کا مارچ اختتام پذیر ہوا۔ مارچ کے شرکاء رات المرکز الاسلامی میں گزارنے کے بعد سوموار کے روز اسلام آباد روانہ ہوئے۔ سینکڑوں گاڑیوں اور ہزاروں شرکاء پر مبنی لانگ مارچ جی ٹی روڈ کے ذریعے پبی سے ہوتا ہوا جب نوشہرہ کینٹ پہنچا تو وہاں جماعت اسلامی نوشہرہ کے سینکڑوں کارکنان اور مقامی عہدیداران نے ان کا پُرجوش خیرمقدم کیا، جب کہ یہاں جمعیت (س) کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔ نوشہرہ میں کچھ وقت احتجاجی دھرنا دینے کے بعد مارچ کے شرکاء اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔
متذکرہ لانگ مارچ کے شرکاء جب تیسرے دن فیض آباد چوک سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تو وہاں ان کا استقبال جہاں جماعت اسلامی کے مقامی کارکنان اور عہدیداران نے کیا وہیں پنڈی اسلام آباد میں مقیم قبائلیوں کی ایک نمائند ہ تعداد بھی احتجاجی مارچ میں شریک ہوگئی۔ منگل کے روز اسلام آباد میں شدید بارش اور سردی کے باوجود ہزاروں افراد نے مارچ میں شرکت کی جس سے جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر مشتاق احمد خان، فاٹا کے امیر سردار خان اور صاحبزادہ ہارون الرشید کے علاوہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق نے خصوصی خطا ب کیا۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ مظلوموں کی پشتی بانی کی ہے اور اِس وقت قبائل پاکستان کے سب سے بڑے مظلوم ہیں جن کی کسی بھی فورم پر کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے، لہٰذا جماعت اسلامی نے قبائل کی آواز حکمرانوں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے یہ لانگ مارچ کیا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ اگر 31 دسمبر تک فاٹا اصلاحات پارلیمنٹ سے منظور نہ ہوئیں تو ہم حکمرانوں کو بتائیں گے کہ دھرنا کیا ہوتا ہے۔ سالِ نو کے آغاز پر اسلام آباد میں مستقل دھرنا دیتے ہوئے اسے خیمہ بستی کے شہر میں تبدیل کردیں گے۔ ملک بھر سے جماعت اسلامی کے کارکنان بستر اور خیمے لے کر اسلام آباد پہنچیں گے۔ اس احتجاج کے دوران ہم شہروں کی بندش کے بجائے ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کی تالا بندی کریں گے۔ سراج الحق نے کہا کہ قبائلی عوام کو مارا بھی جارہا ہے اور انہیں رونے بھی نہیں دیا جارہا، اس ظلم پر ہم مزید خاموش نہیں رہیں گے۔ قبائل اتنے ہی محب وطن اور ملک کے وفادار ہیں جتنا کوئی اور ہے، انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھ کر نہ صرف آئین پاکستان کا مذاق اڑایا جارہا ہے بلکہ اس منفی طرزعمل کے ذریعے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی روح کو بھی تڑپایا جارہا ہے جن کی دعوت پر قبائل نے غیر مشروط طور پر پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔
احتجاجی مارچ سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فاٹا کے لوگ پاکستان میں شمولیت کا مطالبہ لے کر پارلیمنٹ ہائوس آئے ہیں، بجائے اس کے کہ حکومت اس پر خوش ہو کہ آزاد قبائل کہلائے جانے والے یہ لاکھوں لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں، الٹا ان کو پاکستان سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر 2018ء کے انتخابات سے قبل فاٹا کو خیبر پختون خوا میں شامل نہ کیا گیا تو پیپلزپارٹی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر اس ظلم کے خلاف بھرپور احتجاج پر مجبور ہوجائے گی۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ جس دن ہزاروں قبائل جماعت اسلامی کی اپیل پر فاٹا انضمام کے لیے لانگ مارچ کررہے تھے، اسی روز وفاقی حکومت کے اعلان کے مطابق قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات سے متعلق بل پیش کیا جانا تھا جو اس روزکے قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں بھی شامل تھا، لیکن عین آخری لمحات میں اس بل کو مؤخر کرکے اگر ایک طرف اپوزیشن کو شدید احتجاج پر مجبور کیا گیا تو دوسری طرف شدید بارش اور سردی میں اسلام آباد کی سڑکوں پر فاٹا انضمام کے مطالبے کے لیے سراپا احتجاج قبائل کی خواہشات اور آرزوئوں کا خون بھی کیا گیا۔ واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے فاٹا انضمام بل کو ایک بار پھر سرد خانے کی نذر کیے جانے کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کی بلکہ اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اُس وقت تک اپنا احتجاج اور بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا جب تک مؤخر شدہ فاٹا اصلاحات بل کو قومی اسمبلی میں پیش نہیں کردیا جاتا۔ اس ضمن میں اپوزیشن راہنما خورشید شاہ، پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی اور جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے بھی اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو آگ سے نہ کھیلنے اور ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیا۔ ایجنڈے پر پہلے سے موجود فاٹا اصلاحات بل کو ایک بار پھر مؤخر کیے جانے کے متعلق سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس التوا کا مقصد جہاں فاٹا انضمام کی مخالف حکومتی اتحادی جماعتوں جمعیت(ف) اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے قائدین کو خوش کرنا تھا وہیں اگر اس موقع پر یہ مجوزہ بل اسمبلی میں پیش کردیا جاتا تو چونکہ اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو اس کے لانگ مارچ کی وجہ سے ملنے کا امکان تھا، اس لیے عین ممکن ہے کہ حکومت نے ایجنڈے پر موجود ہونے کے باوجود فاٹا اصلاحات بل کو جمعیت(ف) کے کہنے پر مؤخر کیا ہوگا، کیونکہ جمعیت(ف) فاٹا اصلاحات بل کو کسی بھی صورت اسمبلی سے پاس کیے جانے کے حق میں نہیں ہے، بالخصوص ایک ایسے موقع پر جب اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو ملنے کا واضح امکان تھا۔ شاید یہی وہ پس منظر ہے جس کے باعث حکومت پہلے سے ایجنڈے پر موجود بل کو مؤخر کرنے پر مجبور ہوگئی۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے وعدے کے مطابق یہ بل کب اسمبلی میں پیش کرتی ہے۔ اور اگر بالفرض حکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر دیکھنا یہ ہوگا کہ فاٹا انضمام کی حامی تمام جماعتیں جن میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی، اے این پی اور جمعیت(س) شامل ہیں، اس حوالے سے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے احتجاج سمیت سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے آپشن کھلے ہیں، لہٰذا یہ انضمام کی حامی قوتوں کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس ضمن میں کس آپشن کو بروئے کار لاتی ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے، جب کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق 31 دسمبر کے بعد اسلام آباد میں ایک بڑے دھرنے کا الٹی میٹم پہلے ہی دے چکے ہیں۔