سید وجیہ حسن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پچھلے ہفتے سے ایک بار پھر پوری دنیا میں گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اُن کا یہ اعلان کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ یروشلم (بیت المقدس) کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا جائے‘‘ پوری مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ ٹرمپ صرف یہ کہہ کر رک نہیں گئے بلکہ انہوں نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’میرا یہ اعلان اسرائیل و فلسطین تنازع کے حل کے لیے نئی حکمت عملی ہے۔‘‘
ٹرمپ کے اس اعلان کے نتیجے میں کچھ باتیں اسرائیل فلسطین تنازعے کے حوالے سے طے ہوتی نظر آرہی ہیں:
٭…اوّل یہ کہ اب اسرائیل و فلسطین دو ریاستی حل (Two State Solution)کا دروازہ بند ہونے جارہا ہے، کیونکہ کوئی بھی فلسطینی ریاست بغیر بیت المقدس کے نامکمل ہوگی اور فلسطینیوں کے لیے ناقابلِ قبول ہوگی۔
٭…دوم یہ کہ اس معاملے میں امریکہ کو اقوام متحدہ اور عالمی برادری خصوصاً مسلم ممالک کے تحفظات کی کوئی پروا نہیں۔ وہ اگر اس کے اقدام کو ناپسند کریں تب بھی وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھے گا۔
ٹرمپ کے اس اعلان کا لازمی نتیجہ مسلم دنیا میں شدید ردعمل کا پیدا ہونا تھا۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دے کر فلسطین کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ حماس نے نئی انتفادہ تحریک کا بھی اعلان کردیا ہے۔ پوری مسلم دنیا سے امریکہ کے اس فیصلے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ ارضِ فلسطین تو اگلے دن ہی سے سراپا احتجاج بن گئی تھی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارہ ہو یا مشرقی بیت المقدس اور غزہ… ہر طرف فلسطینی احتجاج کررہے ہیں۔اسرائیلی سفاکی بھی عروج پر ہے۔ مظاہرین پر اسرائیلی فوج اور پولیس ٹوٹ پڑی ہے۔ کئی شہادتیں ہوئی ہیں اور 1700 سے زائد زخمی ہیں۔ اسرائیل کی جیلیں فلسطینی نوجوانوں سے بھر گئی ہیں۔ غزہ پر بمباری بھی ہوئی ہے۔
ہمارے کچھ تجزیہ نگار نہ صرف اس صورتِ حال کو بلکہ امریکہ کے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویّے اور بدلتے ہوئے تیور، اور اسی طرح مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے نئے فیصلوں کو امریکی صدر کی تلون مزاج شخصیت اور ڈپلومیٹک سرکلز کے عدم تجربے کا نتیجہ قرار دیتے نظر آتے ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ وقتی ہے جو کچھ ہی عرصے میں ٹرمپ کے ان اقدامات کے نتیجے میں غیر مقبول ہوجانے کی صورت میں بدل سکتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ صورتِ حال کا بہت ہی سطحی تجزیہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی منصبِ صدارت پر پہنچنا اس بات کی دلیل تھی کہ دنیا بھر میں امریکہ کے اثر و نفوذ میں واضح اور مستقل واقع ہوتی کمی کو امریکی اسٹیبلشمنٹ بہت غور سے دیکھ رہی ہے اور اسے اس بات کا احساس ہے کہ مہلتِ عمل تیزی سے ختم ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپشنز بھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے کرسیٔ صدارت سنبھالتے ہی امریکہ اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ وہ اپنے پچھلے تمام فیصلوں اور پالیسیوں پر نئے سرے سے نظرثانی کرسکے۔
امریکہ افغانستان میں 16 برس سے پھنسا ہوا ہے۔ اسے چین کے بڑھتے ہوئے معاشی حجم اور تیزی سے پھیلتے ہوئے سیاسی اور اسٹرے ٹیجک وزن سے خوف لاحق ہے۔ چنانچہ ٹرمپ کے آنے کے بعد Indo Pacific اتحاد پر امریکہ نے کام کیا ہے، اور اب جاپان، آسٹریلیا، بھارت کے ساتھ مل کر بحر اوقیانوس سے بحرہند تک نگرانی کا نظام تشکیل دیا جارہا ہے جو ناٹو کی طرز پر تشکیل دیا جائے گا، اس میں آسیان (ASEAN) کے رکن ممالک بھی شریک ہوسکیں گے۔ کئی ممالک نے اپنی شمولیت کا عندیہ پہلے ہی دے دیا ہے۔ یہ اتحاد معاشی اور فوجی تعاون کا اتحاد ہوگا۔F-16 طیاروں کی بھارت میں تیاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ مختلف جانب سے یہ بات آتی رہی ہے کہ اگر پاکستان نے امریکی ڈکٹیشن نہ مانی تو کوئی بھی واقعہ (خدانخواستہ) اس بات کی بنیاد بن سکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بڑی اور براہِ راست کارروائی کا فیصلہ کرلیا جائے۔
یہی حال مشرقِ وسطیٰ کا ہے۔ 2003ء میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ عراق پر ایک جھوٹا الزام لگاکر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس شہادتیں ہیں کہ عراقی حکومت خفیہ طور پر ’’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘‘ (WMDs) بنارہی ہے جن سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہے۔ لیکن جلد ہی امریکہ کے اصل اہداف واضح ہوگئے جب اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے نئے مشرق وسطیٰ کے جنم کی خوش خبری دنیا کو سنائی۔ ایسا مشرق وسطیٰ جس کی بنیاد شیعہ سنی چشمک کی بنیاد پر رکھی جانی تھی۔ بیروت سے دمشق، بغداد اور تہران تک امتِ مسلمہ کی تقسیم پیش نظر تھی کہ آئندہ کئی نسلوں تک خدانخواستہ یہ خونیں تفریق قائم رہے اور امتِ مسلمہ آپس میں ہی دست و گریباں رہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدرِ امریکہ بننے کے بعد اب امریکہ مشرق وسطیٰ کے لیے اپنی نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ ٹرمپ ایران کے ساتھ اپنے پیشروئوں کی ڈیل سے فرار کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں، اور سعودی عرب اور اُس کے اتحادیوں کے ساتھ نئے عہد و پیمان کیے جارہے ہیں۔ کل کے معتوب آج منظورِ نظر بن رہے ہیں اور کل کے محبوب سے اب اجنبیت برتنے کی تیاری ہورہی ہے۔ امریکہ کی دوستی نہ کل قابلِ اعتبار تھی اور نہ آج قابلِ بھروسا۔ لیکن کیا کریں مسلم دنیا کے حکمران طبقے کا کہ اسے پسند ہی دوست نما دشمن آتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کا اہم ترین ستون اسرائیل ہے، جبکہ دیگر عرب ممالک کو بھی دوستی کا لالچ دے کر مہنگے داموں جنگی کھلونے بیچے جارہے ہیں، جن کا استعمال نہ جانے کس کے خلاف ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کی امریکی پالیسی آج بھی شیعہ سنی چشمک (Friction) ہی پر استوار ہے۔ عوامی سطح پر اس لڑائی کو ہوا دے کر اس سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پراکسی کے بجائے امریکہ اب براہِ راست لڑائی کی طرف حالات کو دھکیلنا چاہتا ہے۔ اس کا آغاز ٹرمپ کے دورۂ مشرقِ وسطیٰ سے کردیا گیا ہے۔
اس صورتِ حال میں اگرچہ ترکی کے صدر کی جانب سے امریکی صدر کے فیصلے کی بھرپور مذمت کی گئی ہے اور جوابی عملی اقدامات کی دھمکی بھی دی گئی ہے، لیکن عمومی طور پر مسلم ممالک کی حکومتوں کا ردعمل کسی بھی طرح غیر معمولی نہیں کہا جاسکتا۔ سعودی عرب، پاکستان، ایران، اردن وغیرہ کی حکومتوں نے سرکاری بیان کے ذریعے امریکہ کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے، لیکن مجموعی طور پر امریکہ کو اس انتہائی اقدام سے باز رکھنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ امریکہ کے اس فیصلے کے آٹھ دن بعد ترکی میںاسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) کا اجلاس ہورہا ہے، دیکھیے کیا عملی اقدامات اس اجلاس کے نتیجے میں مسلم حکومتوں کی جانب سے سامنے آتے ہیں۔
مسلم ممالک کے مقتدر طبقے کی ترجیحات اور ان کا مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے ماضیٔ قریب کا رویہ ہمیں کسی خوش فہمی کا متحمل نہیں ہونے دیتا۔ امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے بعدقطر اپنے عرب پڑوسیوں کی جانب سے ممکنہ حملے سے نمٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اب تک تقریباً12 ارب ڈالر کے جنگی سازو سامان کا آرڈر فرانس کو دیا جاچکا ہے (7 دسمبر۔ رائٹرز) جبکہ برطانیہ سے 6.7 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا الگ معاہدہ کیا گیا ہے (12 دسمبر۔ الجزیرہ)۔ اس طرح ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے دوران ہونے والے دفاعی معاہدے کی جو تفصیلات 22 مئی کو CNBC نے رپورٹ کی ہیں اس کے مطابق سعودی عرب امریکہ سے 100 ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ خریدے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اسلحہ اسرائیل کے حملے کے خوف سے نہیں خریدا جارہا بلکہ یہاں بھی سامنے امتِ مسلمہ ہی کا ایک عضو دشمن کی صورت میں موجود ہے، یعنی ایران۔ دوسری طرف ایران شام و عراق میں اپنے ہی مسلم بھائیوں کی دہشت گردی کا سر کچلنے کے لیے پچھلے 3۔4 سال سے سرگرم عمل ہے۔ 9 اکتوبر 2015ء کی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے جنرل حسین ہمدانی کا نقصان ایران کو اٹھانا پڑا جب وہ شام کے شہر حلب کے قریب شامی فورسز کے ہمراہ لڑتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ حالات اور بھی دگرگوںہوتے نظر آتے ہیں جب 16 اگست کی رائٹرز کی خبر پوری دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ روس کی طرف سے بشارالاسد کے خلاف مزاحمت کرنے والوں پر بمباری کرنے والے جہاز دراصل ایرانی سرزمین سے اُڑ کر ’’مسلم دہشت گردوں‘‘ کو خاک و خون میں نہلا رہے ہیں اور شہر کے شہر کھنڈر بنارہے ہیں۔
41 ملکی جنگی اتحاد بھی ٹرمپ اور اسرائیل کی پیش قدمیوں پر گنگ ہے۔ کیونکہ اس کے قیام کا مقصد بھی غیروں پر ظلم و زیادتی کو روکنا نہیں بلکہ اپنوں ہی کی سرکوبی کے لیے اسے تشکیل دیا گیا ہے۔
خود ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال میں کہ جب امریکی جنرل اور سی آئی اے کے سربراہ کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں، ہمارا حکمران طبقہ آج بھی پرانی روش پر قائم ہے۔ آج جب ملک کو اس بات کی ضرورت ہے کہ پوری قوم ایک آواز ہوکر بیرونی چیلنجوں کا سامنا کرے، ہمارا حکمران طبقہ عوام کو تقسیم در تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ لسانی بنیادوں پر تقسیم کے ساتھ فرقہ وارانہ اختلافات بھی بڑھتے جا رہے ہیں ہمارے حکمرانوں مسلم امت کو درپیش خطرات سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ایک ایسے وقت جب اتحاد کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، حکمران طبقہ امریکی طاقت سے مرعوب ہو کر صرف اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔