آخرکار وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، یعنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ معاملہ سفارت خانے کو صرف تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے تک رہتا تو شاید وہ بھی غنیمت تھا، لیکن امریکی صدر نے ایک فرمان کے ذریعے سارے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے اور وہ تصویر امریکہ کے محکمہ اطلاعات نے بہت طمطراق سے اشاعتِ عام کے لیے جاری کردی جس میں امریکی صدر اور اُن کے نائب مائیکل پینس دستخط شدہ دستاویز کی نمائش کررہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ اتفاق ہے یا صریح کوشش کہ پس منظر میں کرسمس ٹری(Christmas Tree) بہت نمایاں ہے۔ صدر ٹرمپ کے طرزِ سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ کرسمس ٹری کے سامنے تصویر کھنچواکر صدر ٹرمپ اس فیصلے کے مذہبی پس منظر کو نمایاں کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف امریکی وزیرخارجہ مسلمانوں کو تسلی دیتے پھر رہے ہیں کہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی تعمیر میں ابھی کئی سال لگیں گے۔
امریکی فیصلے کے مخالف صرف مسلمان نہیں، بلکہ عیسائی اور متوازن سوچ رکھنے والے یہودی بھی سخت مشتعل ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہارٹز (Haaretz)نے اس خط کی نقل شائع کی ہے جو یروشلم کے لاٹھ پادری یا Patriarch اور مختلف کلیسائوں نے صدر ٹرمپ کو بھیجا تھا۔ یہ مکتوب واشنگٹن میں کیتھولک چرچ کے پادری نے بدھ کو صدر ٹرمپ کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے بہ نفسِ نفیس امریکی صدر کو پہنچایا۔ اس خط میں مسیحی رہنمائوں نے متنبہ کیا تھا کہ بیت المقدس کی ہیئت اور حیثیت میں یک طرفہ تبدیلی سے امن اور امریکہ کی اخلاقی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ فیصلے کے اعلان کے بعد پاپائے روم اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس نے اس کی شدید مذمت کی۔ پوپ کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت میں یک طرفہ تبدیلی سے امنِ عالم خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ فیصلے کا اعلان ہوتے ہی کلیسائے بیت المقدس کے حکم پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مبینہ جائے پیدائش بیت لحم کے مرکزی کلیسا پر میلادِ مسیح یا کرسمس کا چراغاں بجھا دیا گیا۔ یعنی جب دل زخمی ہوں تو چراغاں نہیں ہوتا۔ سوگ کے اظہارکے لیے لوگوں نے اپنے گھروں کی بتیاں بھی بند کردیں۔ مصر کے قبطی عیسائیوں نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور امریکی نائب صدر مائیکل پینس کے دورۂ چرچ کی دعوت منسوخ کردی۔ پروگرام کے مطابق امریکی نائب صدر اس ماہ کے آخر میں مصر کا دورہ کریں گے اور اس موقع پر انھیں قبطی چرچ کے دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ لبنان، شام اور ترکی میں آباد مارونی(Maronites) عیسائیوں کے نمائندہ چرچ الکنیسہ الانطاکیہ السریانیہ المارونیہ نے صدر ٹرمپ کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ اسرائیل کے بعض سیاسی رہنما امریکی صدر کے اس اعلان کو وزیراعظم نیتن یاہو کے ڈولتے اقتدار کو سہارا دینے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے دوست کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم اور ان کی اہلیہ پر خردبرد، سیاسی رشوت، ایوانِ وزیراعظم کے اخراجات میں ہیر پھیر وغیرہ کے سنگین الزامات ہیں۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے مقدمات سے استثنیٰ کے لیے قانون سازی بھی کی ہے۔ ان سیاسی حربوں کے خلاف ایک عرصے سے اُن کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں جس میں گزشتہ چند ہفتوں سے شدت آگئی ہے۔ یروشلم کے متعلق صدر ٹرمپ کے اعلان کے ساتھ ہی نیتن یاہو نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ان مظاہروں کا مقصد صدر ٹرمپ کے فیصلے کو ناکام بنانا ہے۔ وزیراعظم کی لیکوڈ پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد ہونے والی بین الاقوامی تنقید کے خلاف قومی اتحاد کے بجائے یہ ’شرپسند‘ اسرائیلی عوام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ وزیراعظم کے خلاف مظاہرے اور اُن کے حامیوں کے جوابی جلسے جلوس یروشلم کے بجائے تل ابیب میں ہورہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود اسرائیلی بھی تل ابیب ہی کو اپنے ملک کا دارالحکومت سمجھتے ہیں۔
بلا استثنیٰ اس فیصلے نے ساری اسلامی دنیاکو متاثر کیا ہے اور عرب و مسلم ممالک کے ساتھ یورپ اور امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ عوامی دبائو اس قدر شدید ہے کہ امریکہ کے لیے انتہائی نرم گوشہ رکھنے والے خلیجی ممالک مصر اور اردن کو بھی سخت مؤقف اختیارکرنا پڑا اور قاہرہ میں جمعہ کی شام شروع ہونے والی عرب لیگ کی وزرائے خارجہ کانفرنس دوسرے دن فجر تک جاری رہی۔ اس موقع پر مشترکہ اعلامیے میں صدر ٹرمپ کے اعلان کو غیر قانونی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسل نے امریکہ پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا۔ جبران ایک راسخ العقیدہ عیسائی اور لبنانی صدر مشال نعیم عون کے داماد ہیں۔ شدتِ جذبات سے رندھی آواز میں جناب جبران نے کہا کہ بیت المقدس عربوں کا ہے اور اس کی یہ حیثیت کسی صورت ختم نہیں کی جاسکتی۔ 47 سالہ لبنانی وزیرخارجہ نے کہا کہ عرب ممالک فوری طور پر امریکہ سے اپنے سفارتی تعلقات پر نظرثانی کریں، اور اگر سفارتی و سیاسی دبائو کے بعد بھی واشنگٹن کے رویّے میں معقولیت پیدا نہ ہو تو اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں۔ تاہم اجلاس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اُس میں امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے یا پابندیاں عائد کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس اعلان سے مشرق وسطیٰ میں نئی سیاسی صف بندی کے آثار بھی نمایاں ہورہے ہیں۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے ترک ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہوئے امریکہ کے فیصلے کی مذمت کی اور اس کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے پر زور دیا۔ دوسری طرف ایران بھی سعودی عرب سے کشیدگی کم کرنے پر رضامند نظر آرہا ہے۔ ریاض کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ایک پیغام بھیجا ہے جس میں ایران نے سعودی عرب سے سفارتی تعلقات دوبارہ استوار کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ مڈل ایسٹ نیوز ایجنسی کے مطابق ایرانی رہنما کا یہ پیغام ایک ترک ایلچی نے ریاض پہنچایا۔ اسی کے ساتھ شام میں بھی گزشتہ ساڑھے چھے برسوں سے جاری خونریزی کے خاتمے کی حقیر، غیر واضح اور موہوم سی امید پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ 10 دسمبر کو دمشق کے سفارت کار بشار الجعفری امن مذاکرات کے لیے جنیوا پہنچ گئے جہاں اقوام متحدہ کے ثالث استفان ڈی مستورا(Sataffan De Mistura) کی قیادت میں ایک جامع مذاکرات کی کوشش کی جارہی ہے۔ نومبر کے آخر میں جعفری صاحب مذاکرات سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ حزبِ اختلاف نے یہ کہہ کر مذاکرات کو مہمل بنادیا ہے کہ شام کے آئندہ بندوبست میں بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ امریکہ کے وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کا ارشاد بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا۔ جنیوا سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے کے مطابق ڈی مستورا نے شامی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کے حوالے سے شامی حکومت کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اب بھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ جناب ڈی مستورا شامی وفد کے شکوک و شبہات دور کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے اور یہ مذاکرات منطقی انجام تک جاری رہ سکیں گے یا نہیں؟ کہا جارہا ہے کہ ترک صدر اردوان اور اُن کے روسی ہم منصب کے درمیان تفصیلی ٹیلی فونک گفتگو نے بات چیت کی راہ ہموار کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔ امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فوراً بعد صدر اردوان نے ایران اور روس کی قیادت سے بات کی تھی اور اُن کی درخواست پر ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای اور روس کے صدر پیوٹن نے شامی صدر کو مذاکرات میں شرکت پر آمادہ کیا۔
شام کے حالیہ تنازعے کا آغاز مارچ 2011ء میں اُس وقت ہوا جب جنوب میں واقع سرحدی شہر درعا میں طلبہ نے اسکول کی دیواروں پر اللہ، شام اور آزادی کے نعرے لکھ دیے۔ برسوں کی آمریت اور گھٹن کے ماحول میں یہ شامی عوام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا، لیکن بشارالاسد کی حکومت نے اسے کھلا غدر قرار دیا اور طلبہ کی اس تحریک کو سختی سے کچل دیا گیا۔ اس ہنگامۂ داروگیر نے عوام کو مشتعل کردیا اور پورا درعا شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ جلد ہی یہ تحریک حمص، حلب، الاذقیہ (لطاکیہ) اور دمشق تک پھیل گئی۔ بدقسمتی سے ایران اور خلیجی ممالک اس خانہ جنگی میں کود پڑے اور لبنان کی سرحد پر واقع شہرتلکلح میں سنّیوں اور علویوں کے درمیان خونریز تصادم نے شہری آزادی و جمہوریت کی اس تحریک کو فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کردیا۔ اسی دوران داعش کے ظہور نے شیعہ سنّی مفاہمت کی امید پر پانی پھیر دیا۔ ایران نے داعش کی سرکوبی اور بشارالاسد کی نصرت کے لیے پاسداران کے سپاہی بھیجے، اور لبنان کی حزب اللہ بھی غیر جانب دار نہ رہ سکی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی فضائیہ نے حزب اللہ پر تباہ کن حملے کرکے انھیں بھاری نقصان پہنچایا۔ جلد ہی شامی کرد بھی میدان میں آگئے۔ بشارالاسد نے حکومت مخالف تحریک کا الزام اخوان المسلمون کے سر تھوپ دیا اورکہا کہ یہ سارا فساد اخوانیوں کا پھیلایا ہوا ہے جنھیں کرد انصار المسلمین کے ساتھ صہیونی سامراج کی حمایت حاصل ہے، اور یہ ’’منحوس مثلث‘‘ شام کو بنیاد پرستی کے گڑھے میں گرانا چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے اخوان کے بزرگ رہنما حضرت یوسف القرضاوی نے شامی حکومت اور بشارالاسدکے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی اور ایسا تاثر ابھرا کہ گویا خلیجی ممالک کی مدد سے اخوان المسلمون بشارالاسد کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے۔ حالانکہ سعودی اور اماراتی حکومتوں نے مصر میں اخوان کے صدر مرسی کا تختہ الٹنے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھولے ہوئے تھے۔ اس تمام عرصے میں اسرائیل نے شام کی دفاعی تنصیبات اور حزب اللہ پر کاری ضرب لگائی۔ شامی حکومت کی حمایت میں روسی فوج نے شام میں پہلے سے قائم اپنے اڈوں کو وسعت دینی شروع کردی تو دوسری طرف سیکولر حزبِ اختلاف کی پیٹھ ٹھونکنے کے لیے امریکہ بہادر نے اپنے اڈے قائم کرلیے، جہاں سے امریکیوں کے ساتھ برطانوی و فرانسیسی طیاروں نے بھی معصوم شامیوں پر آگ برسانی شروع کردی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی کی کردش ڈیموکریٹک پارٹی یا PKK کا دہشت گرد ونگ عوامی دفاعی محاذ یا YPG بھی امریکہ کی سرپرستی میں سامنے آگیا۔ شام کا محاذ انتہائی گنجلک، پیچیدہ و پراسرار ہے، اور یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔
بدھ کو صدر ٹرمپ کے متکبرانہ خطاب نے علاقے کی صورت حال کو بالکل تبدیل کردیا ہے۔ امریکہ کے عرب دوست اور فرماں بردار سخت آزمائش میں ہیں کہ عوامی دبائو انتہائی شدید ہے جبکہ ذاتی مفادات کی بنا پر چچا سام کو آنکھیں دکھانا بھی ممکن نہیں۔ اس گومگو نے انھیں وقتی طور پر غیر مؤثر کردیا ہے۔ عرب عوام امریکہ کو ایک غیرجانب دار ثالث قبول کرنے کو تیار نہیں، اور روس اس خلا کو پُر کرتا نظر آرہا ہے۔ کریملن نے ترکی اور ایران سے پینگیں بڑھانی شروع کردی ہیں۔ ترکی ایک عرصے سے اسرائیل کے نشانے پر ہے اور حالیہ دورۂ فرانس میں بھی اسرائیلی وزیراعظم نے صدر اردوان کو شدید تنقید بلکہ ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی فوجی مشقوں اور عسکری نقل و حرکت نے غزہ، شام اور لبنان کی سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے اور کسی بھی وقت ایک خوفناک جنگ بعید از قیاس نہیں۔ اسی خطرے کے پیش نظر حزب اللہ کے دستے اب شام سے لبنان واپس جارہے ہیں۔ داعش بہت کمزور ہوچکی ہے اور اب اس کے مقابلے کے لیے بیرونی امداد کی ضرورت نہیں، چنانچہ11 دسمبر کو جب روسی صدر شام آئے تو انھوں نے وہاں سے روسی فوجی دستے واپس بلانے کا اعلان کردیا۔ سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات اخوان کو کچلنے کے لیے ہنوز پُرعزم ہیں لیکن محمود عباس کے لیے حماس کے خلاف مزید کارروائی اب بہت مشکل ہے کہ خود پی ایل او میں اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے اور عوامی سطح پر محمود عباس اور حماس کے اسماعیل ہانیہ کی زبان، انداز اور مؤقف میں بہت زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔
نئے زمینی حقائق کے پیش نظر ترکی ایران اور بشارالاسد سے کشیدگی ختم کرنے کا خواہش مند ہے تاکہ اسرائیل کی جانب سے اٹھنے والے خطرے کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے۔ دوسری طرف بشارالاسد کو بھی اندازہ ہے کہ اب اسرائیل کا نشانہ شام ہوگا اور نیتن یاہو کرپشن اسکینڈل کی طرف سے اسرائیلی عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کسی بھی وقت حزب اللہ (لبنان) اور شام کے خلاف بھرپور کارروائی کا حکم دے سکتے ہیں۔ شام کے بڑے حصے پر امریکی کنٹرول بھی بشارالاسد کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ صدر پیوٹن کی جانب سے اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان شام سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے دبائو ڈالنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ شام، ایران، ترکی اور فلسطین (حماس اور محمود عباس) کو اپنی سلامتی کی طرف سے سنگین خطرات لاحق ہیں اور اسی بنا پر یہ سب اپنے باہمی اختلافات کو پسِ پشت ڈالنے کو تیار نظر آرہے ہیں، اور مشترکہ دوست کی حیثیت سے روس ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے علاقے میں پہلے سے موجود ہے۔