عبدالخالق بٹ
ایک معروف مزاح نگار کاکہنا ہے کہ’’قائداعظم نے ایک پاکستان بنایا تھا، ہم نے دن رات محنت کرکے دو بنادیے‘‘۔ سچ یہ ہے کہ یہ مزاح نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی شعور پرگہرا طنز ہے۔ یہ عملاً ایک ایسی حقیقت ہے جس کی جڑیں ہماری قومی بے حسی، ملّی احسان ناشناسی اور عمومی زود فراموشی میں پیوست ہیں۔ نتیجتاً ہم ہی نہیں ہماری تاریخ بھی طنز بن کررہ گئی ہے۔ آج اس عہد ِ معلومات (information age) میں جبکہ دنیا بھر کی معلومات صرف ایک ’’ کلک‘‘کی دوری پر ہے، پاکستان کی نوجوان نسل میں سے کتنے فیصد ایسے ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ آج کا بنگلہ دیش کبھی پاکستان کا مشرقی بازو تھا۔ ان میں سے کتنے نوجوان اُن تلخ حقائق سے آگاہ ہیں جنہوں نے مشرق میں ہماری وحدت کو سوالیہ نشان بنادیا۔ اورکتنے اس بات سے واقف ہیں کہ 1971ء میں جب ’’بنگلہ بندو‘‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، اس دھرتی کا ایک سپوت ایسا بھی تھا جو نہ بنگالی تھا، نہ بہاری تھا اور نہ ہی پنجابی… وہ ہندو یا مسلمان بھی نہیں تھا، اس نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا اور ہوا کے مخالف کشتی کھیتا رہا… اور جب یہ قیامت خیز طوفان تھما تو اُس کی کشتی مغربی پاکستان کے کنارے پر تھی۔ پھر اس نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا، یہاں تک کہ چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلے میں آنکھ کھولنے والے اس سپوت نے مارگلہ کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔
چٹاگانگ کی پاکستان میں شمولیت:
1947ء میں برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی تو چٹاگانگ کا علاقہ مشرقی پاکستان کے حصے میں آیا۔ چٹاگانگ میں چکما قبائل کو اکثریت حاصل ہے، اس موقع پر یہاں کے بعض مقامی رہنماؤں نے اس شمولیت کی مخالفت کی اور بطور یونین ہندوستان کا حصہ بنائے جانے کا مطالبہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہماری جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں آزاد علاقہ قرار دیا جائے، جہاں ہم اپنے رسم و رواج کے مطابق گزر بسر کرسکیں۔ تاہم اس مطالبے کو پذیرائی نہیں ملی۔ 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے چٹاگانگ کا دورہ کیا تو چکما قبائل کے سرداروں نے یہ مطالبہ ان کے سامنے دہرایا۔ قائداعظم نے یقین دلایا کہ انہیں پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے مکمل آزادی دی جائے گی۔
چکما قبیلہ:
چکما قبیلہ46 ذیلی قبائل میں تقسیم ہے، جو چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلے (Chittagong Hill Tracts) اور اُس سے ملحقہ علاقوں ارونا چل پردیش، تریپورہ، آسام، میزورام، میگھالیہ اور مغربی بنگال میں سکونت پذیر ہے۔ تاہم بین الاقوامی حدبندی کے اعتبار سے یہ قبیلہ موجودہ بنگلہ دیش، شمالی ہندوستان، مغربی میانمر(برما) میں منقسم ہے۔ چکما قبائل کی غالب اکثریت بدھ مت کی مشہور تھراوادا(Theravada) شاخ سے منسلک ہے۔ چکما راجا ان قبائل کا سیاسی اور روحانی سربراہ ہوتا ہے۔ چکما قبیلے سے تعلق رکھنے والے نسلی، لسانی اور ثقافتی طور پر مشرقی پاکستان کے دیگر باشندوں سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔
چکما کا راجا:
1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان اپنے پیچھے قربانیوں کی لازوال داستانیں چھوڑ گیا۔ ان بے شمار گفتنی و ناگفتنی داستانوں کے درمیان ایک کہانی اسی چکما قبیلے کے راجا تری دیو رائے کی بھی ہے۔ برطانوی راج کے دوران راج باڑی، رنگامتی، چٹاگانگ میں 14مئی 1933ء کو چکما راجا نالی نکارائے کے ہاں ولی عہد نے جنم لیا، جس کا نام راجا تری دیو رائے رکھا گیا۔ تری دیو 20 سال کے تھے جب 1953ء میں والد کے انتقال پر چکما قبیلے کے 50 ویں راجا بنے۔ آپ اپنے لوگوں اور علاقے کی بہتری کے لیے سیاسی عمل کا حصہ بنے اور دو دفعہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ اپنے قبائل اور علاقے کے لیے اسپیشل اسٹیٹس کے پُرزور حامی تھے۔
شیخ مجیب کی پہلی پیش کش
مشرقی پاکستان میں 1970ء کے انتخابات سے قبل ہی بنگلہ بندو شیخ مجیب الرحمان کا سحر طاری ہوچکا تھا، اورآنے والے بدترین حالات کی دھمک صاف سنائی دے رہی تھی۔ شیخ مجیب مشرقی پاکستان میں 100فیصد کامیابی کے خواہاں تھے اور اس کے لیے انہوں نے راجا تری دیو سے بھی رابطہ کیا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ عوامی لیگ کسی ایک سیٹ سے بھی محروم ہو۔ تاہم راجا تری دیو نے بظاہر غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا اور عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے کی پیش کش کو رد کرتے ہوئے انتخابات میں آزاد حیثیت سے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ شیخ مجیب کو اندازہ تھا کہ بظاہر یہ غیر جانب داری درحقیقت پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان ہے۔
شیخ مجیب کی دوسری پیش کش:
1970ء کے انتخابی نتائج وہی رہے جس کا دھڑکا تھا، عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی کُل 162نشستوں میں سے 160نشستیں جیت لی تھیں، (یہ کامیابی متحدہ پاکستان کی کُل 300 سیٹوں کے نصف سے بھی زائد تھی) تاہم دو سیٹیوں پر اس کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی لیگ کے مقابلے میں جیتنے والوں میں ایک راجا تری دیو رائے اور دوسرے نورالامین تھے (جو بعد ازاں چند روز کے لیے وزیراعظم پاکستان اور پھر نائب صدرِ پاکستان بنائے گئے)۔ الیکشن سے قبل راجا صاحب کو رام کرنے میں ناکامی کے باوجود شیخ مجیب الرحمان نے انہیں عوامی لیگ میں شامل کرنے کی ایک اور کوشش کی، جس کے جواب میں راجا صاحب نے چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل حصے کے لیے خودمختاری کا مطالبہ کردیا۔ مگر شیخ مجیب اس پر تیار نہیں تھے۔
حالات کی سنگینی:
عوامی لیگ مغربی پاکستان میں کوئی ایک نشست بھی نہ ہونے کے باوجود متحدہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی، ایسے میں جب شیخ مجیب الرحمان نے ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی (قومی اسمبلی کی کُل81 نشستیں) کے قائد نے قلتِ تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ’’جو پارلیمنٹ کے اجلاس میں جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘‘۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ بھٹو صاحب نے ’’اُدھرتم اِدھرہم ‘‘کا نعرہ بھی لگادیا۔ اس سیاسی ابتری کے دوران جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاایڈمنسٹریشن کی جانب سے ’’فوجی ایکشن‘‘ کے فیصلے نے حالات کو بدسے بدتر کردیا۔ بھارت سے تربیت یافتہ عوامی لیگ کی مکتی باہنی نے غیربنگالیوں کی جان و مال پر بڑے پیمانے پر حملوں کے ساتھ ساتھ فوجی دستوں کو بھی نشانے پر رکھ لیا، جبکہ مکتی باہنی کے خلاف فوجی کارروائی کو بنگالیوں کی نسل کُشی سے تعبیرکیا گیا اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے اس پروپیگنڈے کو خوب ہوا دی۔
راجا کی سفارتی خدمات:
ان بدترین حالات میں نومبر1971ء میں جنرل یحییٰ خان نے راجا تری دیو رائے کو اسلام آباد طلب کرلیا اور اس مسئلے پر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بطورِ سفیر پاکستان خدمات انجام دینے کی درخواست کی، جو راجا صاحب نے قبول کرلی اور یوں وہ 3 دسمبر کو جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے دورے پر روانہ ہوگئے، اس دورے کے دوران جب وہ 16دسمبر 1971ء کو بنکاک پہنچے تو انہیں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی اطلاع ملی۔ یوں دورے کے نتائج آنے سے پہلے ہی جنگ کا نتیجہ آگیا اور راجا صاحب کو اسلام آباد لوٹنا پڑا۔
اب راجا صاحب کا خاندان، ان کا قبیلہ اور ان کا ہزار سالہ مسکن سب کچھ ’’بنگلہ دیش‘‘ میں رہ گیا تھا، ایسے میں انہوں نے اپنے کمسن بیٹے دیباشیش رائے کے حق میں قبیلے کی سربراہی سے دست بردار ہوکر صرف اور صرف پاکستان کا ہو رہنے کا فیصلہ کیا۔ راجا صاحب کے فیصلے کی گونج ڈھاکہ تک سنی گئی، نتیجتاً پاکستان سے وفاداری کی پاداش میں چٹاگانگ کے پہاڑوں میں بسنے والے چکما قبائل کا فوجی محاصرہ کرلیا گیا جو کم و بیش دوسال تک جاری رہا۔
جنگ ختم ہوچکی تھی مگر امتحان ختم نہیں ہوا تھا۔ 1972ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 27 واں اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد یہ اقوام متحدہ کا پہلا اجلاس تھا۔ اس میں اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی رکنیت کی درخواست زیر بحث آنا تھی۔ پاکستان اصولی طور پر بنگلہ دیش کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے خلاف نہیں تھا، لیکن اس کا مؤقف تھا کہ پہلے اس رکنیت کے لیے ضروری ضابطے پورے ہونے چاہئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے، جو اُس وقت صدرِ پاکستان تھے، پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لیے راجا تری دیو رائے کا انتخاب کیا اور انہیں اقوام متحدہ میں اپنے وفد کا سربراہ بناکر بھیجا۔ دوسری جانب شیخ مجیب الرحمان نے جو وفد نیویارک بھیجا اُس کی سربراہ راجا صاحب کی والدہ راج ماتا آف چکما رانی بانیتا تھیں۔ ظاہر ہے راج ماتا اپنی خوشی سے نیویارک نہیں آئی تھیں، انہیں اپنے لوگوں کی فکر تھی جو بنگلہ قوم پرستی کی زد میں تھے، پھر وہ اپنے بیٹے کی وطن واپسی کی بھی خواہاں تھیں۔
قیام بنگلہ دیش کے فوراً بعد جب راج ماتا نے شیخ مجیب سے ملاقات کی درخواست کی تو اُس نے درخواست یہ کہہ کر رد کردی کہ ’’اسے کہہ دو کہ وہ مغربی پاکستان چلی جائے‘‘۔ مگر پاکستانی وفد میں راجا تری دیو کی شمولیت اقوام متحدہ کی رکنیت کا معاملہ التواء میں ڈال سکتی تھی، چنانچہ بھارت کے ایما پر شیخ مجیب نے اپنے پہلے رویّے کے برخلاف راج ماتا سے ملاقات کی اور اُن سے کہا کہ’’ہاں اسے (راجا تری دیورائے کو) میری جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ مغربی پاکستان میں اسے دھمکا کر روکا گیا ہے۔ اسے واپسی پر آمادہ کرو، ہم ایک ہیرو کی طرح اس کا استقبال کریں گے‘‘۔ مگر راجا صاحب نے اپنے خاندان اور قبیلے کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا اور ماں کے اصرار کے باوجود شیخ مجیب کی پیش کش کو مسترد کردیا۔ راجا صاحب نے شدید جذباتی کردینے والے اس واقعہ کا احوال اپنی خودنوشت The departed Melody(سرودرفتہ) میں لکھا ہے۔
پاکستانی وفد کی غیر معمولی کامیابی:
راجا تری دیو کی قیادت میں جب پاکستانی وفد اقوام متحدہ پہنچا تو اُس وقت تک بھارت کی ’’مہربانی‘‘ سے بنگلہ دیش کی رکنیت کے حق میں فضا ہموار ہوچکی تھی، تاہم پاکستانی وفد نے جنرل اسمبلی میں بنگلہ دیش کی رکنیت اور جنگی قیدیوں کی واپسی کی قراردادوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے پر زور دیا اوراس کے لیے زبردست لابنگ کی۔ اس موقع پر چین، ایران اور ترکی نے پاکستانی نقطۂ نظرکو منوانے میں اہم کردار ادا کیا، اور یوں پاکستان کا مؤقف تسلیم کرلیا گیا اور بنگلہ دیش کی رکنیت کا معاملہ ملتوی کردیا گیا۔ یہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری میدان میں پے درپے شکست کے بعد بین الاقوامی محاذ پر ایک اہم کامیابی تھی، چنانچہ صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے فون کرکے راجا تری دیورائے کو مبارکباد دی، اور جب اُن کا وفد پاکستان لوٹا تو چکلالہ ایئرپورٹ (راولپنڈی) پر صدر ذوالفقار علی بھٹو اپنی پوری کابینہ اور دوسرے حکومتی عہدے داروں کے ساتھ اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے بہت جذباتی تقریر کی اور کہا کہ ’’بنگلہ دیشی اور ہندوستانی حکومتوں کی پوری کوشش کے باوجود راجا تری دیورائے نے پاکستان کا مقدمہ بہت مؤثر انداز میں لڑا ہے اور تمام پیشکشوں کو ٹھکرایا ہے، جو انہیں پاکستانی وفد کو چھوڑکر بنگلہ دیش واپس آنے کے لیے کی گئی تھیں۔ انہوں نے حب الوطنی کے بڑے جذبے کا مظاہرہ کیا ہے جس کے لیے ساری پاکستانی قوم ان کی شکرگزار ہے۔ راجا صاحب جب تک چاہیں ہمارے بھائی کی حیثیت سے پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔ جس دن آپ نے مشرقی پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کیا ہم خوشی سے آپ کو اس کی اجازت دیں گے اور آپ کے بارے میں ہمارے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں ہوگی‘‘۔
راجا تری دیو رائے ذہنی طور پر اس استقبال کے لیے تیار نہیں تھے اور انہوں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ ’’یہ غیر ضروری تھا‘‘ لیکن بھٹو کا جواب تھا ’’یہ ضروری تھا تاکہ ملک کے لیے جنہوں نے خدمات انجام دی ہیں ان کی پذیرائی کی جا سکے‘‘۔
صدارت ِ پاکستان کی پیش کش:
1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم بننے کے بعد انہیں صدرِ پاکستان کے عہدے کی پیش کش کی جسے انہوں نے منظور نہیں کیا، کیوں کہ پاکستان کے نئے آئین کے تحت صدرِ پاکستان کا مسلمان ہونا ضروری تھا اور راجا صاحب بدھ مت ترک کرنا نہیں چاہتے تھے، شاید اسی لیے انہوں نے ایوانِ صدرکو ’’سنہری پنجرہ‘‘ قرار دیا تھا۔ تاہم پاکستان کے لیے عظیم خدمات اور بے مثال قربانی دینے پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے باوجود اس کے کہ راجا تری دیو کا پیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہیںتھا، انہیں وزارتِ اقلیتی امور و سیاحت کے قلمدان کے ساتھ تاحیات وفاقی وزیر کا درجہ بھی دیا۔
1980ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں ارجنٹائن میں بطور سفیر تعینات کیا اور وہ 1995ء تک ارجنٹائن کے علاوہ جنوبی امریکہ کے ممالک چلی، ایکواڈور، پیرو، میکسیکواور یوراگوئے میں سفارت کار کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس طویل تعیناتی نے پاکستانی سیاست میں راجا صاحب کے کردار کو محدود سے محدود تر کردیا۔ بعدازاں آپ سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمشنر کے طور پر بھی تعینات رہے، اور جب 1996ء میں پاکستان لوٹے تو یہاں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اب راجا صاحب کو تاحیات وزیر کا درجہ تو حاصل تھا تاہم انہیں کابینہ کے اجلاس میں نہیں بلایا جاتا تھا، راجا صاحب کی سرگرمیاں بھی محدود ہوگئی تھیں، وہ برج اور گالف کھیلتے، سیروسیاحت کرتے اورکبھی کبھی سفارتی تقاریب میں بھی نظر آجاتے۔ اس کے علاوہ راجا صاحب پاکستان بدھسٹ سوسائٹی کے سربراہ بھی ہوگئے تھے، وہ یہ ذمہ داری اپنی وفات تک نبھاتے رہے۔2005ء میں سری لنکا کے ہائی کمشنر جنرل سری لال ویراسوریا نے سری لنکن صدر کی جانب سے پاکستانی بدھ کمیونٹی کے لیے کی جانے والی خدمات کے اعتراف میں راجا صاحب کو’’سری لنکن رانجانا ایوارڈ‘‘سے نوازا۔
احساسات و تاثرات:
راجا تری دیو رائے کسی بھی دوسرے انسان کی طرح گوشت پوست کے ہی انسان تھے، جو دل بھی رکھتا ہے اور دردِ دل بھی، جس کے اپنے احساسات ہوتے ہیں، جو اپنے لوگوں سے، اپنی مٹی سے پیار کرتا ہے۔ مگر راجا صاحب نے اپنے لوگوں کی محبت کو کبھی پاکستان سے وفاداری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے 2009ء میں ’’دی ہندو‘‘ کی رپورٹر Nirupama Subramanian سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے لوگوں کو یاد کرتا ہوں، میرے گھر اور قبیلے، حالات اور تاریخ نے میری زندگی میں اہم کردار اداکیا ہے …(مگر) مجھے زندگی بدل دینے والے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے‘‘۔ تاہم انہیں اس بات پر افسوس ضرور تھا کہ قیام بنگلہ دیش کے طویل عرصے بعد بھی بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے چکما قبائل کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ راجا صاحب کی طرح اُن کے قبیلے نے بھی بنگلہ دیش کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں خانہ جنگی زور پکڑ گئی اور بالآخر 1997ء میں حکومت کو ان کے ساتھ امن معاہدہ کرنا پڑا، مگر بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا راجا صاحب کو دکھ تھا، Nirupama سے ہی گفتگو میں انٹرنیشنل سی ایچ ٹی کمیشن کاحوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’1997ء میں چکما قبائل اور حکومتِ بنگلہ دیش کے مابین ہونے والا امن معاہدہ حکومتی ہتھکنڈوں کی وجہ سے ابھی تک نافذ نہیں ہوسکا ہے… بنگلہ دیش کے قیام نے خطے کا ڈموگرافک تبدیل کردیا ہے، مٹی کا بیٹا اپنے ہی وطن میں اقلیت بنادیا گیا ہے‘‘۔ انہوں نے چٹاگانگ چھوڑنے کے بعد چکما کے مسئلے پر بات نہیں کی۔ ایسا کیوں کیا؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم ایک وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کی جانب سے نئی بنگلہ دیشی حکومت سے بات چیت کے دوران پاکستانی حکومت کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں چکما کے بارے میں فکرمند ہوں تاہم چکما سیاست میں شریک نہیں، میں کسی بھی گروپ سے رابطے میں نہیں۔ نہ وہ مجھ سے مشورہ مانگتے ہیں اور نہ ہی میں مشورہ دیتا ہوں۔ میرا مجموعی مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے حق کے لیے پُرامن دستوری جدوجہد کریں اور پُرتشدد کارروائیوں سے گریز کریں‘‘۔
خواہش ناتمام:
پاکستان کا غیر معمولی وفادار چٹاگانگ کا یہ عظیم سپوت 17 ستمبر 2012ء کو 79 برس کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال کرگیا۔ یوں پاکستان سے وفاداری کا دم بھرنے والے راجا تری دیو رائے اپنی آخری سانسوں تک اس مٹی سے جڑے رہے۔ راجا صاحب نے سابق وزیراعظم شوکت عزیزکو لکھا تھا کہ ان کے انتقال کے بعد ان کا جسدِ خاکی ان کے آبائی علاقے چٹاگانگ بھیجا جائے، تاہم چٹاگانگ کے مخصوص حالات اور حسینہ واجد کی متعصب حکومت کے باعث راجا صاحب کی وصیت پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے لیے پاکستان میں اجنبی بن جانے والے راجا تری دیو رائے کی کہانی پر فیض احمد فیضؔ کا کہا صادق آتا ہے ؎
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
راجا تری دیو رائے کی ادبی خدمات
ایک کامیاب قبائلی سردار (راجا)، سیاست دان اور سفارت کار ہونے کے ساتھ ساتھ راجا تری دیو رائے ایک ادیب کی حیثیت سے بھی ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ انگریزی میں ان کے افسانوں کے دو مجموعے”The Windswept Bahini” اور”They Simply Belong”کے ناموں سے شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک کتاب کا پیش لفظ فیض احمد فیضؔ نے لکھا۔
“The Windswept Bahini” میں شامل ایک کہانی The Jewel Of a Girl انٹرمیڈیٹ کی سطح پر نصاب کا حصہ رہی ہے۔ ان کے منتخب افسانوں کا اردو ترجمہ ’’انسان خطا کا پتلا ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے، جسے نیشنل بک فائونڈیشن نے چھاپا ہے۔ اپنے افسانوں کے اردو ترجمے سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں، اور ان سے استفادہ کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان کی کہانیوں کے بعض کردار ان کے اپنے لوگ ہیں، جن کے ساتھ انہوں نے وقت گزارا ہے۔ اور کچھ ایسے مقامات کا بھی ذکر ہے، جہاں ان کی زندگی کا ایک حصہ گزرا ہے۔
جنوبی امریکی ممالک میں انہوں نے ایک طویل عرصے تک پاکستانی سفیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ ان پندرہ سالہ مصروفیات کے حوالے سے ان کی کتاب”South American Diaries” کو خاصی شہرت حاصل ہے۔
اس سب کے علاوہ 2003ء میں راجا صاحب نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب”The Departed Melody” لکھی، جس میں انہوں نے چکما راجائوں کی تاریخ اور اپنے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے علاقے کے مقامی لوگوں کا مقدمہ بھی بڑے احسن طریقے سے پیش کیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں انھوں نے انتہائی دکھی دل کے ساتھ لکھا ہے کہ’’میں اپنے پیاروں کو، اپنی جنم بھومی کو کبھی نہیں دیکھ پاؤں گا، زندگی اب تنہا گزرے گی۔ میرا اپنے خاندان کے لوگوں، حسین پہاڑیوں اور سرسبز جنگلوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوگا‘‘۔
آخر میں ایک سوال، اور وہ یہ کہ کیا راجا تری دیو رائے کا کردار اور قوم کے لیے بے مثال خدمات اس قابل نہیں تھیں کہ انہیں شاملِ نصاب کیا جاتا تاکہ آنے والی نسلیں جان سکتیں کہ مشرقی پاکستان میں قربانی دینے والے بے شمار افراد میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس نے غیر مسلم ہوتے ہوئے اور مغربی پاکستان سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہ ہوتے ہوئے پاکستان کے لیے کیسی شاندار خدمات انجام دیں۔