نگراں وزیراعظم کی تلاش!۔

سیاسی حالات اور سیاسی گرما گرمی میں دن بدن درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے، ایسے میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، جس سے پاکستان کے سیاسی حالات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس طرح سیاسی حالات بدلتے جارہے ہیں، مسلم لیگ(ن) اور نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کی بہترین چوائس ہوا کرتے تھے، اب یہ سارے امکانات خود شریف فیملی ختم کرتی جارہی ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ 2018ء کی پہلی سہ ماہی میں ایک اور نگراں حکومت بن جائے گی، جو 1990ء کے بعد سے اب تک بننے والی ساتویں نگراں حکومت ہوگی۔ ماضی میں 6 اگست 1990ء سے 6 نومبر 1990ء تک غلام مصطفی جتوئی، 18 اپریل 1993ء سے 26 مئی 1993ء تک میر بلخ شیر مزاری، 18 جولائی 1993ء سے 19 اکتوبر 1993ء تک معین قریشی، 5 نومبر 1996ء سے 17فروری 1997ء تک ملک معراج خالد، 16 نومبر 2007ء سے 25 مارچ 2008ء تک محمد میاں سومرو، 25 مارچ 2013ء سے 5 جون 2013ء تک میر ہزار خان کھوسو نگراں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ اب نئے نگراں وزیراعظم کے لیے رابطے تیز ہوچکے ہیں بلکہ نگراں وزیراعظم کی تقریر بھی تیار کی جارہی ہے اور مجوزہ نگراں سیٹ کے لیے دائرۂ اختیار بھی سوچا جارہا ہے، اور مشاورت حتمی مراحل میں داخل ہونے کے قریب ہے۔ اس بات کی احتیاط کی جارہی ہے کہ ایسا سیٹ اَپ بنایا جائے جسے سول سوسائٹی اور تمام سیاسی قیادت سمیت سب اداروں کا اعتماد حاصل ہو، تاکہ وہ ایجنڈے کے مطابق کام کرسکے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ حکومت اگلے سال مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے قبل ہی رخصت ہوجائے گی کیونکہ اپوزیشن ارکانِ اسمبلی کے استعفوں کی تجویز پر کام ہورہا ہے۔ آئینی طور پر قومی اسمبلی کی میعاد 5 سال مقرر ہے، قومی اسمبلی 31 مئی 2018ء کو اپنی 5 سالہ مدت پوری کرکے خودبخود تحلیل ہوجائے گی۔ آئین کے آرٹیکل (1) 58 کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ آئین کے آرٹیکل (1) 224کے مطابق اسمبلی کی میعاد ختم ہونے کے بعد60 روز کے اندر عام انتخابات کرائے جائیں گے۔ تاہم آرٹیکل(2) 224 کے مطابق اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کردیا جائے تو 90 دنوں کے اندر عام انتخابات ہوں گے۔ آئین کے آرٹیکل 224کے ضمنی آرٹیکل 4کے مطابق اگر اسمبلی کی کوئی نشست کسی وجہ سے خالی ہوجائے تو 60 روز کے اندر اس پر ضمنی الیکشن ہوگا، تاہم اگر قومی اسمبلی کی کوئی نشست اُس وقت خالی ہوتی ہے جب اسمبلی کی میعاد ختم ہونے میں 120روز باقی ہوں تو پھر اس پر ضمنی الیکشن نہیں ہوگا بلکہ وہ سیٹ عام انتخابات تک خالی رکھی جائے گی۔ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہوجائیں، لیکن الیکشن کمیشن نے بھی ایک فریق کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور رائے دی ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہوئے تو اصلاحات کے بغیر ہوں گے اور انتخابی بے قاعدگیوں کا سبب بنیں گے۔ اس کا مؤقف ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے 2013ء کے انتخابات میں منصوبہ بندی، کوآرڈی نیشن، عملے کی تربیت اور مانیٹرنگ کے فقدان کی نشاندہی کی تھی اور آئندہ کے لیے رہنما اصول بھی دیے تھے۔ کمیشن نے ان چاروں نکات سے متعلق اقدامات کرنے کی سفارش کی تھی۔ الیکشن کمیشن ان سفارشات کی روشنی میں عام انتخابات کرانے کا پابند ہے، اُس نے اس کے لیے منصوبہ بندی اور کوآرڈی نیشن کمیٹیاں بنائیں اور تربیتی ونگ قائم کرکے ایک بڑے تربیتی منصوبے کا اعلان کررکھا ہے، مگر سات لاکھ سے زائد انتخابی عملے کی تربیت کا کام ابھی شروع ہونا ہے۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی منصوبہ بندی جولائی 2018ء کا ہدف سامنے رکھ کر کی ہے۔ انتخابی فہرستوں پر نظرثانی اور گھر گھر تصدیقی عمل کے لیے کمیشن کو تین سے چار ماہ درکار ہیں۔ اسمبلیاں اگر مقررہ مدت سے قبل تحلیل ہوجائیں تو الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت 90 روز میں انتخابات کرانے ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن کے حکام کہتے ہیں کہ انتخابات اگر عدالتی کمیشن کی سفارشات اور اصلاحات کے تحت کرانے ہیں تو اس کے لیے جولائی 2018ء تک انتظار کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کی رائے کی اپنی اہمیت ہے اور سیاسی جماعتوں کی اپنی حکمت عملی ہے۔
حالیہ پارلیمانی تاریخ میں انتخابات سے قبل اسمبلی سے استعفے دینے کی ایم ایم اے کی مثال موجود ہے، لیکن اُس وقت خیبر پختون خوا اسمبلی سے ایم ایم اے کے ارکان مستعفی نہیں ہوئے تھے۔ یہ استعفے جنرل پرویزمشرف کے صدارتی انتخاب کو روکنے کے لیے تھے۔ اُس وقت بھی پیپلزپارٹی نے استعفے نہیں دیے تھے اور ایم ایم اے کے استعفوں کا کوئی سیاسی فائدہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اب بھی اگرچہ دبائو بڑھایا جارہا ہے لیکن مسلم لیگ(ن) نے بھی ردعمل میں کہا ہے کہ اسمبلی کو مدت پوری نہ کرنے دی گئی تو اگلی اسمبلی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گی۔
حکومت اور اپوزیشن خصوصاً تحریک انصاف کے مابین اس وقت اعصاب کی جنگ جاری ہے۔ پیپلزپارٹی اگرچہ سیاسی لحاظ سے کچھ متحرک ہوئی ہے لیکن وہ استعفے نہیں دینا چاہے گی۔ اس وقت اُسے سندھ میں اکثریت حاصل ہے اور سندھ اسمبلی سے وہ اپنے سینیٹرز منتخب کرا سکتی ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کا دیگر جماعتوں سے مقابلہ ہے اور وہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ماضی میں تلخ حالات سے گزر چکی ہے، وہ نہیں چاہتی کہ عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے انتخابات میں ہونے والی پیسوں کی دوڑ کے باعث اس کی سیاسی شہرت خراب ہو، اسی لیے وہ استعفوں کی بات کررہی ہے۔ اس سے یہ کام بعید بھی نہیں، البتہ اس معاملے میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سوچ عمران خان کی سوچ سے مختلف ہے۔ سینیٹ کے انتخابات سے قبل خیبر پختون خوا اور صوبہ سندھ کی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے نقصان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ اگر یہ اسمبلیاں موجود رہتی ہیں تو یہ جماعتیں اپنے سینیٹر منتخب کروا سکتی ہیں۔ یہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں ان صوبوں کے سینیٹرز کا الیکٹورل کالج موجود نہیں ہوگا۔آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت ہر صوبائی اسمبلی صرف اپنے صوبے کے لیے مختص سینیٹ کی سیٹوں پر سینیٹرز کا انتخاب کرتی ہے۔ حزبِ اختلاف کا اصل مسئلہ پنجاب میں سینیٹرز کے الیکشن ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو واضح اکثریت حاصل ہے اور یہاں سے مسلم لیگ(ن) کے سینیٹرز کا منتخب ہونا یقینی ہے، جس کے بعد سینیٹ میں پارٹی پوزیشن مسلم لیگ(ن) کے حق میں چلے جانے کا امکان موجود ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں ضروری نہیں کہ سندھ اور خیبر پختون خوا میں اِس وقت حکمران جماعتوں کو وہاں کی صوبائی اسمبلیوں میں دوبارہ اتنی بڑی اکثریت حاصل ہوجائے۔ اگر معاملہ الٹ ہوگیا تو یہ جماعتیں اپنے اتنے سینیٹرز منتخب نہیں کروا سکیں گی جتنے وہ موجودہ صوبائی اسمبلیوں سے کروا سکتی ہیں۔ آئینی صورتِ حال جو بھی ہو، ارکانِ اسمبلی کے استعفوں سے حکومت پر قبل از وقت عام انتخابات کروانے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے اور اس کے مقابلے کے لیے مضبوط اعصاب چاہئیں۔ پیپلز پارٹی میں سکہ زرداری کا چلتا ہے، اور زرداری ہمیشہ ذاتی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن پر آنے والی رپورٹ کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک نئے دھرنے کا منصوبہ بھی زیرغور ہے۔ اس رپورٹ کا تقریباً ساڑھے تین سال سے انتظار تھا، اس کے لیے عوامی تحریک نے مؤثر مہم چلا رکھی تھی، لیکن رپورٹ میں کسی شخصیت کو براہِ راست ذمہ دار نہیں ٹھیرایا گیا، اور اسے صرف ایک انکوائری رپورٹ کی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین کے اطمینان کے بجائے ان کے جذبات مزید بھڑکے۔ رپورٹ کے بارے میں مختلف طبقات مختلف آراء رکھتے ہیں۔ حکومت کے حامی اور حکومت مخالف طبقات جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ پر اپنی اپنی تشریح کررہے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کے جو نتائج نکلے، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے اس رپورٹ کے بعد ایک نئی احتجاجی مہم کے شواہد واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ آکھڑی ہوئی ہے۔ مستقبل میں ڈاکٹر طاہر القادری، آصف علی زرداری، عمران خان اور چودھری برادران ایک ہی ایجنڈے پر جمع ہوتے نظر آرہے ہیں مسلم لیگ(ن) کی سینئر لیڈرشپ سمجھتی ہے کہ نوازشریف کی نااہلی، ان پر چلنے والے مقدمات، فیض آباد دھرنا، سرگودھا کے پیر سیالوی کی علیحدگی اور اس کے بعد عدالتی حکم سے سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کی اشاعت اور اس کے نتیجے میں نئی سیاسی صف بندی کا تعلق ایک ہی منظم سلسلے کی کڑی ہے اور ایک ہی زرخیز دماغ اس سارے اسکرپٹ کے پیچھے ہے۔
محسوس یہ ہورہا ہے کہ آنے والے دو ہفتے حکومت کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کی اشاعت کے بعد نئی سیاسی صف بندی مارچ سے پہلے سینیٹ کے انتخابات کو روکنے کے لیے بروئے کار لائی جارہی ہے۔ اس بنیاد پر حکومتی حلقے یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات ممکن نہ ہوئے تو پھر کھلم کھلا ٹکراؤ ہوگا جس کے نتیجے میں عام انتخابات ہی نہ ہوپائیں گے۔