سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس سے متعلق ٹی وی لائیو شوز پر پابندی عائد کردی ہے اور پیمرا کو اس عدالتی حکم پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے یہ حکم حدیبیہ کیس کی سماعت کے دوران دیا۔ روزنامہ جنگ کے مطابق اس کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالے سے براہ راست کوریج سے گریز کریں۔ اے پی بی کے مطابق پیمرا نے ہدایت کی ہے کہ تمام نجی ٹی وی چینلز حدیبیہ ملز کیس کے حوالے سی براہ راست کوریج سے گریز کریں کسی قسم کی خلاف ورزی پر ٹی وی چینلز اور پروگرامات پر پیمرا آرڈیننس 2002 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس طرح کے عدالتی حکم کی کافی عرصہ سے توقع کی جارہی تھی۔ بعض عوامی‘ علمی اور حساس حلقے یہ توقع کررہے تھے کہ عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات پر ٹی وی ٹاک شوز میں تبصرے کا سلسلہ رکنا چاہیے جبکہ آزادی اظہار کے حامیوں کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کی نہ صرف لائیو کوریج ہونی چاہیے بلکہ اس پرتبصرہ میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
یہ بحث ایک لمبے عرصے سے چل رہی ہے اس کی حمایت اور مخالفت میں دلائل کے انبار موجود ہیں۔ آزادی اظہار کے حامی اس نقطہ نظر کے حامی دکھائی دیتے ہیں کے جو کچھ ہورہا ہے جو کہا جارہا ہے اور اس پر جو ردعمل آرہا ہے اسے قارئین و ناظرین تک من و عن پہنچانا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ یاغلط بیانی نہیں ہونی چاہیے لیکن اس سچ کو عوام تک پہنچانے کی ذمہ داری فرض سمجھ کر ادا کی جانی چاہیے اور ریاست کو اس کے لیے ضروری تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ جبکہ دوسرے نقطہ نظر کے حامل لوگوں جن میں خود میڈیا سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد شامل ہے اور سول سوسائٹی کا بھی ایک عنصر اس کا حامی ہے ان کا کہنا ہے کہ ننگا سچ نقصان دہ شے ہے اور کوئی بھی معاشرہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا خصوصاً ہمارا معاشرہ لہٰذا اس سچ کو کپڑے پہنانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی مقرر نے جلسے میں ماں یا بہن کی گالی دی ہے تو اس گالی کو شائع یا نشر کرنا کوئی آزادیٔ اظہار نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جائے کہ مقرر نے اس موقع پر گالی دے کر یہ کہا… اس نقطہ نظر کے حامیوں کا ایک کہنا یہ بھی ہے کہ بہت سا سچ یا بظاہر نظر آنے والا سچ ملکی و قومی مفاد کے خلاف ہوتا ہے اس لیے اسے شائع اور نشر کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ بلکہ ایسا بظاہر سچ شائع یا نشر ہی نہیں کرنا چاہیے ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے کہ آپ سچ شائع کرسکتے ہیں۔ لیکن صحافت کی اپنی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ صحافی بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور معاشرہ کے بگاڑ اور تعمیر میں اس کا بھی ایک کردار ہونا چاہیے۔ اس لیے ایسی چیزیں اور باتیں جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوں ان کی اشاعت و نشرسے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ یہ ایک قومی ذمہ داری ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاقت کی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ اور کچھ قانونی وآئینی پابندیاں بھی۔ صحافت معاشرے کے دوسرے طبقات کی طرح قانونی و آئینی پابندیوں کو ماننے پر مجبور ہے لیکن معاشرے کا ایک اہم طبقہ اور ریاست کا چوتھا ستون ان کے ناتے اس پر کوئی اخلاقی پابندیاں بھی عائد ہوتی ہیں اور اسے سیلف سنسر شپ کا رضاکارانہ طور پر مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ صحافت معاشرے کی تعمیر اور اس کی اخلاقی بنیادوں کی مضبوطی میں ایک موثر کردار ادا کرسکے۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسپیکر کی جانب سے کسی کارروائی کو حذف کردینا ایک قانونی پابندی ہے مگر آج کا میڈیا اس پابندی کا بھی خیال نہیں رکھ رہا۔ ماضی قریب میں مسلم لیگ (ن) کے جاوید لطیف اور پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی مراد سعید کے جھگڑے کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ اسپیکر کے بار بار منع کے کرنے کے باوجود ہر چیز میڈیا پرنشر اور شائع ہوگئی۔ یہی معاملہ عدالتوں کا ہے کہ اگر عدالت کارروائی کے کسی حصے کو شائع یا نشر کرنے سے منع کردے تو میڈیا کو رضاکارانہ طور پر اور خوش دلی سے اس پابندی کو قبول کرلینا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارا میڈیا اس پابندی کو مجبوراً تو قبول کرلیتا ہے مگر خوش دلی سے تسلیم نہیں کرتا۔ یہ ایک طرح کی اخلاقی ابتری ہے۔
اس طرح یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ میڈیا کسی زیرسماعت مقدمہ کی کارروائی اس انداز سے پیش نہ کرے یا اس پر اس انداز سے تبصرہ نہ کرے جس پر فاضل ججوں کی رائے متاثر ہوسکتی ہو یا میڈیا کے اس کیس پر اثرانداز ہونے کا تاثر ابھرے۔ یہ خود میڈیا کے مفاد میں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے میڈیا آزادیٔ اظہار کے شوق میں یہ احتیاط نہیں کرتا او ریہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستانی میڈیا بھی اس طرح کی بہت سے فرضی بہادریوں کے نتائج بھگت بھی چکا ہے لیکن شاید اب بھی اپنی اصلاح پر راضی نہیں ہے۔
ماضی قریب میں لاہور ہائی کورٹ میں عاصمہ روپڑی کیس کی سماعت کے دوران میڈیا نے بڑی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ عاصہ نامی یہ لڑکی والدین کی مرضی کے خلاف اپنے ٹیوٹر سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ جبکہ والدین کا جو مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث تھے ان کا موقف تھا کہ لڑکی کی شادی کے لیے ’’ولی‘‘ یا والدین یا سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔ دوسرے ان کا موقف تھاکہ یہ لڑکا قادیانی ہے اس کے ساتھ ایک مسلمان لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ کیس عاصمہ جہانگیر ہائی کورٹ لے گئیں۔ وہ خود اس کیس میں دوسرے وکلاء کے ساتھ پیش ہوئی تھیں اور پھر روز سماعت سے قبل اور سماعت کے بعد میڈیا کو اپنے انداز میں بریف بھی کرتی تھیں۔ عام طو رپر ان کا رویہ جارحانہ اور بے باکانہ ہوتا تھا۔ وہ عدلیہ کے بارے میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیتی تھیں بلکہ ابتک نہیں لیتیں۔ اس سارے کیس میں میڈیا نے بڑی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور عملاً کیس پر اثر انداز ہوا۔ میڈیا اور کیس کی سماعت کی خبر انتہائی مختصر اور اس پر عاصمہ جہانگیر اور اس لڑکی اور لڑکے کا موقف او ران کے حامیوں کی رائے بہت نمایاں انداز میں شائع ہوتی رہی۔ جو ہر صورت میں کسی پر نظرانداز ہوتی رہی۔ اس وقت بھی بعض ذمہ دار افراد نے اس خرابی کی نشاندہی کی تھی مگر کسی نے نہ سنی۔ اب بھی بہت سے کیسوں میں میڈیا عدالتی امور پر اثر انداز ہوتا نظر آتا ہے جو انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے۔ پانامہ کیس اور اس پر بننے والی جے آئی ٹی میں بھی یہی ہوتا رہا ہے۔ کیس عدالت میں چل رہا ہے مگر سماعت ختم ہوتے ہی فریقین میڈیا کی لگائی ہوئی ایک نام نہاد عدالت میںپیش ہوتے اور اپنا جھوٹ سچ اس کے سامنے رکھتے تھے جو من و عن شائع ہوتا تھا۔ یہ بھی عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے کہ فریقین کو جو کچھ کہنا ہے عدالت میں کہیں۔ ہر سماعت کے دوران معزز جج صاحبان کے ریمارکس کو بھی سرخیوں میں شائع کرنا اور ٹی وی نیوز کی ہیڈ لائنز بنانا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ جج صاحبان انصاف کی فراہمی کے لیے بہت سے سوالات پوچھتے ہیں اور بہت سے ریمارکس دیتے ہیں۔ یہ فیصلہ نہیں ہوتامگر اسے فیصلہ کے طو رپر شائع کیا جاتا ہے اور سب سے بری صورتحال یہ ہوتی ہے کہ کسی کیس کی سماعت کے دوران تقریباً روزانہ ہر ٹاک شوز میں چند لوگ بیٹھ کر اس کیس کا تیا پانچا کرتے ہیں۔ ان مین سے کئی کو تو قانون کی الف ب بھی معلوم نہیں ہوتی اینکرز تو کسی طرح بھی قانون دان نہیں ہوتے۔ پھر شرکاء میں بیشتر سیاستدان ہوتے ہیں۔ وہ بھی کوئی قانونی ماہر نہیں ہوتے۔ اگر اس کیس کے کسی فریق کے وکیل کو بھی بلالیا جائے تو وہ ماہر قانون تو ضرور ہوتا ہے مگر وہ ایک فریق کا وکیل بھی ہوتا ہے اور اپنے موکل کی وکالت کررہا ہوتا ہے اس لیے اسے نے جو کہنا ہے وہ عدالت میں کہے، ٹاک شو میں نہیں۔ مگر وہ جو کچھ عدالت میں نہیں کہہ پاتا وہ میڈیاپر آکر کہہ دیتاہے۔ یہ ساری صورتحال بڑی پریشان کن ہے۔ دنیا میں کہیںبھی ایسا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے اس کام میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری او ران کے ساتھیوں کا بھی کچھ کردار ہے جو اپنا ہر جملہ میڈیا میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ بہت سے معاملات میں اینکرز کو عدالتی معاون کے طور پر بھی بلالیتے تھے اس لیے میڈیا میں وہ ہمیشہ نمایاں رہے مگر اس سے انصاف متاثر ہوتا ہے۔
اس وقت عدالت عظمیٰ نے حدیبیہ کیس پر ٹاک شوز کو روک کر ایک انتہائی احسن اقدام کیا ہے۔ باقی کیسوں میں بھی اس طرح کے احکامات کے لیے قوم منتظر ہے اور میڈیا سے بھی توقع کرنی چاہیے کہ وہ ان احکامات کی کسی بھی طرح کی مزاحمت کرنے کے بجائے انہیں خوش دلی سے قبول کرے گا۔ بہتر ہوتا کہ اس عدالتی حکم کو ایک اصول کے طو رپر لاگو کردیا جائے کہ کسی بھی زیر سماعت کیس پر ٹاک شوز پر پابندی ہو۔ صرف عدالتی کارروائی عدالت کی اجازت سے پریس میں آئے۔ ورنہ ٹاک شوز کے ذریعے مقدمات پر اثر انداز ہونے کا موجودہ سلسلہ بہت زیادہ تباہی لاسکتا ہے۔