موسم سرما جوبن کی طرف گامزن ہے مگر جوں جوں سردی کی شدت بڑھ رہی ہے سیاسی موسم کی حدت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بلند پہاڑی مقامات پر اگر برفباری کا آغاز ہوچکا ہے تو سیاست کے میدان میں بھی حالات اور حزبِ اختلاف کی ژالہ باری وقفے وقفے سے جاری ہے۔ پاناما لیکس کی صورت میں حالات نے جو کروٹ حکمران شریف خاندان کے خلاف لی تھی اور جس کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد خاندان کے موجودہ سربراہ نوازشریف مسلسل ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی گردان کرتے سنائی دے رہے ہیں… پھر ختمِ نبوت کے حوالے سے آئینی ترمیم کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال کے تسلسل میں فیض آباد دھرنا، اور پھر اسے ختم کرانے کے لیے شروع کیے گئے پولیس آپریشن کی بری طرح ناکامی اور دھرنے کا دائرہ ملک بھر میں پھیلنے سے معمولاتِ زندگی کے درہم برہم اور ہجوم کے قابو سے باہر ہوجانے کے بعد خلافِ معمول فوج کی کھلی مداخلت کے ذریعے اس صورتِ حال سے نجات سے حکومت کی سبکی اور نااہلی کے تاثر میں اضافے کے اثرات ابھی باقی تھے کہ 17 جون 2014ء کے سانحہ ماڈل ٹائون پر حکومتی درخواست پر عدالتِ عالیہ کے تشکیل کردہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ یہ رپورٹ اگرچہ کمیشن نے 9 اگست 2014ء کو تیار کرکے حکومت کے حوالے کردی تھی مگر ادارۂ منہاج القرآن کے متاثرین کے بار بار مطالبے کے باوجود حکومت نے اسے شائع کرنے اور اس کی روشنی میں مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی اور متاثرین کی اشک شوئی اور قدرے اطمینان کا سامان کرنے کے بجائے اس رپورٹ کو نظرانداز کرنے اور عوام سے پوشیدہ رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی، جس پر ادارۂ منہاج القرآن کے کچھ لوگوں نے عدالتِ عالیہ لاہور سے رجوع کیا کہ حکومت کو نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم دیا جائے۔ عدالت کے جسٹس علی اکبر نقوی پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم دیا مگر حکومت نے اس پر عمل کے بجائے عدالت کے فل بینچ میں اس حکم کو چیلنج کردیا، تاہم حکومت کی دال یہاں بھی نہ گل سکی اور جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس شہباز علی رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے معاملے کی سماعت کے بعد 24 نومبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا جو 5 دسمبر کو سنا دیا گیا۔ فل بینچ نے حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے جسٹس نجفی کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کا حکم دیا۔ حکومت نے پہلے تو اس حکم کے خلاف بھی عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا مگر پھر نہ جانے کس احساس کے تحت نجفی کمیشن رپورٹ جاری کردی، جس میں 17 جون 2014ء کے سانحے میں 14 افراد کی ہلاکت اور 90 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی ذمہ داری حکومت، وزیراعلیٰ شہبازشریف اور خصوصاً صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر عائد کی گئی ہے۔ اس طرح جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کی صورت میں عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھ میں ایک مضبوط ہتھیار آگیا ہے جسے وہ بے رحمی سے استعمال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ وہ دیت کو کسی صورت قبول نہ کرنے اور مرنے والوں کا قصاص وصول کرنے کے عزائم کا برملا اظہار کررہے ہیں، جس کا مطلب بہت واضح ہے کہ ہمیں شہباز اور رانا ثناء اللہ کا سر چاہیے۔ اس مؤقف کے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری سیاسی ماحول میں ایک دفعہ پھر اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ چنانچہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ق لیگ، شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ، ایم کیو ایم اور پی ایس پی سمیت کم و بیش تمام اہم جماعتوں کے مرکزی قائدین ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرکے اُن کے موئقف کی حمایت اور تحریک چلانے کی صورت میں ساتھ دینے اور اُن کے کنٹینر پر سوار ہوکر شانہ بشانہ چلنے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ یوں اگر ڈاکٹر طاہرالقادری ادارۂ منہاج القرآن کے مقتولین کے قصاص کی تحریک لے کر اٹھتے ہیں تو حزبِ اختلاف کی تقریباً تمام جماعتیں اپنے باہمی تحفظات اور اختلافات کے باوجود حکومت کے خلاف متحدہ محاذ کی شکل اختیار کرسکتی ہیں۔
اسی اثنا میں خود جماعت کے اندر سے بھی حکمران نواز لیگ کو کئی چیلنج درپیش ہیں۔ چودھری نثار علی خان اور ریاض پیرزادہ سمیت کئی اہم رہنما پارٹی سربراہ نوازشریف کی اداروں سے تصادم کی پالیسی سے کھلم کھلا اختلاف کا اظہار کرچکے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کی قیادت اور کارکنان بھی پہلے نواز لیگ ہی میں شامل تھے، مگر پہلے ممتاز قادری کو پھانسی دینے اور اب ختمِ نبوت کے حلف میں بلاوجہ تبدیلی کے باعث نوتشکیل شدہ تحریک لبیک کا شمار اب حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اتوار کو فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں منعقدہ ’’ختمِ نبوت کانفرنس‘‘ میں نواز لیگ کے اپنے دو ارکانِ قومی اسمبلی، تین ارکانِ پنجاب اسمبلی اور پچاس سے زائد بلدیاتی چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں نے حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اپنے استعفے پیر آف سیال حمید الدین سیالوی کے حوالے کردیئے۔ ارکان قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار جٹ، غلام بی بی بھروانہ اور ارکانِ پنجاب اسمبلی نظام الدین سیالوی، محمد خاں بلوچ اور مولوی رحمت اللہ نے اسٹیج پر آکر اپنے استعفوں اور حکمران جماعت سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ کئی لیگی عہدیداروں نے بھی استعفے پیش کیے۔ کانفرنس کے شرکاء نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں نظام مصطفی ؐ نافذ کیا جائے، کیونکہ یہ مملکت اسلام کے نام پر علماء و مشائخ کی بھرپور تائید و حمایت سے وجود میں لائی گئی تھی مگر بعد ازاں یہاں حکمرانی کرنے والوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے بنیادی وعدے کو فراموش کردیا۔ مشترکہ اعلامیہ اور کانفرنس میں منظور کی گئی قراردادوں میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے قبلۂ اوّل اور کشمیر کی آزادی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے سمیت متعدد مطالبات کیے گئے۔ شرکاء کی جانب سے ایک اہم مطالبہ صوبائی وزیر اعلیٰ اور پنجاب مسلم لیگ کے سربراہ میاں شہبازشریف اور ان کی کابینہ کے سینئر وزیر رانا ثناء اللہ کے استعفوں کا بھی تھا۔ پیر سیالوی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اگر رانا ثناء اللہ نے استعفیٰ نہ دیا تو 4 جنوری کو لاہور میں وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے کانفرنس منعقد کی جائے گی جسے دھرنے میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کانفرنس میں کیا گیا کہ کانفرنس میں پیش کیے گئے استعفے بارش کا پہلا قطرہ ہیں، اگر رانا ثناء اللہ کو برطرف نہ کیا گیا تو بہت سے دیگر ارکانِ اسمبلی بھی ہماری صف میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔
پیپلز پارٹی کا پس منظر رکھنے والے رانا ثناء اللہ موجودہ حکومت کے قیام کے اوّل روز ہی سے متنازع مسائل کا باعث بنے ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی ناک کا بال، انتہائی چہیتے اور کابینہ میں سینئر وزیر ہونے کی حیثیت سے شہبازشریف کے بعد صوبے کی بااختیار ترین شخصیت شمار کیے جاتے ہیں۔ بد زبانی کی شہرت رکھنے والے رانا ثناء اللہ پر حزبِ اختلاف ہی نہیں، خود جماعت کے اندر سے انتہائی شدید نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ وہ پارٹی میں خصوصاً اپنے ضلع فیصل آباد میں دھڑے بندی کا سبب ہیں۔ فیصل آباد میں نواز لیگ کے پرانے رہنما، شریف خاندان کے قریبی عزیز، وفاقی کابینہ کے رکن عابد شیر علی کے والد چودھری شیر علی کھلم کھلا عام جلسوں میں رانا ثناء اللہ کو 22 افراد کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں قتلِ عام کی منصوبہ بندی کا سہرا بھی رانا ثناء اللہ کے سر ہی باندھا جاتا ہے، اور اب ختمِ نبوت کے معاملے میں بھی سب سے متنازع کردار رانا ثناء اللہ ہی کا رہا… اور حکمران جماعت کو آج کل درپیش بہت سے مسائل بھی رانا ثناء اللہ کے کردار و گفتار اور غیر ذمہ دارانہ بیانات ہی کا شاخسانہ ہیں، مگر وزیراعلیٰ کی بے پناہ خوشامد کے علاوہ بھی معلوم نہیں رانا ثناء اللہ کے پاس کیا کستوری ہے کہ وہ تمام تر مسائل کے باوجود حکمران خاندان کی پسندیدہ ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ماڈل ٹائون سانحے کے فوری بعد جب ان کو سانحے کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا گیا تو وزیراعلیٰ شہبازشریف نے انہیں اپنی کابینہ سے الگ کرنے کا اعلان کیا، مگر اس برطرفی کے دوران بھی وہ وزیر کے اختیارات استعمال کرتے رہے، اور پھر تھوڑے عرصے بعد انہیں پہلے سے بھی زیادہ اختیارات کے ساتھ کابینہ میں دوبارہ شامل کرلیا گیا۔
اب تحریک لبیک کا دھرنا ہو، ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریکِ قصاص ہو، یا پیر حمیدالدین سیالوی کے استعفوں کا معاملہ… ان سب کا سب سے اہم اور مشترکہ مطالبہ رانا ثناء اللہ کی برطرفی ہے۔ مگر حکمران خاندان اور شہبازشریف کسی کی ایک بھی سننے پر تیار نہیں، بلکہ حالات کے تقاضوں کے برعکس رانا ثناء اللہ کو بدزبانی اور من مانی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ شاید حکمران اسی صورتِ حال کے منتظر ہیں جس کا سامنا انہیں فیض آباد دھرنے کے بعد کرنا پڑا تھا، اور جس میں شیخ رشید کے بقول حکومت نے سو پیاز بھی کھائے تھے اور سو جوتے بھی…!!!