سیاسی بحرانوں کے تسلسل کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ اس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بھی اپنی مدت پوری کرچکی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ میاں نوازشریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت حاصل ہے، جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت این آر او کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی جس کے لیے امریکہ، برطانیہ اور بعض دیگر ملکوں نے مداخلت، سفارت کاری اور ثالثی کی تھی۔ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کو بھی سیاسی بحران کا مستقل سامنا تھا لیکن اُس نے بھی اپنی مدت نہ صرف پوری کرلی تھی بلکہ اُس وقت کی سیاسی حرکیات نے بظاہر طاقتور ترین اور ناقابلِ شکست فوجی سربراہ جنرل (ر) پرویزمشرف کو ایوانِ صدر سے رخصت ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ سیاسی بحرانوں کی وجہ سے بھاری اکثریت سے وزیراعظم بننے والے اور مقبول رہنما میاں نوازشریف بھی ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے نااہل تو ہوگئے ہیں لیکن ان کی حکومت قائم ہے۔ موجودہ حکومت ہو یا سابقہ حکومتیں، کیا سیاسی اور گروہی اختلافات کے باوجود ان کی قومی پالیسیوں میں کوئی فرق ہے؟ یہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ لیکن بوجوہ قومی پالیسیاں… چاہے وہ داخلہ ہوں، خارجہ ہوں، تعلیمی ہوں، معاشی اور اقتصادی ہوں… منتخب ایوانوں میں زیربحث نہیں آتیں۔ البتہ ہر حکومت اپنے کارناموں کا پروپیگنڈا ضرور کرتی ہے۔ تمام حکومتوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کی تمام پالیسیاں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ لیکن ہم مسلسل یہ دیکھ رہے ہیں کہ مہنگائی کا جن بوتل سے اس طرح باہر نکل آیا ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت تو خاص طور پر بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کررہی ہے اور دعویٰ کررہی ہے کہ اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ اپنے سیاسی مخالفین پر اس کے رہنما سب سے زیادہ الزام یہی لگارہے ہیں کہ سیاسی بحران کی وجہ سے وہ ترقی کو روکنا چاہتے ہیں۔ اس دعوے میں وزن ہوسکتا ہے لیکن کیا عوام حقیقی معنوں میں اقتصادی خوشحالی سے مستفید ہورہے ہیں؟ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں بالخصوص بڑی بڑی شاہراہوں کی تعمیر نے بنیادی مسائل پس منظر میں ڈال دیے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور سیاسی مکالمے میں بنیادی مسائل اب نعروں کی سطح پر بھی زیر بحث نہیں آرہے ہیں۔ یہ بات ہر شخص کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہے کہ پاکستان کی اقتصادیات عالمی ساہوکاروں یعنی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے چنگل میں قید ہے، جس کی وجہ سے بدعنوان اور کرپٹ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کی منڈی پر قابض ہوچکی ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے عوام پس رہے ہیں۔ مہنگائی کو بڑھنے سے روکنا قومی پالیسی سے غائب ہوچکا ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کی نمائندگی کرنے والی جماعت ہے، جو اقتصادی خوشحالی کا وژن رکھتی ہے۔ لیکن اس کے دورِ حکومت میں بھی ایسی پالیسیاں سامنے آرہی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت صرف استحصالی سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر دہلا دینے والی ہے، جس کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت صرف تین دن میں تیزی سے گرگئی ہے۔ خبر کے مطابق پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر نے تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور ڈالر کی قیمت 111 روپے سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ ڈالر صرف تین دن کے اندر 3 روپے مہنگا ہوگیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہوا ہے، چونکہ پاکستان کو اب ایک بار پھر نئے قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے در پر جانا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہی ہے کہ جتنا بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی ڈالر اور روپے کے فرق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب ڈالر 16 روپے کا تھا، لیکن اب 100 روپے کی حد کو بھی پار کرچکا ہے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ ڈالر کی قیمت 120 روپے تک پہنچ جائے گی۔ چونکہ ہماری معیشت بنیادی طور پر درآمدی ہے، یہاں تک کہ غذائی اشیا بھی درآمدکی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ پیٹرول اور توانائی کی قیمتیں تجارتی اور صنعتی لاگت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، اس کی وجہ سے پیداواری لاگت بھی بڑھے گی۔ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو اقتصادی طور پر منڈی بنادیا ہے جس کی وجہ سے مقامی صنعتیں زوال پذیر ہیں۔ اسی وجہ سے برآمدات بھی مسلسل گررہی ہیں اور ذرائع پیداوار بھی محدود ہورہے ہیں، جو بے روزگاری کا سبب ہے۔ چونکہ توانائی سمیت اکثر اقتصادی معاہدے ڈالروں میں ہوتے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو اقتصادی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھی زرمبادلہ پر دبائو بڑھے گا۔ لیکن یہ اہم ترین موضوع قومی بیانیے سے خارج ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہورہا ہے کہ ایک محدود طبقے کے پاس دولت کا ارتکاز بڑھتا جارہا ہے، یہ طبقہ اپنے مفادات کے لیے عالمی قوتوں اور طاقتوں کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی عوام کے اقتصادی استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسی اقتصادی دہشت گردی ہے جس کے خلاف جنگ لڑنے والا کوئی نہیں ہے۔