کتب میلے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت نے بتادیا کہ آج بھی معاشرے میں کتاب کی اہمیت ہے۔ کتاب قوموں کی تہذیب و تربیت میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔ ملک کے ہر گوشے میں کتاب دوست اہلِ علم فروغِ کتب اور کتب بینی کے رجحان میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ اہلِ قلم نامساعد حالات کے باوجود آج بھی لکھ رہے ہیں، مگر اربابِ اقتدار کی عدم توجہی کی وجہ سے وہ نتائج حاصل نہیں ہورہے جو ہونے چاہئیں۔ حکومت اہلِ قلم اصحاب کے مسائل کو سنجیدگی سے لے تو اہلِ قلم مزید بھرپور طور سے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان، اردو کے ساتھ علاقائی زبانوں میں بھی اہم کتب شائع کرکے ادیبوں، شاعروں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ چیئرمین قسم بگھیو ملک کے صوبائی دارالحکومتوں میں اہلِ قلم کانفرنس کرتے رہتے ہیں، انہوں نے کراچی کی اہلِ قلم کانفرنس میں بڑی حوصلہ افزا باتیں کیں جنہیں اہلِ قلم نے بہت سراہا۔ آپ کے اقدامات بھی فروغِ کتب بینی میں معاون ہوں گے۔ اکادمی کا کراچی آفس اب متحرک ہوچکا ہے اور ہر ہفتے تمام زبانوں سے تعلق رکھنے والے ادبا، شعرا اور دانشوروں کا اجتماع ہوتا ہے جس میں ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو مذاکرے کے ساتھ مشاعرے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ اسی ماحول میں ایکسپو سینٹر میں تیرہویں کراچی عالمی کتب میلہ کا افتتاح صوبائی وزیراطلاعات ناصر حسین شاہ نے کیا اور فروغِ کتب بینی میں اپنا کردار ادا کرنے کا بھرپور عزم کیا۔ پاکستان پبلشرز ایسوسی ایشن اور نیشنل بک فائونڈیشن کے تعاون سے اس میلے میں 330 اسٹال لگائے گئے، جہاں لاکھوں کتابوں کو ڈسپلے کیا گیا۔ ملک اور شہر کے تمام بڑے پبلشروں کے علاوہ ترکی، بھارت اور دیگر ممالک کے پبلشرز نے بھی شرکت کی۔ میلے میں چھے لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کرکے گزشتہ سال میں شرکت کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس موقع پر تین لاکھ سے زائد کتب فروخت ہوئیں۔ میلے کے آخری دن میلے کے چیئرمین عزیز خالد نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تیرہویں عالمی کتب میلے نے عام رجحان کو تبدیل کردیا ہے۔ اس میلے کو تعلیمی میلہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس بار کتب میلے میں بچوں کی تعلیمی کتب پر لوگوں نے ریکارڈ دلچسپی لی اور سب سے زیادہ ایجوکیشنل بک فروخت ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر دینی کتب رہیں، اس کے علاوہ شاعری، ناول اور دیگر معلوماتی کتب بھی توجہ کا مرکز رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کاغذ کی درآمدی ڈیوٹی کم کردے تو قیمتوں میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستانی پبلشروں کی حوصلہ افزائی کریں تو پاکستان عالمی سطح پر پروفیشنل شعبہ جات کی معیاری کتابیں شائع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت کاغذ پر 70 فیصد ڈیوٹی عائد ہے جو کم کی جاسکتی ہے، جبکہ ملک بھر میں کاغذ تیار کرنے کے صرف پانچ کارخانے ہیں جو ملکی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔
اس ضمن میں توجہ کے ساتھ ساتھ اہلِ قلم کے مسائل بھی نظر میں رکھنے ہوں گے۔
کتب میلے میں بڑی تعداد میں مدارس، اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے طلبہ و طالبات اور کتاب دوستوں نے شرکت کرکے یہ پیغام بھی دیا کہ ایسے میلے سال میں دوبار لگنے چاہئیں۔
کتب میلے میں چھوٹے پبلشروں کو بھی شریک ہونے کے لیے سہولتیں دی جانی چاہئیں۔
کتب میلے میں دیدہ زیب قرآن مجید، احادیث و سیرتؐ کی کتب توجہ کا مرکز رہیں۔ انجمن ترقی اردو، تاج کمپنی، قدرت اللہ کمپنی، آکسفورڈ، پیرامائونٹ پبلشرز، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، نیشنل بک فائونڈیشن، اکادمی ادبیات، رنگِ ادب پبلشر پر بھی لوگوں کا رش رہا۔ الخدمت، راہ ٹی وی کے اسٹال ’’اٹھو آگے بڑھو کراچی‘‘ کے اسٹال پر خوبصورت ہینڈ بیگ میں روزنامہ جسارت کراچی، فرائیڈے اسپیشل کے شمارے اور جسارت کی لوح کے پرنٹ کا بڑا مگ و دیگر تحائف لوگوں میں تقسیم کیے گئے۔ اس موقع پر راقم کو بھی یہ تحائف ملے۔
کتب میلے میں سماجی، سیاسی رہنمائوں نے بھی شرکت کرکے کتاب دوستی کا ثبوت دیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن، محمد حسین محنتی، ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، فیصل سبزواری، امین الحق، پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال، NBF کے ڈاکٹر انعام الحق جاوید، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، سینئر صحافی محمود شام، مجاہد بریلوی،92 نیوز کے سعید خاور، مرزا جمیل، اوصاف کے حنیف عابد، قاضی اسد عابد، غازی بھوپالی، عثمان دموہی و دیگر علمی ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر حریم ادب کے اسٹال پر حریم ادب کے مجلے کی رونمائی مدیرہ منزہ سہام مرزا نے کی جبکہ سعدیہ، صائمہ افتخار، سیما مناف، سیما رضا و دیگر علمی ادبی شخصیات شریک ہوئیں۔ اس موقع پر اے ٹی ایم مشین کی عدم دستیابی سے شرکاء کو بہت تکلیف ہوئی۔ مشین نہ ہونے سے بیشتر شرکاء مزید خریداری نہ کرسکے۔ علاوہ ازیں باتھ رومز کی شکایت بھی لوگ کرتے رہے۔ امید ہے آئندہ ان سہولتوں کا خیال رکھا جائے گا۔