مَدِس اور مُقدّس

امریکی صدر کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے اعلان کے بعد ذرائع ابلاغ میں بیت المقدس کا نام کثرت سے آرہا ہے۔ اخبارات میں تلفظ تو ہوتا نہیں، البتہ برقی ذرائع ابلاغ اور ان کے ذریعے نشر ہونے والی تقاریر میں اس شہرِ مقدس کا مختلف تلفظ سننے میں آرہا ہے یعنی بیت المقّدس، بیت المقدِس اور بیت المَقدس۔
ان میں سے تیسرا تلفظ غلط ہے، پہلے دو صحیح ہیں۔ تاہم معانی میں ذرا سا فرق ہے۔ مُقَدّس (ع) بضم اول و فتح دوم و سوم۔ دال پر تشدید ہے۔ اب یہ تو قارئین کو معلوم ہی ہے کہ ضم کا مطلب پیش، فتح زبر اور کسرہ زیر۔ مُقدس کا مطلب واضح ہے، اردو میں استعمال عام ہے یعنی پاک مقام، پاک چیز، بزرگ، پارسا، فرشتہ خصلت وغیرہ۔ یہ صفت ہے اور مذکر ہے۔ اور یہ جو مَقدِس ہے اس میں میم پر زبر اور دال کے نیچے زیر (بالکسر) ہے۔ اس کا تلفظ مَق۔دِس ہے۔ اس کا مطلب بھی پاک ہے جیسے بیت المقدس۔ کہیں پڑھا تھا کہ مُقدّس کا مطلب پاک اور مَقدِس کا مطلب ہے جسے تقدیس دی گئی ہو۔ عربی زبان کے ماہرین اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ بہرحال مُقّدس اور مَقدِس دونوں صحیح ہیں۔
عربی کے حوالے سے یاد آیا کہ پچھلے کالم میں فلسطینی شہر رام اللہ کے حوالے سے رام کا مطلب پھینکنا لکھا تھا اور اسی سے رمی بتایا تھا۔ تاہم کراچی سے الیاس متین اور اسلام آباد سے حضرت شفق ہاشمی نے توجہ دلائی ہے کہ رام کا مادہ ’روم‘ ہے جس کا مطلب ہے مقصد۔ چنانچہ رام اللہ کا مطلب ہے ’’اللہ مقصود ہے‘‘ یا مقصودِ خداوندی۔ اسی سے عربی کا لفظ ’مرام‘ ہے یعنی مطلب، مقصد، مراد وغیرہ۔ اردو میں نَیل مرام اور بے نیل مرام مستعمل ہے۔ نَیل (نون پر زبر) کا مطلب ہے حصول، دسترس پانا۔ چنانچہ بے نیل مرام کا مطلب ہوا بے حصول مقصد یا ناکام رہنا۔ بعض لوگ نیل مرام کے بیچ میں وائو ڈالنے کا شوق بھی کرتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ کو عربی پر بھی عبور تھا لیکن ان کے مجموعہ کلام میں ایک مصرع ہے جس میں انہوں نے بے نیل و مرام لکھا۔ تاہم کسی کے توجہ دلانے پر دوسری اشاعت میں وائو نکال دیا گیا۔ اس سے زیادہ حیرت اس پر ہے کہ مشہور لغت ’نوراللغات‘ میں بھی ’’بے نیل و مرام‘‘ ہے۔ ممکن ہے فیضؔ نے اسی لغت سے فیض حاصل کیا ہو۔ نیل کے مطلب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولوی نورالحسن (مرحوم) نے لکھا ہے ’’جیسے بے نیل ومرام‘‘۔ ممکن ہے یہ کتابت کی غلطی ہو، لیکن ایسی غلطیاں لغات میں نہیں ہونی چاہئیں ورنہ سمجھو کہ آوے کا آوا بگڑے گا۔ یہ تو غنیمت ہے کہ ہم سب میں لغت دیکھنے کا تکلف ہی ختم ہوگیا ہے۔
اب ایک اور صراحت۔ پچھلے شمارے میں ہم نے پروفیسر غازی علم الدین کے حوالے سے لکھا تھا کہ ان کی کتاب ’’کچھ لسانی مباحث …اور نقطہ نظر کا اختلاف‘‘ میں ایک صاحب شفقت رضوی کا مضمون بھی شامل ہے جس میں فلسطینی شہر کو رام اللہ لکھنے پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ پروفیسر غازی علم الدین نے ازراہِ مہربانی تصریح کی ہے کہ اس نام سے ان کی کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ایک مضمون ہے اور اس کا کوئی تعلق شفقت رضوی کے مضمون سے نہیں ہے۔ یقینا یہ ہم سے سہو ہوا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے ایک مہربان نے کچھ مضامین کی عکسی نقول بھیجی تھیں۔ ان میں پہلا مضمون غازی علم الدین کا تھا اور شفقت رضوی سمیت دیگر افراد کے مضامین بھی ساتھ ہی تھے۔ یہ مضامین مجلس تحقیق برائے اسلامی تاریخ و ثقافت کراچی کے مجلہ ’الایام‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ ہم سمجھے کہ یہ سب کسی ایک کتاب کے مضامین ہیں۔
اب مجاہدِ اردو غازی علم الدین کا ذکر آہی گیا ہے تو ان کے مذکورہ مضمون سے مزید استفادہ کرتے ہیں تاکہ قارئین تک بھی بات پہنچے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اردو میں عام طور پر بول چال اور لکھتے وقت عربی قواعد کے مطابق اسم فاعل کے ساتھ یائے نسبت کا اضافہ کیا جاتا ہے مثلاً: قادر سے قادری، قاسم سے قاسمی، ہاشم سے ہاشمی، کاظم سے کاظمی وغیرہ۔ عربی میں یہ یائے نسبت مشدّد (شدّ والی) ہوتی ہے لیکن اردو میں ایسا نہیں ہوتا۔ قاعدے کے مطابق الف سے بعد والے یعنی تیسرے حرف کے نیچے کسرہ (زیر) آتی ہے لیکن عام طور پر اس کا التزام نہیں ہوتا۔ انگریزی میں نام لکھتے ہوئے چوتھے حرف کے طور پر آئی (I) نہ لکھ کر غلطی کی جاتی ہے حالانکہ درست اس طرح ہے QASIMI۔QADIRIوغیرہ۔ جدہ میں اردو نیوز کے عرب مدیر اعلیٰ بڑے اہتمام سے ہمیں ہاشِمی کہا کرتے تھے جس سے تلفظ ہا۔ شیمی ہوجاتا۔ عربی قاعدے کے لحاظ سے محترم علم الدین کی بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن یائے نسبت کے حوالے سے اردو بول چال میں جو تلفظ اپنالیا گیا ہے اب اسی کو صحیح سمجھنا چاہیے، البتہ عربی بولتے ہوئے عربی قواعد کو مدنظر رکھا جائے۔
الزام، استعفا جیسے الفاظ کا آج کل بڑا چرچا ہے لیکن بولنے والے الف پر زبر لگا کر بولتے ہیں۔ استعفا میں تو تیسرا حرف بھی بالکسر ہے۔ غازی علم الدین نے بھی غلط تلفظ کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اسم فاعل مونث کے وزن پر آنے والے اسماء مثلاً واسطہ، ضابطہ، رابطہ، کاملہ، فاضلہ، عاجلہ، خاتمہ، ناظرہ اور فاصلہ وغیرہ میں تیسرے حرف کے نیچے زیر ہے جو ناروا طور پر نہیں پڑھی جاتی۔ غلط تلفظ کرتے ہوئے بغیر زیر کے واسطہ، ضابطہ، رابطہ، خاتمہ وغیرہ پڑھا اور بولا جاتا ہے۔ حاضِرین اور ناظِرین وغیرہ کو بھی حاضرین اور ناظرین (حاض۔ رین۔ ناظ۔ رین) بولا جاتا ہے‘‘۔ یہ غلطی بہت عام ہے جو ہم سے بھی سرزد ہوتی ہے۔
عربی میں تو زیر زبر سے مطلب بھی بدل جاتے ہیں جیسے مَفسِّر اور مفَسّر۔ آسان الفاظ میں یہ سمجھیے کہ مفسِر (سین کے نیچے زیر) تفسیر کرنے والا، اور مَفسّر (سین پر زبر) تفسیر والا یا جس کی تفسیر کی گئی ہو۔ اسی طرح مصّوِر اور مُصوَر میں ۔ مصوِر (وائو بالکسر) تصویر بنانے والا اور مصّوَر (وائو پر زبر) تصویر والا یا باتصویر۔ میرؔ کا ایک شعر ہے:
دِلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصوَر تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
مُصوَر کو انگریزی میں پکٹوریل کہہ لیں یا السٹریٹڈ۔
ایک اور غلطی برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ میں ہورہی ہے۔ یعنی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ کہنا، یا اسلام آباد کو پاکستان کا دارالخلافہ۔ دارالخلافہ خالص اسلامی ترکیب ہے اور اُس دارالحکومت کو کہتے تھے جہاں خلیفہ ہو۔ اب حکمران خلیفہ تو رہا نہیں، البتہ نائیوں کو کہا جانے لگا ہے۔ اس لحاظ سے حمام کو دارالخلافہ کہا جاسکتا ہے۔