ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک ایسا بلیک ہول دریافت کیا ہے جو سائز میں بہت بڑا اور فاصلے کے لحاظ سے ہم سے بہت دور واقع ہے۔ اس دریافت کے بارے میں سائنس دان آج سے پہلے کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ یہ بلیک ہول یا روزنِ سیاہ، 13 بلین نوری سال کے فاصلے پر ہے اور سمجھنے کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ بِگ بینگ کے واقعے کے 690 ملین سال بعد انسان اسے دیکھ پائے ہیں۔
اس کے سائز کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج سے 800 ملین گنا زیادہ ہے۔ اس روزنِ سیاہ یا بلیک ہول کے بارے میں نئی تحقیق دنیا بھر میں پھیلی ہوئی رصد یا مشاہدہ گاہوں سے دستیاب ہونے والے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ بلیک ہول کے بارے میں یہ تحقیق سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ کائنات کا یہ ابتدائی ’تبرک‘ (نیا دریافت شدہ بلیک ہول) کہکشاں کے وسط میں مواد کو نگل جاتا ہے۔ اسی لیے یہ ’تقریباً ستارہ نما‘ ہے اور ایسے اجرام جیسا ہے جن کا مرکز توانائی سے بھرپور ہو اور جو روشنی کا منبع ہوں۔ نیا دریافت ہونے والا بلیک ہول اس لیے بھی ایک دلچسپ تحقیق بن گیا ہے کہ اس کی پیدائش کا زمانہ وہ ہے جب کائنات اپنی موجود عمر کا صرف پانچ فیصد تھی۔ سائنس دانوں کے خیال میں اُس وقت کائنات زمانے کی حدود سے آزاد ہورہی تھی جسے ’زمانۂ تاریکی‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی ستارے بننے سے ذرا پہلے کا وقت۔
’نیچر‘ جریدے میں اس تحقیق کے موجِد ایڈورڈو بینڈوس لکھتے ہیں کہ اس دریافت سے بڑے بڑے بلیک ہول کے متعلق تمام نظریے چیلنج ہورہے ہیں، کیونکہ یہ دریافت شدہ بلیک ہول کائنات کی پیدائش کے محض 690 سال میں ہی اتنا وسیع ہوچکا تھا۔