علامہ اقبال کی آواز

آج کل سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کی آواز میں ان کی نظم ’’شکوہ‘‘ گردش کررہی ہے۔ یہ ایک جعلی ریکارڈنگ ہے۔آواز اقبال کی ہرگز نہیںہے۔ معروف نظم ’’شکوہ‘‘ بزبانِ ’’علامہ اقبال‘‘ سننے کا اتفاق ہوا۔ ایک اطلاع کے مطابق شکاگو کے جمال ناصر صاحب نے 2007ء میں اپنی آواز میں یہ ریکارڈنگ کی تھی۔ اب کسی شخص نے یہ ریکارڈنگ علامہ اقبال کی آواز بناکر سوشل میڈیا پر پھیلا دی۔ خود جمال ناصر نے دعویٰ نہیں کیا تھا کہ یہ اقبال کی آواز ہے۔ بہرحال جس شخص نے بھی یہ نظم پڑھی ہے، اسے شعر کا ذوق بالکل نہیں ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم کہ شاعری میں وزن کیا ہوتا ہے؟ ’’شکوہ‘‘ جیسی نظم کس لب و لہجے میں پڑھنی چاہیے؟ کہاں ذرا سا وقفہ کرنا چاہیے؟ وغیرہ۔ یہ شخص پوری نظم کو کہیں رکے یا وقفہ کیے بغیر مسلسل پڑھتا چلا گیا ہے۔ اس آواز کے ساتھ انگریزی میں جو اطلاع نامہ منسلک ہے، وہ بھی کئی وجوہ سے مضحکہ خیز ہے:
1۔ بتایا گیا ہے کہ یہ نظم انجمن اشاعتِ اسلام کے جلسے میں پڑھی گئی حالانکہ جلسہ انجمن حمایتِ اسلام کا تھا۔
2۔ زمانہ 1937ء،1938ء کا بتایا گیاہے۔ اُس زمانے میں علامہ گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ بیمار اور کمزور تھے۔ نہ جلسوں میں جاتے، نہ نظمیں پڑھتے یا تقریریںکرتے تھے۔ یہ نظم انہوں نے بہت پہلے انجمن کے سالانہ جلسے 1911ء میں پڑھی تھی۔
3۔ جنوری 1934ء سے علامہ کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ وہ دمہ اور ضیق النفس کے مریض تھے۔ کھانستے کھانستے بے حال ہوجاتے تھے۔ 1937ء، 1938ء کے زمانے میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اس طرح مسلسل پوری نظم جلسے میں سنا سکتے۔
4۔ سید نذیر نیازی مرحوم نے علامہ اقبال سے ان کی نظمیں کئی مرتبہ سنی تھیں۔ نیازی صاحب نے پروفیسر خورشید رضوی صاحب کے استفسار پر انہیں بتایا کہ علامہ عموماً شعر پڑھتے ہوئے لفظوں کوکھینچ کر پڑھتے تھے۔
5۔ یہ نظم پڑھنے والے نے تلفظ کی متعدد غلطیاںکی ہیں، مثلاً ’’عِجز‘‘ (عین کے نیچے زیر) کے بجائے عین پر پیش پڑھا ہے۔ ’’عجمی خم‘‘ پڑھتے ہوئے ’’خ‘‘ پر زبر پڑھی ہے، جبکہ صحیح پیش ہے۔ ’’زمزمہ پرداز‘‘ میں ’’د‘‘ ہے۔ پڑھنے والے نے ’’و‘‘ کے ساتھ ’’پرواز‘‘پڑھا ہے۔ علاوہ ازیں حسبِ ذیل الفاظ کا تلفظ بھی غلط کیا ہے۔
6۔ درحقیقت علامہ اقبال کی آواز کا کوئی ایک جملہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کی آواز کی تلاش بہت سے لوگ بارہا کرچکے ہیں مگر کچھ نہیں ملا۔ خود علامہ اقبال کے پوتے منیب اقبال نے وضاحت کی ہے کہ علامہ اقبال کی کوئی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ محفوظ نہیں ہے۔
درحقیقت یہ دور ہی جعل سازی کا ہے۔ آواز کے علاوہ من گھڑت شاعری بھی اقبال کے نام سے منسوب کی جا رہی ہے۔ اسی طرح فرضی روایات اور اقبال کے ملفوظات بھی پھیلائے جارہے ہیں۔ یہ کام ازراہِ عقیدت کیے جائیں، تب بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ افسوس ہے کہ الیکٹرانک میڈیا والے بھی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ایسی چیزیں نشر کرتے اور سنسنی پھیلاتے ہیں۔ اللہ سب جعل سازوں کو ہدایت دے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی … لاہور