اسلامی حکومت میں عورت کو محض گڑیا بنا کر نہیں رکھا جائے گا جیسا کہ بعض نادانوں کا گمان ہے، بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ ترقی کا موقع دیا جائے گا۔ ہم عورت کو عورت ہی رکھ کر عزت کا مقام دینا چاہتے ہیٰں، اسے مرد بنانا نہیں چاہتے۔ ہماری تہذیب اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اُس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک کہ وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اور تمام حقوق عورت ہی رکھ کر دیتی ہے، اور تمدن کی انھی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس معاملے میں ہم اپنی تہذیب کو موجودہ مغربی تہذیب سے بدرجہا زیادہ افضل اور اشرف سمجھتے ہیں اور نہایت مضبوط دلائل کی بنا پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری ہی تہذیب کے اصول صحیح اور معقول ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ صحیح اور پاکیزہ چیز کو چھوڑ کر ہم غلط اور گندی چیز کو قبول کریں۔
موجودہ زمانے کی مخلوط سوسائٹی سے ہمارا اختلاف کسی تعصب یا اندھی مخالفت کا نتیجہ نہیں ہے۔ ہم پوری بصیرت کے ساتھ اپنی، آپ کی، اور پوری انسانیت اور انسانی تہذیب و تمدن کی فلاح اسی میں دیکھتے ہیں کہ اس تباہ کن طرزِ معاشرت سے اجتناب کیا جائے۔ ہمیں صرف عقلی دلائل ہی سے اس کے غلط ہونے کا یقین نہیں ہے، بلکہ تجربے سے اس کے جو نتائج ظاہر ہوچکے ہیں، اور دنیا کی دوسری قوموں کے اخلاق و تمدن پر اس کے جو اثرات مرتب ہوچکے ہیں، ان کو ہم جانتے ہیں۔ اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ ہماری قوم اس تباہی کے گڑھے میں گرے جس کی طرف ہمارے فرنگیت زدہ اونچے طبقے اسے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اخلاق کھو چکے ہیں، اور اب ساری قوم کے اخلاق برباد کرنے کے درپے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری کوشش یہ ہے کہ ہماری قوم اور ہمارا ملک جو کچھ بھی ترقی کرے، اسلامی اخلاق کے دائرے میں رہ کر کرے۔
(’’اسلام اور اس کے تقاضے‘‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد 31، عدد 3، رمضان 1367ھ، جولائی 1948ء، ص 29-28)