اسلامی جمہوریہ پاکستان اور سیکولر سیاست؟

پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے فرمایا ہے کہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مذہبی معاملات کو سیاسی نعروں کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ سید خورشید شاہ کے اس بیان کو دیکھا جائے تو اُن کی زبان میں ایک ’’لکنت‘‘ موجود ہے۔ اس لکنت کو نکال دیا جائے تو سید خورشید شاہ نے دراصل یہ کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ سید خورشید شاہ کے اس بیان کو آسان زبان میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ سید خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ ’’مسجد‘‘ میں ’’نماز‘‘ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ارے بھئی اگر مسجد نماز کے لیے نہیں ہے تو کیا ’’مورتی پوجا‘‘ کے لیے ہے؟ یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر مذہب کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوگی تو کیا سیکولرازم کی بنیاد پر سیکولر سیاست ہوگی؟ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق پر اعتراض کیا ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور پاکستان میں اسلام کو سیاست سے لاتعلق رکھنے کا مشورہ دیا جارہا ہے! دو قومی نظریہ اپنی اصل میں اسلام کے سوا کچھ نہیں، اور قیام پاکستان کی پوری جدوجہد دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی۔ یہ نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان کا قیام ممکن ہی نہیں ہوسکتا تھا، اس لیے کہ سیکولر سیاست کے اصولوں کے اعتبار سے تو ہندو اور مسلمان ایک قوم تھے، لیکن قائداعظم نے کہا کہ برصغیر میں مسلمان ایک ’’اقلیت‘‘ نہیں ایک ’’قوم‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں، اس لیے کہ مسلمانوں کا مذہب الگ ہے، تہذیب جداگانہ ہے، تاریخ مختلف ہے، مسلمانوں کے ہیرو ہندوئوں کے ولن ہیں، چنانچہ مسلمان اور ہندو ساتھ نہیں رہ سکتے۔ قائداعظم کی یہ سیاست ’الف‘ سے لے کر ’یے‘ تک ’’مذہبی سیاست‘‘ تھی، مگر قائداعظم کے انتقال کے بعد جو حکمران طبقہ پاکستان پر مسلط ہوا اُس نے ریاستی معاملات سے اسلام کو بے دخل کردیا۔ لیکن علما اور قائدِ ملّت لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر جیسے رہنمائوں کی کوششوں سے قراردادِ مقاصد منظور ہوئی اور اسلام پاکستان کے آئین میں مؤثر قوت بن کر سامنے آیا۔ علما اور مذہبی جماعتوں کی جدوجہد سے ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیت اسلامی آئین بنانے پر مجبور ہوئی۔ لیکن بلاول کے نانا اور سید خورشید شاہ کے قائد کے معاملات یہیں تک محدود نہ رہے۔ بھٹو نے بالآخر شدید عوامی دبائو پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا، شراب پر پابندی لگائی اور جمعہ کی تعطیل کا اعلان کیا۔ غور کیا جائے تو یہ بھی ’’مذہبی سیاست‘‘ ہی تھی۔ بھٹو صاحب نے مذکورہ بالا اقدامات کرکے پاکستان کے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی۔ بھٹو صاحب نے سیاسی نظریہ وضع کیا تو اسے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نام دیا۔ یہ بھی اپنی نہاد میں مذہب کے نہام پر سیاست تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی سوشلزم نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہ تھی۔ سوشلزم کا بانی کارل مارکس زندہ ہوتا تو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح سے آگاہ ہوتے ہی خودکشی کرلیتا۔ چنانچہ خورشید شاہ اور بلاول بھٹو کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست ناپسند ہے تو پہلے دو چار بیانات میں ذوالفقار علی بھٹو کی مذمت فرمائیں اور اعتراف کریں کہ پیپلز پارٹی کے بانی خود اسلام کے نام پر سیاست فرما چکے ہیں۔ خورشید شاہ اور بلاول بھٹو کا حافظہ سیکولرازم کھا گیا ہے ورنہ انہیں یاد ہوتا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے صرف پاکستان کے دائرے میں مذہبی سیاست نہیں کی، بلکہ انہوں نے پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرائی۔ اس کاوش کا مقصد امتِ مسلمہ کو متحد کرنا تھا۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ پوری امت کے دائرے میں مذہبی سیاست کی ایک مثال ہے۔ خورشید شاہ اور بلاول کو مذہب کے نام پر سیاست اتنی ناپسند ہے تو انہیں بھٹو صاحب کی امت گیر مذہبی سیاست کی بھی مذمت کرنی ہوگی۔
یہ عجیب بات ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو مذہب کے نام پر سیاست کی روک تھام کی جارہی ہے لیکن بھارت اور امریکہ جیسے سیکولر ملکوں میں مذہب کے نام پر سیاست کسی کو نظر نہیں آرہی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں مذہب کے نام پر سیاست بی جے پی نے ایجاد کی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ گاندھی نے جب ہندی اردو تنازع ایجاد کیا تو وہ دراصل یہ کہہ رہے تھے کہ اردو مسلمانوں کی اور ہندی ہندوئوں کی زبان ہے۔ گاندھی کا اہنسا یا عدم تشدد کا فلسفہ ایک دھوکا تھا مگر بہرحال اس نظریے کی جڑیں ہندوازم میں پیوست تھیں۔ گاندھی نے شودروں کا سماجی مرتبہ بلند کرنے کے لیے انہیں ’’ہری جن‘‘ کہنا شروع کیا تو یہ بھی ایک مذہبی تصور تھا۔ اس لیے کہ ’’ہری جن‘‘ کا مطلب ’’اللہ کا بندہ‘‘ ہے۔ نہرو خود کو سوشلسٹ کہتے تھے مگر انہوں نے قیام پاکستان کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود دِلّی میں مسلم کُش فسادات روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ اس رویّے کی پشت پر بھی مذہبی جذبات ہی کام کررہے تھے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت ہندوستان پر کانگریس کی حکومت تھی اور حکومت چاہتی تو بابری مسجد کو شہید ہونے سے بچانا ممکن تھا، مگر وزیراعظم نرسمہا رائو کی حکومت نے بی جے پی کے ہجوم کو روکنے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کانگریس کی مذہبی سیاست ’’پردہ دار‘‘ تھی۔ بی جے پی نے بس اتنا کیا کہ اس نے پردے کو تار تار کردیا اور مذہبی سیاست بھارت کے ایک ایک گلی کوچے کا مسئلہ بن گئی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بی جے پی کی کھلی مذہبی سیاست نے دراصل کانگریس کی خفیہ اور پوشیدہ مذہبی سیاست کی کوکھ سے جنم لیا۔ مگر میاں نوازشریف، جو پاکستان میں سیکولر سیاست کی سب سے بڑی علامت بنتے جارہے ہیں، بی جے پی کی مذہبی سیاست کے بارے میں کسی ذہنی تحفظ کا شکار نہیں بلکہ وہ ’’نواز مودی بھائی بھائی‘‘ کے نعرے کے سائے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ سید خورشید شاہ اور بلاول بھٹو کو بھی بھارت میں مذہبی سیاست پر کوئی اعتراض نہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ مذہبی اور نسلی سیاست کی علامت بن کر اقتدار میں آئے ہیں۔ موودی کی طرح ٹرمپ بھی اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ مودی اگر مسلمانوں کو کتے کا پِلاّ قرار دے چکے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی آئے دن ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ اور ’’اسلامی دہشت گرد‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کرکے اسلام اور مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر میاں نوازشریف ہوں، سید خورشید شاہ ہوں یا بلاول بھٹو زرداری… ہم نے آج تک ان رہنمائوں کو کبھی ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ مشورہ دیتے نہیں دیکھا کہ جناب آپ سیکولر امریکہ میں مذہب کے نام پر سیاست نہ کریں۔ یورپ میں دائیں بازو کے نسل پرست سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں عوام میں مقبول ہورہی ہیں اور سیکولرازم کی رو سے نسل پرستی پر مبنی سیاست بھی ناقابلِ قبول چیز ہے، مگر میاں نوازشریف اور سید خورشید شاہ کو یورپ کی صورتِ حال پر بھی کبھی تشویش میں مبتلا نہیں پایا گیا۔ انہیں تشویش ہے تو بس اس بات پر کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ سوشلزم ایک نظریے کی حیثیت سے فنا ہوچکا ہے اور اس کا مرکز سوویت یونین اب ماضی کی یادگار کے سوا کچھ نہیں۔ اس صورتِ حال میں چین کی معیشت بھی سرمایہ دارانہ ہوچکی ہے مگر چین کا سیاسی نظام ابھی تک کمیونسٹ پارٹی کے قبضے میں ہے۔ میاں نوازشریف چین پر فدا ہیں اور پیپلزپارٹی بھی چین کی دوست ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف اور سید خورشید شاہ یا بلاول بھٹو کو اس بات پر کبھی اعتراض کرتے نہیں دیکھا گیا کہ چین میں صرف ایک پارٹی کی حکومت کیوں ہے اور سوشلزم ازکارِ رفتہ ہونے کے باوجود چین کی سیاست کا مرکز کیوں ہے؟ لیکن پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا، جس کا آئین اسلامی ہے، جس کے عوام کی عظیم اکثریت اسلام کو ملک میں بالادست دیکھنا چاہتی ہے وہاں میاں صاحب سیکولرازم اور لبرل ازم کے بار میں بیٹھ کر جام پر جام پی رہے ہیں اور سید خورشید شاہ اور بلاول فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ سارے کے سارے اسلام میں داخل ہوجائو۔ لیکن میاں نوازشریف، بلاول بھٹو اورسید خورشید شاہ سیاست کے دائرے میں اعلان کے بغیر کہہ رہے ہیں کہ سارے کے سارے اسلام سے نکل جائو۔ ظاہر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے نام پر سیاست نہیں ہوگی تو سیکولرازم کی بنیاد پر سیاست ہوگی۔ لیکن ایک اسلامی ریاست میں سیکولرازم کی بنیاد پر سیاست آبِ حیات میں زہر گھولنے، مسجد میں مورتیاں رکھنے، خوب صورتی میں بدصورتی اور معنی میں بے معنویت ملانے کے مترادف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولرازم مسلمانوں کے لیے ایک اجنبی نظریہ ہے۔ سیکولرازم اسلام کی ضد ہے، اس کا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں، اس کا ہمارے اجتماعی تاریخی تجربے سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہم یہ سوچتے ہیں تو روح لرز جاتی ہے کہ وہ ذہن کیا ذہن ہوگا جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ’’ناکافی‘‘ اور انسانی ساختہ سیکولرازم ’’کافی‘‘ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیکولر سیاست دانوں کا تو سیکولرازم بھی جعلی ہے۔ سیکولرازم کا جمہوریت سے گہرا تعلق ہے اور جمہوریت میاں نوازشریف اور بلاول و خورشید شاہ کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ نواز لیگ ہو یا پیپلزپارٹی، ان پر خاندانوں کا قبضہ ہے، شخصی اور موروثی سیاست کا غلبہ ہے۔ یہ سیاست سیکولر جمہوری نظام میں ایک بہت بڑے ’’کفر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے، مگر پیپلزپارٹی ہو یا نواز لیگ، وہ دینی حلقوں میں جمہوریت کو داخل ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ اس مسئلے کا اہم پہلو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں سیکولرازم امریکہ جیسی شیطانی ریاست کا ایجنڈا ہے۔ اس ایجنڈے کا ہدف یہ ہے کہ اسلامی معاشروں اور اسلامی ریاستوں میں اسلام کو ریاستی معاملات سے بے دخل کرکے ایک ’’انفرادی معاملہ‘‘ بنایا جائے۔ غور کیا جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریے اور تہذیبی و تاریخی ورثے کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولرازم کا نام لینا بھی جرم ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لگائے، یعنی ’’اسلامی پیپلزپارٹی‘‘ اور ’’اسلامی نواز لیگ‘‘۔ اور پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو آئین میں ضروری ترمیم کرکے اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے انتخابی منشور میں اسلام کو بالادست بنانے کا وعدہ کرے اور اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ اس کی پوری سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی و ثقافتی فکر اسلام سے ماخوذ ہوگی۔ جو جماعت ایسا کرنے سے انکار کرے اُس پر پابندی لگا دی جائے اور اسے سیاسی جدوجہد اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایسے اقدامات کوئی اجنبیت نہیں ہوگی۔ ترکی ایک سیکولر ملک ہے اور وہاں کوئی جماعت اسلام کے نام پر سیاست نہیں کرسکتی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بادشاہت ہے اور وہاں سیاسی جماعتیں نہیں بنائی جاسکتیں۔ چین میں صرف کمیونسٹ پارٹی کو سیاست کا حق ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، چنانچہ یہاں جو پارٹی خود کو مکمل طور پر اسلامی نہ بنائے اُسے سیاست کا حق نہیں دیا جانا چاہیے۔ ہر ملک کا ایک مخصوص نظریہ، ایک مخصوص تہذیب اور کچھ مخصوص ضروریات ہوتی ہیں۔ پاکستان کا نظریہ اسلام ہے۔ ہماری تہذیب نے اسلام سے جنم لیا ہے، چنانچہ ہماری سیاست کو بھی اسلام کے گرد گھومنا چاہیے۔ ضرورت ہو تو اس سلسلے میں ریفرنڈم کرا لیا جائے۔ عوام سے پوچھ لیا جائے کہ انہیں سیاست میں سیکولرازم یا لادینیت درکار ہے یا اسلام؟ اس کے بغیر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے شریفوں کے چودہ طبق روشن نہیں ہوسکتے۔