یمن کے حوثی باغیوں نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کو قتل کردیا۔ اگرچہ آج کل وہ حوثیوں کے ساتھ مل کر سعودی حمایت یافتہ وزیر اعظم عبدالرب منصور ہادی کے خلاف برسر پیکار تھے۔ جب سے عرب بہار کے عنوان سے احتجاجوں اور مظاہروں نے انہیں اقتدار سے باہر کیا تھا اس وقت سے وہ حوثی باغیوں کے دوست بن گئے تھے اور ان کے ساتھ مل کر منصور ہادی کے حامیوں سے لڑ رہے تھے۔ ان کے قتل کے حوالے سے بیٹے احمد علی صالح کا کہنا ہے کہ جب ان کے والد کو شہید کیا گیا تو وہ اس وقت مسلح تھے۔رپورٹ کے مطابق احمد علی صالح کے ایک معاون نے ان کا ایک بیان میڈیا تک پہنچایا ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ حوثی ملک وقوم کے بد ترین دشمن ہیں۔ حوثی دہشت گردوں کو شکست دینے تک وہ لڑائی جاری رکھیں گے اور خون کے آخری قطرے تک جنگ جاری رکھیں گے۔احمد صالح نے کہا کہ ان کے والد کو گھر سے باہر نہیں بلکہ گھر پر قتل کیا گیا۔احمد صالح کا کہنا تھا کہ ان کے والد کے خون کا حساب دینا ہو گا۔ یہ (حوثی) وطن اور انسانیت کے دشمن ہیں جو یمن قوم کی تذلیل کے ساتھ ملک وقوم کے تشخص کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے العربیہ نے لکھا ہے کہ علی عبداللہ صالح کو قتل کرنے کے بعد حوثی عملی طور پر تمام یمنیوں کے حریف بن گئے ہیں کیونکہ وہ سابق صدر اور ان کے سیاسی محاذ کو حب الوطنی کا واحد پتا خیال کرتے تھے لیکن علی عبداللہ صالح نے اچانک ایک نشری بیان میں مصالحت کو قبول کرنے کا اعلان کردیا اور اس طرح انھوں نے یمن میں ڈرامائی طور پر جنگ کا نقشہ ہی تبدیل کردیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد اب ان کی اعلان کردہ تبدیلی کا عمل رُکے گا نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مقتول صدر اپنی قبر سے جنگ کا کنٹرول سنبھال سکیں گے اور حوثیوں اور ان کے اتحادیوں کا یمن کی قانونی حکومت کے ساتھ مل کرمقابلہ کریں گے؟ مطلب یہ ہے کہ کیا ان کے ادارے، اتحاد اور افراد ان کے وفادار ر ہیں گے؟ وہ ان کی ہدایات اور نظریات کی پیروی کرتے ر ہیں گے؟ کیونکہ یمن پر ان کے اثرات کوئی چار عشروں پر محیط رہے ہیں۔ ہم جو کچھ جانتے ہیں، وہ یہ کہ ماضی میں علی عبداللہ صالح کو مٹانے کی کوششیں ناکام رہی تھیں۔حتیٰ کہ جب انھیں عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تو اس کے بعد بھی ایک لیڈر کے طور پر ان کی حیثیت برقرار رہی تھی۔
انھیں جب مسجد النہدین میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت بھی ہر کسی نے یہی خیال کیا تھا کہ ان کا کردار اب ختم ہوگیا ہے۔وہ اس بم دھماکے میں جھلس گئے تھے اور اس کے بعد کئی مہینے تک الریاض کے ایک فوجی اسپتال میں زیر علاج رہے تھے۔ وہ پھر صنعا لوٹے اور انھوں نے حکومتی نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے کر سب کو حیران کردیا تھا۔انھوں نے سیاسی اور فوجی جنگوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ حوثیوں نے بالآخر انھیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔وہ محض انتقام کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ مقتول ان کے مخالف ہوگئے تھے اور ان کے سیاسی منصوبے کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔چند روز قبل انھوں نے جب حوثیوں کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی انھوں جنگ کے نقشے کو تبدیل کردیا تھا اور قانونی حکومت کے دشمنوں کی تعداد میں نصف کی کمی کردی تھی۔اس طرح مسلح حزب اختلاف کے زیر قبضہ رہ جانے والے علاقے بھی مزید سکڑ گئے تھے۔علی صالح دشمنوں کے کیمپ کو چھوڑ کر اتحادیوں کے ساتھ جا ملے تھے۔اب اس سے حوثیوں کی شکست کا عمل تیز ہوجائے گا اور بڑی جنگ کا بھی جلد خاتمہ ہوجائے گا۔
تاہم علی صالح کے قتل کا مقصد مصالحت کے عمل کو معطل کرانا ہوسکتا ہے کیونکہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ان کے قتل کا مقصد مصالحت کو سبو تاژ کرنا تھا،اس لیے ہمیں اس کو کامیاب کرانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔سابق صدر نے زندگی کے آخری چار روز میں جو کچھ کیا ہے، یہ تین سال قبل جنگ کے آغاز کے بعد سے سب سے اہم پیش رفت ہے۔اس سے حوثیوں کو پیچھے دھکیلنے اور انھیں یمن کے شمال میں و اقع ان کے آبائی علاقوں میں محصور کرنے کے لیے کارروائیوں کو توانائی ملے گی لیکن ایسا تب ہوگا جب صالح کی فوج کے کمانڈر یمنی فوج کی صفوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
گزشتہ چند روز کے دوران میں علی عبداللہ صالح نے صنعا کو حوثیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش کی تھی۔حوثی باغیوں نے ستمبر 2014ء میں یمنی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تھا اور تب فوج اور سکیورٹی ادارے کسی مزاحمت کے بغیر ہی شکست سے دوچار ہوگئے تھے مگر آج صنعا میں حوثیوں کی کیا عسکری قوت ہے؟یہ کہا جاتا ہے کہ آج وہ دارالحکومت میں ایک مضبوط قوت ہیں اور انھیں وہاں سے نکال باہر کرنے کے لیے ایک خونریز جنگ ہوگی۔ علی صالح کے قتل کے واقعے نے اس بات کو ثابت ضرورکردیا ہے کہ حوثی شہر میں ایک بااثر قوت ہیں۔
ماضی میں صنعا علی صالح کا مضبوط قلعہ رہا تھا اور حوثی ان کی اجازت کے بغیر اس شہر میں داخل نہیں ہوسکتے تھے اور نہ اس پر قبضہ کرسکتے تھے۔تاہم انھوں نے شہر میں داخلے کے بعد اسلحہ کے حصول پر توجہ مرکوز کی۔ سرکاری اسلحہ خانوں کو لوٹا اور ایک روز اپنے اتحادی علی صالح کے مقابل آنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔یوں حوثیوں نے انھیں قتل کرنے کے بعد دارالحکومت کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
نئی حقیقت خطرناک ہے۔اس کا تقاضا یہ ہے کہ یمنی فوج اور اتحادی فورسز صنعا میں داخل ہونے کے لیے صالح کی صدمے سے دوچار وفادار فورسز سے مل کر کام کریں۔ صنعا کے شہریوں اور صالح کی فورسز کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ دارالحکومت کو حوثیوں کے پنجے سے آزاد کرائیں۔مقتول سابق صدر نے ایک نشری تقریر میں یمن کا محاصرہ ختم کرنے اور فوجی اور شہری مقاصد کے لیے ہوائی اڈے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ امدادی قافلے ملک میں داخل ہوسکیں اور تجارتی سرگرمی بحال ہو۔اب صالح کے قتل کے بعد یہ ممکن نہیں رہا ہے۔ البتہ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ صالح کی فورسز کے ساتھ ایک نیا اتحاد تشکیل دیا جائے اور صنعا میں حوثیوں کا مقابلہ کیا جائے۔اگر کسی مصالحتی سمجھوتے پر متفق ہونے والے فریق صنعا کے کسی نظم ونسق پر متفق ہوجاتے ہیں تو پھر اس کو ملک کے انتظامی دارالحکومت کے طور پر از سر نو بحال کیا جاسکے گا۔صنعا کے مکینوں، جنرل پیپلز کانگریس کی قیادت اور علی صالح کی وفادار فورسز کے کمانڈروں کو مقتول سابق صدر کی اختیار کردہ تبدیلی کا ادراک کرنا چاہیے اور انھیں سمجھنا چاہیے کہ انھیں اس تبدیلی کو اختیار کرنے کی بنا پر ہی قتل کیا گیا ہے۔انھیں ان کے فیصلے کا دفاع کرنا چاہیے۔
حوثیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ اپنے نئے دشمن علی صالح کو مٹانے اور ان کے منصوبے کی راہ میں حائل ہونے میں تو کامیاب ہوگئے ہیں لیکن سیاسی نظام کا حصہ بننے کے لیے ان کی اثر انداز ہونے کی امید دم توڑ گئی ہے۔ سعودی اتحاد کی جانب سے کسی قسم کے سمجھوتے سے انکار اور باقاعدہ جنگ کی وجہ سے علی عبداللہ صالح پریشان تھے اور اس دوران میں انہوں نے ایران نواز اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر کے سعودی عرب کو تعاون کا پیغام بھیجا تھا۔ لیکن ایسے کاموں میں ہر چیز مرضی کے مطابق نہیں ہوتی خصوصاً جب ایک سے زیادہ ممالک کا مفاد کسی معاملے میں شامل ہو جائے چنانچہ جب وہ اپنے گھر سے نکل کر دارالحکومت چھوڑ رہے تھے تو ان پر حملہ کردیا گیا اوران کے کئی قریبی ساتھیوں کو بھی قتل کردیا گیا۔ اگر ان کے گروپ نے ایران نواز گروپ کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا تو گویا خانہ جنگی مزید پھیلے گی۔ علی عبداللہ صالح کا یمن کے حکمران بنے اس کے بعد سے کئی مواقع پر سعودی عرب اور عراق کے اتحادی بنے۔ دونوں یمن بھی اس دوران ایک ہوئے۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ علی عبداللہ صالح نے حوثیوں کو منصور ہادی کے خلاف استعمال کیا لیکن خطے کے سیاسی پہلوانوں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ علی عبداللہ صالح ہی نے نہیں بلکہ حوثیوں کو استعمال کرنے والوں نے علی عبداللہ صالح کو بھی استعمال کیا
یمن میں اب خانہ جنگی زیادہ نچلے درجے تک پہنچ جائے گی۔ یمن وہ ملک ہے جہاں علی عبداللہ صالح کے جبر کے دور میں بھی حوثی اور سنی مسلمان ایک ہی مسجد میں نمازیں ادا کرتے تھے۔ اور کبھی اختلافی امور پر مباحثے بھی ہوتے تھے۔ لیکن اقتدار ایسی چیز ہے جو کسی بھی حکمران سے کوئی بھی غلطی کروا دیتا ہے۔ علی عبداللہ عرب بہار کی وجہ سے اقتدار سے الگ کیے گئے تھے۔ اب انہیں واپسی کا جو راستہ نظر آیا، یا انہیں دکھایا گیا وہ حوثیوں سے تعاون تھا جس میں بعد میں ایران بھی کود پڑا یہ راہ آسان نہیں تھی دو سالہ خانہ جنگی کے بعد انہیں اچھی طرح پتا چل گیا تھا کہ وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں لیکن غلط راستوں کے انتخاب کے بعد معاملات آسانی سے درست نہیں ہوتے۔ علی عبداللہ صالح کے قتل میں مشرق وسطیٰ اور کئی مسلم ممالک کے لیے سبق ہے۔ اگر اقتدار کی خاطر غلط کام کیے گئے اور غلط راستے اختیار کیے گئے تو ان کا انجام بھی غلط ہی ہواگا۔