پشاور میں ایک ہفتے کے دوران دہشت گردی کے دو الگ الگ واقعات میں ایک ایڈیشنل آئی جی پولیس سمیت 15 افراد جن میں 6 طلبہ بھی شامل ہیں، جاں بحق ہوگئے۔ پشاور میں دہشت گردی کی تازہ لہر میں پہلا واقعہ گزشتہ مہینے کی 24 تاریخ کو پوش علاقے حیات آباد میں پیش آیا تھا جس میں اے آئی جی ہیڈ کوارٹرز محمد اشرف نور کی گاڑی کو صبح اُس وقت ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے گھر سے دفتر جا رہے تھے۔ یہ حملہ ایک موٹر سائیکل سوار خودکش بمبار نے کیا تھا جس کے نتیجے میں اے آئی جی پولیس اشرف نور اپنے ایک گارڈ کے ہمراہ جام شہادت نوش کرگئے تھے۔ پشاور میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کا دوسرا سانحہ یکم دسمبر، بارہ ربیع الاول کے مبارک دن پیش آیا۔ اس دن تین دہشت گردوں نے پشاور یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج کے بالمقابل یونیورسٹی روڈ پر واقع زرعی تربیتی ادارے ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ جو اے ٹی آئی کے نام سے مشہور ہے، میں داخل ہوکر ہاسٹلوں میں موجود طلبہ اور عملے کے 12 افراد کو فائرنگ کرکے شہید اور 35 افراد کو زخمی کردیا جس میں پولیس کے علاوہ پاک فوج کے جوان بھی شامل تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ حملہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اُس وقت کیا گیا جب تین برقع پوش حملہ آوروں نے اے ٹی آئی کے مرکزی گیٹ میں داخل ہوکر سب سے پہلے ڈیوٹی پر موجود چوکیدار کو فائرنگ کا ہدف بنایا اور اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ کی مرکزی عمارت میں داخل ہوکر ہاسٹل کے کمروں میں موجود طلبہ کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ مقامی طلبہ کا کہنا ہے کہ عام تعطیل کی وجہ سے زیادہ تر طلبہ اپنے گھروں کو چلے گئے تھے جب کہ ہاسٹل میں رہ جانے والے طلبہ میں اکثریت اُن طلبہ کی تھی جو دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو کم ہی اپنے آبائی علاقوں کو جاتے ہیں۔ ہاسٹل میں رہ جانے والے طالب علموں کی اکثریت بھی چھٹی کی وجہ سے دہشت گردوں کے حملے کے وقت سو رہی تھی لیکن جب انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی تو وہ جاگ گئے اور ان میں سے کئی طلبہ اپنے کمروں سے نکلنے کے باعث دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
دہشت گردی کے اس اندوہناک واقعے میں ہونے والے قیمتی جانی نقصان سے قطع نظر یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ پولیس فورس نے سرکاری تعطیل اور صبح کا وقت ہونے کے باوجود پانچ سات منٹ کے اندر اندر جائے وقوعہ پر پہنچ کر دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور انہیں کیفرِکردار تک پہنچانے میں جس جرأت اور سرعت کا مظاہرہ کیا اس کی ہر سطح پر تعریف کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں سی سی پی او پشاور ڈی آئی جی محمد طاہر خان نے میڈیا کو بتایا کہ ہماری ریپڈ پولیس فورس کو جیسے ہی اے ٹی آئی پر حملے کی اطلاع ملی تو چار پانچ منٹ کے اندر اندر ریپڈ پولیس فورس کے جوان اور افسر متاثرہ مقام پر پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایس پی آپریشن سجاد خان یونیفارم پہنے بغیر نائٹ ڈریس میں آپریشن کی نگرانی اور قیادت کے لیے دس منٹ کے اندر پہنچ گئے تھے۔ پولیس کمانڈوز اور پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں دو گھنٹوں کے اندر اندر نہ صرف تینوں دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا گیا بلکہ زخمیوں اور محصور افراد کو ریسکیو کرتے ہوئے قریبی خیبر ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں منتقل کیاگیا۔ آپریشن کے دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر مسلسل نگرانی کرتے رہے، جب کہ ٹریفک پولیس نے بھی چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی روڈ کی ٹریفک کو بہترین انداز میں مینج کرنے کے علاوہ زخمیوں اور دیگر محصور افراد کے محفوظ انخلا اور انہیں بروقت قریبی ہسپتالوں تک پہنچانے میں بھی اپنے فرائض نہایت پیشہ ورانہ انداز میں ادا کیے۔ اسی طرح حملے کی اطلاع ملتے ہی خیبر تدریسی ہسپتال اور ایچ ایم سی میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی اور تمام متعلقہ اسٹاف کو چھٹی کے باوجود بروقت ڈیوٹی پر پہنچنے کی ہدایات جاری کردی گئی تھیں۔ مذکورہ دونوں ہسپتالوں کے طبی عملے نے جن میں ڈاکٹر، نرسیں، پیرامیڈیکس، حتیٰ کہ کلاس فور ملازم شامل ہیں، جس تندہی اور جانفشانی سے ہسپتال پہنچنے والے زخمیوں اور دیگر ریسکیو کیے جانے والے طلبہ اور افراد کی خدمت کی اُن کا یہ جذبہ ہی دراصل وہ طاقت ہے جو زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ برستی گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور پھٹتے گرنیڈوں کی گھن گرج، چیختے چلاّتے زخمیوں کے شور میں پولیس اور پاک فوج کے جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں پر کھیل کر فرض کی پکار پر جو لبیک کہا اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہوگی۔ ریسکیو1122کی ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں اور دیگرعملے نے متاثرہ افراد کو جس چابک دستی سے محفوظ مقامات اور ہسپتالوں میں منتقل کیا وہ مناظر یقینا ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہ بات بلاشک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ تمام متعلقہ ادارے باہم مربوط نہ ہوتے اور اگر ان کے اہلکاروں کا عزم وحوصلہ بلند نہ ہوتا اور یہ سب قومی ادارے اور ان کے اہلکار خدمت کے جذبے سے سرشار نہ ہوتے تو نقصان خدانخواستہ کئی گنا بڑھ سکتا تھا۔
اس واقعے کے روز خیبر ہسپتال میں ایک ہیجانی کیفیت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب ہسپتال انتظامیہ کو حملے کے فوراً بعد اے ٹی آئی سے ملحقہ اپنے نرسنگ اسکول کا ہاسٹل اور ڈاکٹرز کالونی ممکنہ حملے کے خطرے کے پیش نظر خالی کرانے کے لیے کہا گیا، جس پر ہسپتال انتظامیہ کو تمام بیچلر خواتین نرسوں کے علاوہ ڈاکٹروں کی اہلِ خانہ کو ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال کے پرائیویٹ رومزکے علاوہ دیگر محفوظ مقامات پر منتقل کرانا پڑا۔
ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری جہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان خالد عمر خراسانی نے قبول کرکے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے کہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ افغانستان میں موجود ہیں، وہیں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر دوٹوک الفاظ میں میڈیا کے ساتھ یہ بات شیئر کی کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور اس حملے کو وہیں سے مانیٹر اور ہینڈل کیا جارہا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق دہشت گردوں کی ٹریس ہونے والی موبائل فون کالز افغانستان سے کی گئی ہیں۔ بقول ان کے، یہ تینوں دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں ایک رات پہلے داخل ہوئے تھے اور انہوں نے قریبی واقع دانش آباد کے علاقے میں رات کو قیام کیا تھا اور وہیں سے صبح جعلی نمبر پلیٹ لگے ایک رکشے میں بیٹھ کر یہ تینوں دہشت گرد اے ٹی آئی پہنچے تھے۔ واضح رہے کہ اس حملے اور دسمبر2014ء کے آرمی پبلک اسکول اور جنوری2016ء میں باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر کیے جانے والے دہشت گرد حملوں میں کافی حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔ البتہ ان تینوں واقعات میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ متذکرہ پہلے دونوں واقعات ایسے دنوں میں وقوع پذیر ہوئے تھے جب یہ دونوں تعلیمی ادارے کھلے تھے، جبکہ اے ٹی آئی کا واقعہ عام تعطیل کے روز وقوع پذیر ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس واقعے میں پچھلے دونوں واقعات کے مقابلے میں جانی نقصان نسبتاً کم ہوا ہے۔
دریں اثناء بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پشاور واقعے کے زخمیوں کی عیادت کے موقع پر واضح الفاظ میں کہا ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ مل کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانا کہاں کی بہادری اور انصاف ہے! ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی سرمایہ اور افغانستان کی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں کے عوام نے دہشت گردی کا جس پامردی اور عزم و استقامت سے مقابلہ کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا کے دہشت گردی کا شکار ہونے والے خاندانوں کے عزم و حوصلے کو دیکھ کر اہلِ بلوچستان کا حوصلہ بھی بلند ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کا مقابلہ قومی مفاہمت اور اتفاقِ رائے ہی سے کیا جاسکتا ہے۔
اسی اثناء جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے پشاور حملے کے زخمیوں کی عیادت کے موقع پر زخمیوں کے لواحقین اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اے ٹی آئی کے معصوم طلبہ اور اسٹاف پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔ بھارت افغانستان کو سہولت کار بناکر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان اور پاکستان کو نہ صرف مل کر کام کرنا ہوگا بلکہ اس ضمن میں دونوں ممالک کو حکومتی اور ادارہ جاتی سطح کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی متحرک ہوکر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ دونوں برادر پڑوسی ملک پچھلی کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں جس کا فائدہ اسلام دشمن قوتیں اٹھا رہی ہیں، اس لیے دونوں ممالک کو تمام جزوی اور وقتی اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے ہم آواز ہونا ہوگا۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ امریکہ کی جنوب ایشیائی پالیسی کا حصہ ہے جس نے اس پورے خطے کو آگ اور خون میں جھونکتے ہوئے ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے جس سے یہاں کا امن و سکون غارت ہوگیا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان سرزمین استعمال ہونے اور ان بزدلانہ کارروائیوں کے پیچھے بھارتی سرمائے اور منصوبہ بندی کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آنے کے بعد پاکستان کو نہ صرف قومی سطح پر تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کو بھارت کے ان کھلم کھلا پاکستان دشمن عزائم کے خلاف ہم آواز اور صف آراء کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس ایشو کو عالمی اور تمام علا قائی فورموں پر بھی پوری شدت کے ساتھ اٹھاتے ہوئے بھارت کے مکروہ عزائم سے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کرنا چاہیے۔