۔14 انسانی جانوں کے خون میں نہائے ہوئے سانحۂ ماڈل ٹائون پر جسٹس نجفی رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے، جس کے بعد ملکی سیاست خصوصاً پنجاب کی سیاست میں ایک نیا بھونچال آگیا ہے۔ 16،17 جون 2014ء کو پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ پر پنجاب پولیس کے دھاوے اور آپریشن کے نتیجے میں 14 بے گناہ افراد مارے گئے تھے، جس پر عوامی تحریک اور حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلسل احتجاج کیا جاتا رہا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس آپریشن کو قتلِ عام کا نام دیا تھا اور اس کی ذمہ داری وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سمیت 21 اہم شخصیات پر ڈالی تھی۔ اُن کے شدید احتجاج اور دبائو کے بعد پولیس نے متذکرہ افراد سمیت بعض دیگر معلوم اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا، جس کے بارے میں اُس وقت عام تاثر یہ تھا کہ حکومت یہ مقدمہ کسی صورت درج نہیں کررہی تھی لیکن اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر یہ مقدمہ درج کیا گیا۔ واقعہ کے فوری بعد وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کہا تھا کہ انہیں اس واقعہ کا علم نہیں تھا، اور اگر وہ اس میں کسی طرح بھی ملوث پائے گئے تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے اس واقعہ کی انکوائری کے لیے ایک کمیشن بنانے کی درخواست بھی کی تھی۔ یہ درخواست چیف سیکرٹری پنجاب کے ذریعے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھجوائی گئی، جنہوں نے اس مقصد کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں ایک رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔ اس معاملے پر ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) بھی بنی تھی۔ جسٹس باقر نجفی نے شواہد، دستاویزی اور واقعاتی ثبوت اور گواہوں کے بیانات کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی تھی، جو قواعد کے مطابق پنجاب حکومت کو بھجوا بھی دی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے بارے میں بار بار مختلف قسم کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی اور ٹی وی ٹاک شوز میں زیر بحث آتی رہیں۔ اگرچہ اُس وقت یہ رپورٹ سرکاری طور پر جاری نہیں کی گئی تھی، لیکن اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اپنے ذرائع سے رپورٹ کے بعض حصے حاصل کرکے شائع اور نشر کردیئے تھے۔ مجموعی طور پر رپورٹ سے منسوب شائع کی جانے والی خبروں میں یہ تاثر موجود تھا کہ یہ رپورٹ حکومت کے خلاف ہے اور اس میں حکومت، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر داخلہ پنجاب اور دیگر حکام کو ذمہ دار قرار دیا تھا لیکن حکومت بار بار کے مطالبے کے باوجود رپورٹ شائع نہیں کررہی تھی، جس سے اس تاثر کو مزید تقویت مل رہی تھی۔ پاکستان عوامی تحریک رپورٹ شائع کرنے کے لیے مسلسل دبائو ڈالتی رہی اور آخرکار کچھ لوگ اس معاملے میں عدالت بھی گئے۔
چناں چہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی اکبر نقوی پر مشتمل سنگل بینچ نے نجفی رپورٹ شائع کرنے کا حکم دیا، مگر پنجاب حکومت اور واقعہ کے نامزد پولیس افسران اور اہلکاروں نے اسے فل بینچ کے روبرو انٹرا کورٹ اپیل کے ذریعے چیلنج کردیا۔ اس انٹرا کورٹ اپیل کو منگل کے روز تین رکنی فل بینچ نے مسترد کردیا اور رپورٹ فوری طور پر متاثرین کو دینے اور تیس دن کے اندر مشتہر کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم جسٹس طاہر عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس شہباز علی رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین نے سنایا۔ عدالتی فیصلہ آنے کے فوری بعد نجفی رپورٹ کے حصے ٹی وی چینلز پر آنے لگے جس سے شک گزرتا ہے کہ شاید رپورٹ پہلے ہی اخبارات اور چینلز کے پاس تھی، وہ صرف عدالتی فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔ فیصلہ آنے کے فوری بعد ٹی وی چینلز پر فیصلے کے بجائے نجفی رپورٹ پر تبصرے شروع ہوگئے اور عملاً ساری نجفی رپورٹ ہی کئی گھنٹے تک زیر بحث رہی۔ جسٹس علی باقر نجفی ٹریبونل کی یہ رپورٹ اگرچہ ایک عرصے سے زیر بحث تھی مگر عدالتی حکم کے بعد اس پر کھلے عام تبصرے ہورہے ہیں۔ اس رپورٹ میں اگرچہ سانحہ کی مکمل ذمہ داری کسی ایک شخص یا بہت سے افراد کا نام لے کر نہیں ڈالی گئی، مگر یہ بات واضح ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری حکومتِ پنجاب پر ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر عوامی تحریک کے کارکنوں کو نہتے لکھا گیا ہے اور پولیس آپریشن کو خون کی ہولی اور قتل عام لکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خون کی اس ہولی سے واضح ہے کہ پولیس نے قتلِ عام میں بڑی پھرتی دکھائی۔ معاملے میں پنجاب کی تمام اتھارٹیز کی غفلت اور لاپروائی ہے جس سے ان کے بے گناہ ہونے پر شک گزرتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 16 جون کو صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی اور عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا۔
نجفی رپورٹ کے بعد جہاں ایک طرف پنجاب حکومت، شریف خاندان، رانا ثناء اللہ اور پنجاب کے بعض سابق افسران پر شدید دبائو آیا ہے، وہیں یہ سوال بھی ابھرا ہے کہ اس رپورٹ کا حاصل کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس رپورٹ میں ہر ایک پر الزام لگا ہے مگر ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی گئی۔ عملاً سانحہ ماڈل ٹائون کے 14 بے گناہ افراد اب بھی اپنے قاتلوں کی تلاش میں ہیں اور ان کے ورثا قاتلوں کا انجام دیکھنے کے لیے مزید انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس رپورٹ کی وجہ سے رانا ثناء اللہ ایک بار پھر کہہ رہے ہیں کہ وہ اور شہبازشریف بے گناہ ہیں اور رپورٹ میں ان پر ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔
اس رپورٹ سے شریف خاندان جو پہلے ہی دبائو اور مشکلات میں تھا، نئی مشکلات میں آگیا ہے۔ اب اس معاملے کا ٹرائل ہوگا، لیکن عدالت کا کہنا ہے کہ رپورٹ کو شفاف ٹرائل پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ رپورٹ ٹرائل میں زیر بحث آئی تو اگلا سوال یہ ہے کہ جسٹس نجفی رپورٹ کے سلسلے میں عدالت میں پیش ہوں گے اور کیا اُن پر جرح ہوسکے گی؟ ایک ورکنگ جج پر جرح کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں۔ دوسری جانب تاحال یہ بات واضح نہیں اور رپورٹ کے مطابق پولیس بھی یہ نہیں بتارہی کہ گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ شاید وزیراعلیٰ اگر عدالتی بیان دیں تو وہ بتا سکیں کہ اگر انہوں نے یا رانا ثناء اللہ نے یہ حکم نہیں دیا تو کس نے یہ حکم دیا تھا۔ اور اگر موقع پر موجود پولیس افسر نے ان کے بیان کی تردید کی تو وہ کیا ثبوت پیش کریں گے کہ ان کو فلاں شخصیت نے فائرنگ کا حکم دیا تھا۔
نجفی رپورٹ آنے کے بعد جو پنڈورا باکس کھلا ہے اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے معروضی حالات میں بااثر ملزموں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ حالاں کہ انسانی جان سب سے محترم ہے۔ اس کی حرمت اور حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر یہاں 14 افراد کا قتلِ عام ہوا مگر کوئی تفتیشی افسر، تفتیشی ادارہ، جے آئی ٹی یا ٹریبونل یہ نہیں بتارہا کہ اصل قاتل کون ہے اور آلہ کار کون بنا؟ ایسے میں لوگ اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ شاید سانحہ ماڈل ٹائون بھی ماضی کے بہت سے اہم کیسوں کی طرح معما ہی بنا نہ رہ جائے۔