امریکی سفارتخانے کی ’’یروشلم‘‘ منتقلی کا فیصلہ؟

امریکی دارالحکومت میں گزشتہ کئی دنوں سے یہ افواہ گردش کررہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پہلے یہ اعلان 29 نومبر کو متوقع تھا جو اقوام متحدہ کی جانب سے ’تقسیم فلسطین‘ کے معاہدے کی 70 ویں سالگرہ کا دن تھا۔ صہیونی ریاست 1917ء میں پہلی جنگِ عظیم کے دوران عثمانی خلافت کے عملی خاتمے کے ساتھ ہی وجود میں آگئی تھی جس کا اعلان برطانیہ کے وزیرخارجہ آرتھر بالفور (Arthur Balfour) نے ’فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن‘ کے نام سے کیا تھا۔ یہ اعلامیہ یا ڈکیتی کی قرارداد Balfour Declaration کے نام سے مشہور ہے۔ عربوں اور فلسطینیوں نے اپنے سینے میں گڑے اس خنجر کو آج تک ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ نے ’تقسیم فلسطین‘ کے عنوان سے بدنام زمانہ بالفور قبضہ مافیا کے مجرمانہ اقدام کو قانونی شکل دے دی۔ یہ قرارداد 13 کے مقابلے میں 33 ووٹوں سے منظور ہوگئی۔ مخالفت کرنے والوں میں پاکستان، ہندوستان، ترکی، افغانستان اور عرب ممالک شامل تھے۔ اس معاہدے کے تحت یروشلم فلسطینیوں کے زیرانتظام تھا۔ بدقسمتی سے عربوں کی اعلیٰ ظرفی اور مذہبی رواداری کو تاریخ کے صفحات سے مٹادیا گیاکہ شدید کشیدگی اور تصادم کے باوجود فلسطینیوں نے یروشلم کو عیسائی و یہودی زائرین کے لیے کھلا رکھا۔ مفتیٔ اعظم فلسطین نے ایک فتوے کے ذریعے سارے یروشلم کو دارالامن قرار دے کر وہاں اسلحہ لے جانے یا کسی کو روکنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اسرائیلیوں کے مغربی یروشلم پر قبضے تک سارے کا سارا حرم القدس جس میں ہیکل سلیمانی کی جگہ، دیوارِ گریہ، مسیحیوں کے مقاماتِ مقدسہ اور مسجد اقصیٰ شامل ہے، بلا تفریق نسل و مذہب تمام لوگوں کے لیے کھلا رہے۔ یہ علاقہ دن رات زائرین سے بھرا رہتا تھا۔ اس عرصے میں جھگڑا اور فساد تو دور کی بات، چوری اور کسی زائر کی جیب کترنے کا واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔1948ء میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کرلیا اور یہاں آباد مسلمانوں اور عیسائیوں کو یروشلم کے مشرقی حصے کی طرف دھکیل دیا گیا جو اُس وقت اردن کے زیرانتظام تھا۔
جون 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے یروشلم کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کرلیا اور سارے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردے دیا گیا۔ اقوام عالم نے یروشلم پر اسرائیل کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا اور اصرار کے باوجود آج تک کسی ملک نے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل نہیں کیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے تمام ممالک تل ابیب کو اُس کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ 30 جون 1980ء کو سلامتی کونسل نے صفر کے مقابلے میں 14 ووٹوں سے قرارداد نمبر 476 منظور کی جس میں کہا گیا کہ
“all legislative and administrative measures and actions taken by Israel, the occupying Power, which purport to alter the character and status of the Holy City of Jerusalem have no legal violation validity and constitute a flagrant of the Fourth Geneva Convention”.
یعنی’’قبضہ مافیا (اسرائیل) کی طرف سے یروشلم کے مقدس شہر کی ہیئت و حیثیت تبدیل کرنے کے لیے جو قانونی اور انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور یہ جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘
امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا اور رائے شماری کے وقت اُس کے سیاہ فام سفیر ڈونلڈ مک ہنری خاموش بیٹھے رہے۔ اُس وقت صدر کارٹر امریکہ کے صدر تھے جنھیں ملک کی یہودی لابی کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ مسٹر ہنری کے پیشرو اینڈریو ینگ کو چند ماہ پہلے صرف اس وجہ سے برطرف کردیا گیا تھا کہ انھوں نے فلسطینی تحریکِ آزادی کے نمائندے سے ملا قات کی تھی۔
توقع کے عین مطابق اسرائیل نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو مسترد کردیا۔ وزیراعظم میناخم بیگن (Menachem Begin)انتہائی مشتعل تھے۔ ردعمل کے طور پر 30 جولائی 1980ء کو اسرائیل کی پارلیمان نے قانون القدس یا Jerusalem Law کے عنوان سے ایک بل منظور کرلیا جس کے تحت یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ قانون القدس منظور ہوتے ہی اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے دنیا بھر کی حکومتوں کو اسرائیلی صدر کے فرمان بھیجے جس میں ان ملکوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کردیں۔ تاہم اب تک کسی ایک ملک نے بھی اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل نہیں کیا اور پاپائے روم و ترکی سمیت صرف 10 ممالک نے یروشلم میں اپنے قونصل خانے قائم کر رکھے ہیں۔
اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی پر تین ہفتے بعد یعنی 20 اگست 1980ء کو قرارداد نمبر 478 پیش کی گئی جس میں قانون القدس اور گزشتہ قرارداد کو نظرانداز کرنے پر اسرائیل کی مذمت کی گئی تھی۔ امریکہ ایک بار پھر غیر جانب دار رہا اور یہ مذمتی قرارداد بھی صفر کے مقابلے میں 14 ووٹوں سے منظور ہوگئی۔ اپنے ملک کے خلاف پے در پے دو مذمتی قراردادیں منظور ہونے پر میناخم بیگن آپے سے باہر ہوگئے۔ انھوں نے قرارداد ویٹو نہ کرنے پر صدر کارٹر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ انھیں اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اسرائیلی وزیراعظم کا اشارہ صدارتی انتخابات کی طرف تھا جو صرف ڈھائی مہینے بعد ہونے والے تھے۔ مسٹر بیگن نے امریکہ میں ’اسرائیل کے دوستوں‘ سے صدر کارٹر کو نشانِ عبرت بنادینے کی درخواست کی۔ اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی، یعنی 4 نومبر 1980ء کو ہونے والے انتخابات میں انھیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جمی کارٹر اپنی آبائی ریاست اور دارالحکومت سمیت صرف 6 ریاستوں میں کامیابی حاصل کرسکے اور رونلڈ ریگن نے 44 ریاستوں میں انھیں بری طرح ہرادیا۔
صدر کارٹر کے اس عبرتناک حشر سے امریکی سیاست دانوں نے سبق سیکھا اور اسرائیل کی حمایت مزید بڑھ گئی۔ 13 اکتوبر 1995ء کو سینیٹ کے قائدِ ایوان باب ڈول نے ایک مسودۂ قانون یا بل پیش کیا جس کے مطابق اسرائیل میں امریکہ کے سفارت خانے کو 31 مئی 1999ء سے پہلے یروشلم منتقل کیا جانا تھا۔ بظاہر تو بل پیش کرنے کے لیے وقت کا انتخاب اس بنیاد پر کیا گیا تھاکہ اسرائیلی روایات کے مطابق 1995ء حضرت دائود علیہ السلام کی تخت نشینی کی 3000 ویں سالگرہ تھی اور تقریبات میں شرکت کے لیے اسرائیل کے صدر اور وزیراعظم امریکی دارالحکومت آئے ہوئے تھے۔ تاہم اصل وجہ ایک سال بعد یعنی نومبر 1996میں ہونے والے صدارتی انتخابات تھے جن پر باب ڈول کی نظر تھی۔ توقع کے عین مطابق یہ قرارداد سینیٹ میں 5 کے مقابلے میں 93، اور ایوانِ زیریں سے 37 کے مقابلے میں 374 ووٹوں سے منظور ہوگئی۔ سیاہ فام ارکان کی اکثریت اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما برنی سینڈرز نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ جناب سینڈرز اُس وقت ایوانِِ زیریں کے رکن تھے۔ بل منظور ہوتے ہی صدر بل کلنٹن نے اس پر دستخط کرکے قانون کا درجہ دے دیا۔ اتفاق سے سینیٹر باب ڈول کو اپنے سیاسی مقاصد میں کامیابی نہ ہوسکی اور وہ نومبر 1996ء کے انتخابات میں صدر کلنٹن سے شکست کھاگئے۔
امریکہ میں منظور ہونے والے اس قانون پر عرب دنیا کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ تنظیم آزادیٔ فلسطین نے اعلان کیا کہ اگر امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا گیا تو PLO امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کرلے گی۔ اسرائیل کی سرپرستی ایک طرف، لیکن چچا سام کو مشرق وسطیٰ میں ثالثی کا بھی بڑا شوق ہے، چنانچہ جب سفارت خانہ منتقل کرنے کی تاریخ قریب آئی تو صدر کلنٹن نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے اس قانون پر عمل درآمد کی حتمی تاریخ میں 6 ماہ کی توسیع کردی۔ اسے امریکہ کی قانونی اصطلاح میں Waiverدینا کہتے ہیں۔ اس کے بعد سے یہ روایت بن گئی اور بل کلنٹن کے بعد جارج بش اور صدر اوباما Waiverکی مدت ختم ہونے پر عملدرآمد میں چھے ماہ کی توسیع کرتے رہے۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کردیں گے۔ اپنی تقریروں میں انھوں نے صدر کلنٹن، صدر بش اور صدراوباما کو بزدل قراردیا جو ’مسلم دہشت گردوں‘ کے خوف سے امریکی قانون پر عملدرآمد کو قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر مسلسل ٹال رہے ہیں۔ مزے کی بات کہ صدر ٹرمپ خود بھی اس سال جون میں Waiverجاری کرچکے ہیں جس کی مدت اس مہینے ختم ہورہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو زور دے رہے ہیں کہ امریکی سفارت خانہ جلداز جلد یروشلم منتقل کردیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس اصرار کی وجہ بہت ذاتی نوعیت کی ہے۔ جناب یاہو اور اُن کی اہلیہ کو بے ایمانی اور خوردبرد کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ خود کو قانون کے پنجوں سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ ملکی قوانین میں تبدیلی کررہے ہیں، لیکن یہ ساری کوششیں بظاہر بے سود لگ رہی ہیں کہ عوامی ردعمل شدید ہے اور ملک بھر میں ان کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس مرحلے پر امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا فیصلہ ان کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جائے گا اور وہ مقبولیت کے گھونگھٹ میں کچھ عرصے کے لیے چھپ سکیں گے۔ اس عرصے میں شاید موذیوں کامنہ بھی بند ہوجائے۔ دامادِ اوّل جیررڈ کشنر اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مسٹر فریڈمین کا خیال ہے کہ بڑے اور بارسوخ عرب ممالک یعنی سعودی عرب، مصر، کویت اور متحدہ عرب امارات عملاً امریکہ کے حاشیہ بردار بن چکے ہیں، پی ایل او کا سیاسی اثر بہت کم ہوگیا ہے۔ سخت ناکہ بندی اور بجلی و پانی کی بندش سے حماس بھی شدید دبائو میں ہے۔ اس بنا پر عرب دنیا سے شدید ردعمل کا کوئی خطرہ نہیں۔ امریکی سفیر کی رائے ہے کہ سفارت خانہ منتقل کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ دوسری طرف وزیر دفاع جیمز میٹس، وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور قومی سلامتی کے لیے صدر کے مشیر جنرل ڈاکٹر مک ماسٹر اسلامی دنیا کی جانب سے ردعمل کا خطرہ ظاہر کررہے ہیں۔ صدر کے ان مشیروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ساری دنیا کے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوگا اور اگر کوئی بڑی تحریک نہ بھی اٹھی تو مسلمانانِِ عالم کی دل شکنی سے عوامی سطح پر امریکہ کے مفادات متاثر ہوں گے، جبکہ امریکہ مخالف شدت پسندوں کو ہمارے خلاف ایک مضبوط و مقبول دلیل ہاتھ آجائے گی۔
گزشتہ ہفتے تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ گویا 4 دسمبر کو قوم سے خصوصی خطاب میں صدر ٹرمپ سفارت خانے کی منتقلی کا اعلان کردیں گے، لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔ بہت ممکن ہے کہ جب یہ تحریر آپ تک پہنچے امریکی صدر یہ فیصلہ کرچکے ہوں۔ پی ایل او نے اپنے ایک بیان میں صدر ٹرمپ کو متنبہ کیا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی صورت میں امریکہ ثالث کا کردار ادا نہیں کرسکے گا، اور پی ایل او واشنگٹن سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھے گی۔ صدر ٹرمپ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ چند دنوں بعد اگلے چھے ماہ کے لیےWaiverجاری کردیں گے اور اس عرصے میں بی بی (اسرائیلی وزیراعظم) سے تفصیلی مشورے کے بعد لائحہ عمل کا اعلان ہوگا۔ ایک درمیانی راستہ یہ بھی تجویز کیا جارہا ہے کہ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر اپنا دفتر یروشلم کے قونصل خانے میں منتقل کردیں۔ ان کے بزنس کارڈ پر رابطے کے لیے قونصل خانے کا پتا اور فون نمبر درج ہوگا۔ سفارتی فیکس اور ٹیلکس (Telex) بھی قونصل خانے سے جاری اور وصول ہوں گے، لیکن عمارت پر سفارت خانے کی تختی نہیں لگائی جائے گی۔ یہودیوں کے یہاں اپنے مذہبی معاملات پر اس قسم کی رخصتوں کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں اور شاید سفارت خانے کے معاملے پر یہ گنجائش بی بی کے لیے بھی قابلِ قبول ہو۔