مفاہمت کی سیاست اور احتساب

پاکستان میں بہت سے طبقات مفاہمت کی سیاست کی بات کرتے ہیں لیکن اصل مقصد مفاہمت کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کی مجموعی سیاست میں مفاہمت بھی ایک گالی بن گئی ہے اکثر لوگوںنے مفاہمت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، سب کے سامنے قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی مفادات اہم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفاہمت کی بھی سیاست کوئی مثبت نتیجہ نہیں دے سکی ۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مجموعی طور پر معاشرے کے نظم و نسق، طرزِ حکمرانی اور اداروں کے درمیان بداعتمادی کی فضا موجود ہے۔ اس تناظر میں فوجی ترجمان کے اس بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شخصیات سے ادارے اور اداروں سے زیادہ اہم ریاست ہوتی ہے۔ یعنی کوئی فرد ادارے سے بڑا نہیں، اور کوئی ادارہ ریاست سے بالاتر نہیں۔ یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہورہا ہے جب اس بیانیہ کو تقویت دی جارہی ہے کہ پاکستان میں اس وقت سیاسی اورعدالتی محاذ پر جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیچھے سازش کارفرما ہے۔ نوازشریف کے بقول اس سازشی کھیل میں اصل فریق اسٹیبلشمنٹ ہے جو اپنے مخصوص سیاسی مفادات کو بنیاد بناکر کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔
اس سارے سیاسی بحران میں بہت سے سنجیدہ اہلِ دانش یہ بنیادی نقطہ اٹھاتے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت کسی بڑی سیاسی و قانونی محاذ آرائی یا اداروں میں ٹکرائو کے بجائے مفاہمت کی پالیسی کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر سیاسی انتشار اور غیر یقینی یا محاذ آرائی کی کیفیت سے باہر نکلنے کا واحد راستہ مفاہمت پر مبنی سیاست ہی ہوتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ مفاہمت کی سیاست کو کیسے آگے بڑھایا جائے اور اس کا ایجنڈا کیا ہوگا؟کیونکہ مفاہمت کی سیاست کو بنیاد بنانے کے لیے ہر فریق کو دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر سبھی فریق اپنے اپنے دائرۂ کار سے باہر نکل کر اپنی مفاداتی سیاست کو تقویت دیں گے تو مفاہمت کی سیاست عملی طور پر دم توڑ جائے گی۔ اس کے نتیجے میںپیدا ہونے والا انتشار زیادہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
بعض اہلِ دانش جہاں مفاہمت کی سیاست پر زور دیتے ہیں وہیں ان کا نقطہ یہ ہے کہ ہمیں پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ یعنی جو کچھ ہوگیا ہے اور جس نے بھی کیا ہے اسے بھول کر آگے بڑھا جائے، اس وقت جب ایک طبقہ احتساب کی بات کرتا ہے تو ہمارے بعض اہلِ دانش اس میں جمہوریت کے خلاف سازش کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کے بقول اگر احتساب کا پنڈورا باکس کھولا گیا تو اس سے جمہوری عمل متاثر ہوگا اور جو تعطل پیدا ہوگا اس سے ہم جمہوریت سے محروم ہوجائیں گے۔ اس طبقے کی دلیل مان لی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بڑے اورطاقتور سیاسی لوگوں کے احتساب کا فیصلہ ترک کردینا چاہیے، کیونکہ احتساب اہم نہیں بلکہ جمہوریت زیادہ اہم ہے!
ہمارے بعض اہلِ دانش احتساب کے عمل سے ڈرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ طاقتور کو ماضی کی غلطیوں پر معاف کرکے آگے بڑھا جائے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو پھر معافی یا عدم احتساب کا یہ دائرہ محض چند بڑے سیاسی یا دیگر طبقات تک کیوں محدود ہو؟ یہی فیصلہ کرنا ہے تو پھر اس ملک میں جتنے بھی لوگوں نے جرائم کیے ہیں، جو جیلوں میں ہیں یا ان پر مقدمات چل رہے ہیں ان سب کو معافی کے دائرے میں لایا جائے۔ یہ مفاہمت محض اپنی پسند کے لوگوں تک کیوں محدود ہو؟ اورکیوں باقی لوگوں کو معافی سے کیوں محروم رکھا جائے؟ یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ جمہوریت اور شفافیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پاکستان میں یہ عمل اس لیے ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار اور اقربا پروری جیسے معاملات نے پورے ریاستی نظام کو کھوکھلا کرڈالا ہے۔
اس بحرانی کیفیت میں احتساب کا عمل ناگزیر ہوگیا ہے۔ وگرنہ ہر طرح کا نظام، سیاست، جمہوریت، قانون کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ کوئی بھی محض سیاست دانوں کے احتساب کی بات نہیں کرتا بلکہ اس میں جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹس، سرمایہ داروں، کاروباری طبقے، میڈیا سب کو یقینی طور پر احتساب کے دائرے میں لانا ہوگا۔احتساب کے ذریعے ہی ملک میں مفاہمت کی سیاست بھی آگے بڑھ سکتی ہے اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کے نظام کو بھی طاقت فراہم کی جاسکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاق جمہوریت کے معاہدے میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد شفاف اور بلاتفریق احتساب کا نہ صرف نظام تشکیل دیں گے، بلکہ عملدرآمد ایسا ہوگا کہ سب کو نظر بھی آئے گا۔
لیکن سب نے دیکھا کہ احتساب کا عمل سیاسی سمجھوتوں، لین دین اور ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالنے تک محدود رہ گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم میں یہ احساس ابھرا کہ ہماری سیاسی قیادتیں احتساب سے بھاگ رہی ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون سے لوٹ مار کی سیاست کرنا چاہتی ہیں۔ اہلِ دانش کے دو طبقات یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں احتساب یا جوابدہی کے نظام کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے، پہلا طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو خود اس نظام سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ خود بھی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جو ممکن ہے دیانت داری سے یہ سمجھتا ہو کہ مفاہمت یا درگزر کرکے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک طبقے کے ذاتی مفادات اور دوسرے طبقے کی معصومیت موجود ہے، کیونکہ یہ دونوں صورتیں ہمیں ایک شفاف حکمرانی کی طرف نہیں لے جاسکتیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم مفادات کی سیاست سے باہر نکل کر کچھ سوچیں اور دیکھیں کہ اس وقت ملک کی حقیقی ضرورت کیا ہے اور ہم سے یہ معاشرہ کیا تقاضا کرتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ دونوں طبقے جان بوجھ کر یا معصومیت میں اسی بدعنوان طبقے کو تحفظ دینا چاہتے ہیں جو سیاست کو کاروبار یا لوٹ مار کا کھیل سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا جمہوری طبقہ جمہوریت کو ڈھال بناکر یہ بیانیہ پیش کرتا ہے کہ بس جمہوری نظام کو تمام تر خرابیوں کے باوجود چلنے دیں، یہ خودبخود درست ہوجائے گا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا جمہوریت قانون کی حکمرانی اور اداروں کی خودمختاری یا بالادستی کے بغیر چل سکتی ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں حکمران طبقہ قانون اور اداروں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلاکر اپنے مفاد کو تقویت دینا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر سطح پر مفاہمت اور احتساب دونوں کے نظام کو یکجا کرنا ہوگا۔
احتساب کا عمل بنیادی طور پر ریاستی، حکومتی، ادارہ جاتی اور معاشرتی سمت کو متعین کرتا ہے۔کیونکہ اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو وہ ہر غلط اقدام پر قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ سیاسی سطح پر تمام سیاسی قیادتیں مل کر کوئی متفقہ فیصلہ کرتیںکہ مفاہمت کی سیاست کا ایجنڈا کیا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود کو بھی احتساب کے لیے پیش کریں۔ یاد رکھیں جب سیاسی قیادتوں یا حکومتوں کے طرزعمل سے بحران پیدا ہوتا ہے تو اس پر پردہ ڈال کر س کے تلخ اثرات سے بچا نہیں جا سکتا۔ اس لیے احتساب کی کڑوی گولی نگلنی ہی ہو گی ورنہ بہت خراب نتائج برآمد ہوں گے۔ہم جمہوریت کا واویلا تو بہت کرتے ہیں مگر اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ کیوں جمہوری فریم ورک میں اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ اہم ہوتا ہے لیکن اگر وہی مینڈیٹ اداروں کو کمزور کرنے اور خود کو حکمرانی میں مادرپدر آزادی کی طرف لے جائے تو پھر سیاسی نظام اپنی شفافیت برقرار نہیں رکھ پاتا۔اگر سیاست داں یہ سمجھتے ہیں کہ اس نظام میں فیصلے ہمارے حق میں ہوں تو سب ادارے اچھے ہیں، لیکن اگر فیصلے ہمارے خلاف ہوں تو ان کے پیچھے انصاف نہیں سازش ہوتی ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں مفاہمت کی سیاست کمزور ہوتی ہے اور عدم احتساب کا عمل اُن لوگوں کو مزید طاقتور بناتا ہے جو سیاست کو اپنے ذاتی مفاد کے تابع کرتے ہیں۔ ان کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت ہونی چاہیے،کیونکہ اس مزاحمت کے بغیر نہ تو ہمملک اور معاشرے کو مہذب بناسکتے ہیں اور نہ ہی یہ ایسی جمہوری ریاست بن سکتی ہے جوعوام کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگوں کو ساتھ ملا کر ایسی سیاست پیدا کریں جو پاکستان کو ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان بنانے میں مدد دے، وگرنہ دوسری صورت میں ہم جس راستے پر جارہے ہیں اس کا انجام برا نظر آرہا ہے اور مستقبل میں بھی ہم بہتر پاکستان کی طرف گامزن نہیں ہوسکیں گے۔