لاہور: ’’بیجنگ انڈر پاس‘‘ کا افتتاح

ملک کے سب سے بڑے ’’بیجنگ انڈر پاس‘‘ کا افتتاح اتوار کو لاہور میں کردیا گیا۔ برادرِ بزرگ وزیراعظم ہوتے تو شاید اس عظیم منصوبے کی نقاب کشائی کی سعادت اُن کے حصے میں آتی، مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت سے جناب نوازشریف کے عوامی نمائندگی اور اس کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے نااہل قرار پانے کے باعث اب یہ فریضہ خادم اعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کو اپنے دستِ مبارک سے ادا کرنا پڑا، جن کی آمد سے تین گھنٹے قبل ہی مصطفی آباد سے مغل پورہ کے علاقے میں عوام کی آمد و رفت پر پابندی عائد کردی گئی جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اور یہاں کی ٹریفک منتقل ہونے سے متبادل راستوں پر بھی ہجوم میں زبردست اضافہ ہوگیا اور وہ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے حکمرانوں کو جو مغلظات سناتے رہے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔
’بیجنگ انڈر پاس‘ کا نام پہلے چوبچہ انڈر پاس تجویز کیا گیا تھا، کیونکہ یہ جس علاقے میں تعمیر ہوا ہے اسے چوبچہ کہا جاتا ہے، تاہم بعد ازاں پاک چین دوستی کو خراج پیش کرنے اور چین کی سرمایہ کاری کے اعتراف کی خاطر اس کا نام ’’بیجنگ انڈر پاس‘‘ رکھ دیا گیا… اور افتتاحی تقریب میں چین کے قونصل جنرل ’لانگ ڈنگ بن‘ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ 1.3 کلومیٹر طویل اور 5.1 میٹر بلند اس انڈر پاس کی تعمیر 125 دن میں تکمیل کو پہنچی ہے۔ انڈرپاس کے افتتاح اور معائنے کے بعد خادم اعلیٰ پنجاب نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ انڈرپاس کے منصوبے پر تقریباً ساڑھے تین ارب روپے لاگت آئی ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا انڈر پاس ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا ہے۔ میں اس منصوبے کی شاندار اور بروقت تکمیل پر اہالیانِ لاہور کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔ 1.3 کلومیٹر طویل یہ انڈرپاس فنِ تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے جس سے ٹریفک کے بہائو میں بے پناہ بہتری آئے گی۔ اس انڈرپاس پر ریلوے کی گزرگاہیں بھی بنائی گئی ہیں جس سے ریل گاڑیوں کی آمدورفت میں بھی سہولت ہوگی۔ اس سے ملحقہ سڑک رنگ روڈ سے ملتی ہے اور اس سے شہریوں کو بہت ریلیف ملے گا اور ان کا قیمتی وقت بچے گا۔ بیجنگ انڈرپاس کے اس شاندار منصوبے سے شہر لاہور کے عوام کو بہترین سہولت ملے گی۔ ان کا قیمتی وقت بچے گا اور شہری بروقت اپنی منزل پر پہنچیں گے۔ اس انڈرپاس سے روزانہ لاکھوں گاڑیاں گزریں گی اور ٹریفک مینجمنٹ میں نمایاں بہتری آئے گی۔ لاہور کی بڑھتی ہوئی ٹریفک پر قابو پانے کے لیے یہ بہترین منصوبہ ہے اور میں منصوبے کی تکمیل پر ایک بار پھر شہریوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ شفافیت، معیار اور فنِ تعمیر کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ جدید اور معیاری انفرااسٹرکچر معاشی ترقی کو تیز کرنے کا باعث بنتا ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں اربوں روپے کی لاگت سے انفرااسٹرکچر بہتر بنایا ہے۔ صوبے میں سڑکوں، انڈر پاسز، فلائی اوورزکا جال بچھا دیا ہے۔ انفرااسٹرکچرکے تمام منصوبے شفافیت اور معیار کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اس انڈرپاس کا نام بیجنگ انڈر پاس رکھا گیا ہے اور یہ منصوبہ پاکستان اور چین کی دوستی کی شاندار یادگار ہے اور آج ہمارے درمیان چین کے قونصل جنرل لانگ ڈنگ بن بھی موجود ہیں۔ بیجنگ انڈرپاس درحقیقت پاکستان اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کا ایک پل ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی لازوال ہے اور ہم چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کا عظیم تحفہ دینے پر چین کی قیادت، حکومت اور عوام کے تہِ دل سے شکر گزار ہیں، اور یہ تحفہ چین کی قیادت کا پاکستان کے عوام کے لیے محبت کا اظہار ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔
خادم اعلیٰ پنجاب کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوںسے گفتگو میں کیے گئے دعوے یقینا درست ہوں گے اور اس میں بھی شک نہیں کہ اس راستے کی تعمیر سے عوام کو آمدورفت میں خاصی سہولت میسر آئے گی اور یہاں سے گزرنے والی ریلوے کی لاہور کراچی مین لائن اور لاہور واہگہ لائن پر قیامِ پاکستان سے پہلے کے بنے ہوئے پھاٹکوں کے باعث ماضی میں یہاں شدید رش اور گھنٹوں ٹریفک پھنسے رہنے کی وجہ سے لوگوں کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اب بڑی حد تک ان سے نجات مل جائے گی۔ تاہم اس کے باوجود اگر ہم خادم اعلیٰ سے یہ عرض کریں تو بے جانہ ہوگا کہ ؎
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
حقائق، جن کا ذکر کرنا خادم اعلیٰ نے شاید مناسب نہیں سمجھا، یا شاید انہیں ان کا ادراک ہی نہ ہو، یا شاید جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کیا گیا ہو کہ ان کے تذکرے سے ان کی عالمگیر شہرت یافتہ ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ اور منصوبوں میں ’’شفافیت‘‘ کے دعووں پر حرف آتا تھا۔ بہرحال حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ منصوبہ ناقص منصوبہ بندی اور مختلف محکموں کی بیوروکریسی کے باہم عدم رابطہ کی وجہ سے نہ صرف تاخیر کا شکار ہوا بلکہ اس کے اخراجات میں بھی ایک ارب روپے سے زائدکا اضافہ ہوگیا۔ لاہور کے بیچوں بیچ گزرتی نہر نہ صرف صوبائی دارالحکومت کی خوبصورتی کی مظہر ہے بلکہ اس کے دونوں کناروں پر گھنے درختوں کے سائے میں تعمیر شدہ سڑک، شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آمدورفت اور رابطے کا بھی بہت مفید، مؤثر اور آسان ذریعہ ہے، اس لیے ہر دور میں اس کو خوبصورت، کشادہ اور رکاوٹوں سے پاک کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اب دو ریلوے پھاٹکوں کے نیچے سے بنائے گئے اس زمین دوز نئے راستے سے یہ بڑی حد تک رکاوٹوں سے پاک اور سگنل فری ہوگئی ہے جس سے عوام کو شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جانے میں خاصی سہولت میسر آنے کی توقع کی جا سکتی ہے، تاہم خادم اعلیٰ نے اس منصوبے پر لاگت ساڑھے تین ارب روپے بتائی ہے مگر عملاً اس پر 5 ارب 89 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں جو ابتدائی تخمینہ لاگت سے تقریباً ایک ارب روپے زائد ہیں، جس کا بڑا سبب متعلقہ افسران کی ناقص منصوبہ بندی، عدم دلچسپی، باہم عدم تعاون اور مختلف محکموں میں ضروری رابطوں کا فقدان ہے۔ منصوبے کے مختلف مراحل کے تحت پہلے مرحلے میں نہر کو موٹر وے سے ملانے والے ٹھوکر کے مقام سے ڈاکٹرز ہسپتال تک تین کلومیٹر طویل راستے کی نہر کے دونوں جانب توسیع کی گئی جس پر 68 کروڑ روپے خرچ ہوئے، جب کہ شاہراہ قائداعظم سے ہربنس پورہ تک رنگ روڈ سے رابطہ کے لیے سات کلومیٹر طویل سڑکوں کی توسیع پر ایک ارب 40 کروڑ روپے کی لاگت آئی۔ اس طرح اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے دونوں جانب قدیم اور گھنے درخت کاٹنا پڑے، جس پر عدالتِ عالیہ لاہور نے ماحول پر منفی اثرات کو روکنے اور متبادل درخت لگانے کا حکم دیا۔ یہ کام پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی نے مکمل کیا اور اس پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ تاہم اصل خرابی ریلوے ٹریک کے لیے پل کی تعمیر کے دوران سامنے آئی جس کے لیے ریلوے حکام اور ایل ڈی اے کے انجینئروں نے ابتدائی منصوبہ بندی میں 18 ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت کے حامل ٹریک کی گنجائش پر کام کا آغاز کیا، البتہ بعد میں خیال آیا کہ یہ ٹریک تو چین پاکستان اقتصادی تعاون کے منصوبے سی پیک کے لیے بھی استعمال ہوگا، چنانچہ منصوبے میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلی کی گئی اور اٹھارہ ٹن وزن کی گنجائش والے ٹریک کے بجائے 28 ٹن وزن برداشت کرنے والا ٹریک بچھانے کے لیے پل تعمیر کیا گیا۔ یوں ابتدائی تخمینے میں جو اخراجات 4 ارب 90 کروڑ بتائے گئے تھے اس تبدیلی اور اس کی وجہ سے تاخیر کے باعث 5 ارب 89 کروڑ روپے تک جا پہنچے۔ یوں ایک ارب روپے یعنی پورے بیس فیصد اضافی اخراجات کا بوجھ قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خرابی کے ذمہ دار اور نااہلی کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی کی جاتی، جن کی کوتاہی اور فرض ناشناسی کے سبب یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا اور قومی خزانے پر ایک ارب روپے کا بوجھ پڑا، مگر کسی نے ان نااہل افسران کی بازپرس تک نہ کی اور نہایت آسانی سے زائد رقم کی منظوری دے دی گئی کیونکہ یہ ایک سرکاری منصوبہ تھا اور اضافی اخراجات عوام کی جیبوں سے جبراً وصول کرلیے جانا ہیں۔ کاش یہ منصوبہ شریف خاندان کا ذاتی منصوبہ ہوتا تو رویہ کس قدر مختلف ہوتا۔ رویوں اور طرزِعمل کا یہ فرق ہی ہے جس کے باعث حکمرانوں کے ذاتی منصوبے تو دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں اور خطیر منافع کماتے ہیں مگر سرکاری ادارے خواہ وہ ریلوے ہو، پی آئی اے یا اسٹیل ملز وغیرہ وغیرہ… خسارہ اور ناکامی ان کا مقدر ہے۔ کاش ہمارے اربابِ اختیار سرکاری وسائل کو ذاتی وسائل ہی کی طرح احتیاط اور توجہ سے استعمال کرنے لگیں تو ملک کے تمام دلدر دور ہو جائیں۔