آنکھ جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو روشنی کا ادراک کرتا ہے اور بصارت کا عمل انجام دیتا ہے یہ قدرت کی بڑی نعمت ہے۔کہا جاتا ہے کہ آنکھوں کی بیماریوں میں سب سے خطرناک بیماری کالا موتیا ہے، دنیا بھر میں اندھے پن کی بڑی وجہ بھی کالا موتیا ہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 70 لاکھ افراد اس مرض کی وجہ سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں جبکہ پاکستان میں اس بیماری کے باعث نابینا افراد کی تعداد 10لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ایک اندازے کے مطابق 2020ء تک موتیا کے مریضوں کی تعداد آٹھ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کالا موتیا کیا ہے اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور یہ کتنا خطرناک ہے اس جیسے سوالات کے ساتھ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ نے پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرّحمن سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر حفیظ الرّحمن کا شمار آنکھوں کے بڑے ڈاکٹروں میں ہوتا ہے ۔پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور فیما کے سابق جنرل سیکریٹری رہے ہیں ،متحرک شخصیت ہیںپاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور فیما سیو ویژن( Save Vision )پرجیکٹ کے بانی ڈائریکٹر رہے ہیں۔آپ کی خدمات کا دائرہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی پھیلا ہوا ہے افریقہ اور ایشیاء کے 16 سے زائد ممالک میں پاکستان اور بیرون ممالک کے ڈاکٹروں کے تعاون سے آنکھوں کی سنگین بیماریوں میں مبتلا دس لاکھ سے زائد مریضوں کا معائنہ اور ان کی بیماری کی تشخیص کے ساتھ سوا لاکھ سے زائد لوگوں کی سرجری بھی کرچکے ہیں۔آپ الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے صدر بھی رہے ہیں آج کل پشاور میڈیکل کالج کے شعبہ آئی کے سربراہ کے علاوہ وائس ڈین بھی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ ڈاکٹر صاحب کہا جاتا ہے کہ آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں اور آئینہ ہی خراب ہوجائے تو باقی احوال دل کیسے معلوم ہوگا؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرّحمن:۔ میںآپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ آنکھیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ یوں تو جسم کا ایک ایک عضو اپنی تمامتر خوبیوں کے ساتھ اپنی اہمیت رکھتا ہے مگر آنکھیں اپنے کام اور حساسیت کی وجہ سے سب اعضاء میں یقینی طور پر نمایاں ہیں۔ انسان کی اندرونی دنیا کا بیرونی دنیا سے رابطہ ان آنکھوں کے ذریعے ہے۔ ایک اہم بات آپ کو بتاتا چلوں کہ آنکھوں کے راستے انسان کے اندر جھانکا جاسکتا ہے۔ یہ دو کھڑکیاں ہیں جن میں سے جھانک کر ڈاکٹرز انسان کی بہت سی بیماریوں کے بارے میںمعلومات حاصل کرسکتے ہیں۔بہت سے امراض جن میں شوگر، بلڈ پریشر ،دل، شریانوں اور خون کی بیماریاں شامل ہیں،ان کی آنکھوں کے ذریعے بھی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ صرف آنکھوں میں آپ شریانوں، وریدوں اور اعصاب کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ہمارے قارئین کو آنکھوں کی اہمیت کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیے۔؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرّحمن:۔آنکھیں ایک ایسی نعمت ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’کیا ہم نے تمہیں دو آنکھیں نہیں دیں؟‘‘۔ یاد رکھیں دنیا کی کوئی بھی نعمت اس وقت تک نعمت نہیں جب تک ہدایت شامل حال نہ ہو۔ ہم اگر آنکھوں جیسی نعمت کا شکر ادا کریں اور خالق کی دی گئی ہدایات پر عمل پیرا ہوں تو یقینا یہ بہت ہی بڑی نعمت ہیںجو ہمیں دنیا اور آخرت کے راستے دکھاتی ہیں وگرنہ یہی آنکھیں خراب ہوں یا خالق کی ہدایات کے تابع نہ ہوں تو انسان دنیا میں بھی اندھیروں میں بھٹک سکتا ہے اور آخرت کی راہ بھی کھوٹی کرسکتا ہے
اس آنکھ کی ساخت پر غور کرکے انسان اپنے خالق کو پہچاننے کی سعادت بھی حاصل کرسکتا ہے ۔ یوں تو آنکھ کی ساخت کی باریکیاں ، نزاکتیں اور خوبصورتیاں بہت زیادہ ہیں مگر دیگ کے ایک چاول کے مصداق صرف ایک پہلو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جب ہم آنکھیں کھولتے ہیں تو سامنے آنے والی تمام اشیاء سے روشنی کی شعائیں منعکس ہوکر پوری آنکھ میں سے گزر کر آنکھ کی پچھلی دیوار میں موجود ایک انتہائی حساس پردے پر مرکوز ہوتی ہیں جسے پردہ شبکی (Retina) کہا جاتا ہے۔یہ پردہ موٹائی میں ایک ملی لیٹر کا بھی محض دسواں حصہ ہے۔ اس پردے کی دس پرتیں ہیں جو آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ان پرتوں میں اربوں کی تعداد میں خلئے موجود ہیں۔ ہر آنکھ کے پردہ شبکی میں گیارہ کروڑ کے لگ بھگ receptorsموجود ہیں جو ان شعاعوں کو موصول کرتے ہیںاور فوری طور پر معلومات کا تبادلہ پردے میں موجود خلیوں کی طرف ہوجاتا ہے اور محض ایک سیکنڈ میں دو ارب کے لگ بھگcalculations یہیں تکمیل پاتی ہیں اور پھر یہ معلومات بغیر کسی تاخیر کے 12لاکھ برقی تاروںfibre optic cables جنہیں optic nerve fibresکہا جاتا ہے کے ذریعے دماغ کے کم و بیش بارہ مقامات تک منتقل کی جاتی ہیں۔ ان مقامات centresمیں زندگی بھرمیں اکٹھی کی جانے والی معلومات ذخیرہ ہوتی ہیں اور اس طرح موجود ہ معلومات کے تبادلے اور شعاعوں کے ذریعے آنے والی معلومات کے اختلاط کی بدولت انسان اپنے سامنے آنے والی چیز کو بہت اچھی طرح دیکھ اور پہچان سکتا ہے۔پردہ شبکی کو انسان کے جسم کا سب سے زیادہ فعال حصہ گردانا جاتا ہے۔ اسی لئے اسے خون کی فراہمی بھی دو مختلف ذرائع سے کی جاتی ہے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شریانوں اور وریدوں کا ایک پورا جال اس کے اطراف میں بچھایا گیا ہے۔فبای الاء ربکما تکذبن (تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟) اور افلا یتدبرون (اور تم غور کیوں نہیں کرتے؟) کو سامنے رکھیں تو محض پردہ شبکی کی ساخت اور کارکردگی ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کو پہچاننے اور اس کے سامنے پوری طرح جھکادینے کے لئے کافی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔آنکھ کے اندرونی دباؤ سے کیا مراد ہے؟ اور آنکھ کا دباؤ عام طور پر کتنا ہونا چاہئے؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرّحمن:۔آنکھ کے اندر اگلے حصے میں ایک شفاف محلول تسلسل سے بنتا ہے جس کے اجزاء آنکھ کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ محلول تسلسل کے ساتھ آنکھ سے خارج بھی ہوتا رہتا ہے۔ مگر ہر وقت ایک خاص مقدار (تقریباً ایک چوتھائی ملی لیٹر)آنکھ کے اگلے حصے میں موجود رہتی ہے جو آنکھ کو پچکنے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اس محلول کی وجہ سے اندرونی طور پر جو دباؤ بنتا ہے اسے آنکھ کا اندرونی دباؤ (intraocular pressure)کہتے ہیں اور 11 سے21(mm of Hg) تک ہوتا ہے۔ اس دباؤ کی حد سے زیادہ کمی اور زیادتی دونوں ہی آنکھ کے لئے نقصان دہ ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:کالا موتیا کون سی بیماری کو کہتے ہیں؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرّحمن:۔کالا موتیا میں آنکھ کے دباؤ کی مسلسل زیادتی اور بعض دیگر معلوم و غیر معلوم وجوہات کی وجہ سے آنکھ کے اعصاب آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتے ہیں۔ (یاد رہے ہر آنکھ سے کم و بیش 12لاکھ برقی تاریں(optic Nerve fibres) ایک کیبل (optic nerve)کی صورت دماغ سے منسلک ہیںاور بیرونی دنیا کی تصاویر تمام تر باریکیوں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ پہنچانے کا باعث بنتی ہیں۔) اس بیماری کو کالا موتیا اور انگریزی میںGlaucoma کہتے ہیں۔ آنکھ کا دباؤ بڑھنے کی وجوہات بہت زیاد ہ ہیں۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ بعض اوقات آنکھ کا دباؤ بڑھے بغیر بھی برقی تاریں متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور اسےNormotensive
Glaucoma کہتے ہیں۔برقی تاروں کے یکے بعد دیگرے ختم ہوجانے سے پہلے مرحلے میں انسان کی نظر کا دائرہ (visual field)متاثر ہوتا ہے اور آگے چل کر آہستہ آہستہ نظر کی مقدار بھی گھٹنا شروع ہوجاتی ہے اور بالآخر بینائی سے مکمل محرومی کا باعث بنتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ اس بیماری کی علامات کیا ہیں ؟ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم آنکھوں کے ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرّحمن:۔کالے موتیے کی کچھ اقسام میں درد بھی ایک علامت ہے مگر اکثر اقسام میں بغیر کسی درد کے نظر کا آہستہ آہستہ گھٹنا ہی واحد علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالے موتیے کے تقریباً پچاس فیصد مریض اپنی بیماری سے لاعلم ہوتے ہیں۔ حالانکہ مجموعی طور پر دنیا میں ایک اندازے کے مطابق چالیس سال سے زائد عمر کے دو فیصد اور اسی سال سے زائد عمر کے دس فیصد افراد کالے موتیے کے شکار ہوتے ہیں۔ دنیا میں نابینا پن کی وجوہات میں سفید موتیے کے بعد کالا موتیا دوسری بڑی وجہ ہے اور کل وجوہات کا یہ تقریباً 12.3فیصد ہے۔عمومی طور پر کالے موتیے کو جسمانی بیماریوں میں سے بلند فشار ِخون (high blood pressure)سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جسے خاموش قاتل (silent killer) کہاجاتا ہے۔ لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا اور وہ اس کی تباہ کاریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کالے موتیے کے مریضوںکو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا اور وہ آہستہ آہستہ اندھے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔کالے موتیے کی ایک خاص بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو برقی تاریں آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے ختم ہورہی ہیںان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے یعنی یہ ناقابل تلافی نقصان irrepairable lossہے۔مزید نقصان سے بچنے کے لئے بھی سردست ہمارے پاس قابل ذکر ایک ہی لائحہ عمل ہے یعنی اندرونی دباؤ کو نچلی قابل قبول سطح پر لایا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ اس کا علاج کیسے ہو؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرّحمن:۔علاج سے پہلے مناسب ہوگا کہ تشخیص کے حوالے سے چند باتیں آپ کے علم میں لے آؤں۔
اس بیماری کو چالیس سال کی عمر کے بعد خصوصی طور پر تلاش کرنا چاہئے مگر یاد رہے کہ بعض بچوں میں پیدائشی طور پر بھی یہ بیماری موجود ہوسکتی ہے۔ پیدائشی کالے موتیے کی علامات میں آنکھ اور قرنیے کا بڑا ہونا ، زیادہ سیاہی یا نیلاہٹ اور مسلسل آنسو بہتے رہنا شامل ہیں۔کالے موتیے کا موروثیت سے بھی گہرا تعلق ہے ا س لئے اگر خونی رشتہ داروں میں سے کوئی کالے موتیے کا مریض ہو تو خاندان کے بقیہ لوگوں کو زیادہ توجہ دینی چاہئے۔تشخیص میں پہلا درجہ اب بھی اندرونی دباؤ کی پیمائش ہے۔ اس کے علاوہ آئی اسپیشلسٹ آنکھ کے اندرونی معائنےFundoscopy سے بھی کافی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ نظر کا معائنہ اور نظر کے دائرے visual fieldsکے امتحان بھی تشخیص میں مدد دیتے ہیں۔آج کل آئی سپیشلسٹ تشخیص اور بعد میں علاج کے اثرات پر نگاہ رکھنے کے لئے ایک ٹیسٹ OCT بھی کرواتے ہیں جو مہنگا تو ہے لیکن تکلیف دہ بالکل نہیں۔کالے موتیے کے علاج میں اندرونی دباؤ کو کلیدی مقام حاصل ہے۔ بڑھے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لئے مختلف ادویات استعمال ہوتی ہیں جو صرف مستند ماہر امراض چشم کی ہدایات کے مطابق استعمال کی جانی چاہئیں۔ یاد رہے یہ ادویات عمر بھرتسلسل کے ساتھ استعمال کرنا ہیں۔ ان کے طریقہ استعمال کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ان دواؤں کا کم یا زیادہ استعمال دونوں ہی مضر صحت ہیں۔ آنکھ میں ڈالنے والی دواؤں کے حوالے سے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ آنکھ میں ایک قطرے سے زیادہ دوا کی گنجائش ہی نہیں ہے اس لئے ایک ہی قطرہ صحیح طریقے سے ڈالنا سیکھ کر اس پر عمل کرنے سے آپ مجموعی طور پر ٹھیک علاج کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ بچت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دوا کی شیشی جو ایک ہزار روپے کی ملتی ہے اور صبح شام ایک قطرہ ڈالنا ہے۔ اگر صرف ایک ایک قطرہ ڈالا گیا تو تقریباً تین ہفتوں کے لئے کافی ہوگی لیکن اگر خواہ مخواہ کی احتیاط بروئے کار لاتے ہوئے تین تین قطرے ڈالے گئے تو دوا کی شیشی تین کے بجائے ایک ہفتے میں ہی ختم ہوجائے گی اور اس طرح اخراجات سے تنگ آکر اکثر مریض علاج کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں جو بالآخر نا بینا پن کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح ماہرینِ امراضِ چشم ادویہ کے چناؤ کے وقت مریضوں کی جیب کا بھی خیال رکھیں تو بہت سے مریض علاج کو درمیان میں ترک کردینے سے بچ جائیں گے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے اس لمبے علاج کو جاری رکھنے کے لئے مریض اور ڈاکٹر کے تعلق کی نوعیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔اگر علاج کے شروع ہی میں یا کسی بعد کے مرحلے میںدوا یا دواؤں کے مجموعے اندرونی دباؤ کو مطلوبہ سطح تک لانے سے قاصر ہوں یا ڈاکٹر آنکھ کی کسی اور وجہ کو سامنے رکھ کر مریض کو سرجری کا مشورہ دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر اور مریض کا باہمی اعتماد ہی مریض کو اپنے حساس ترین عضو یعنی آنکھ کی جراحی پر قائل کرسکتا ہے۔ سرجری کے کئی طریقے ہیں اور اس کے علاوہ لیزر سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ مگر مریض کے لئے یہ بات جاننا انتہائی ضروری ہے کہ اس سرجری یا لیزر کے علاج کے ذریعے چلی جانے والی نظر بحال نہیں ہوگی بلکہ باقی ماندہ نظر کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور عمومی طور پر اس مقصد میں واضح کامیابی حاصل رہتی ہے۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ معالج کے اتقان (Competence) اور احسان (Excellence) کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ معالج اور مریض اللہ پر بھروسہ رکھ کر باہمی تعاون کا رویہ اختیار کریں تو کالے موتیے کے مریضوں کی بڑی تعداد نابینا پن سے بچ سکتی ہے۔