آنحضرت محمد ﷺ اور نوجوان

ڈاکٹر محمد حمید اﷲ
سیرتِ نبویہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ داری کا کام اکثر نوجوانوں ہی کے سپرد کیا جاتا تھا۔ اس کی متعدد نظیریں تاریخ نے صراحت سے مہیا کی ہیں۔ چنانچہ جب کسی قبیلے نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذہین و فطین نوجوان کو اس کا سردار مقرر کیا۔ اصل میں معیار یہ تھا کہ اسلامی اصول و شریعت سے کون زیادہ واقف ہے؟ نماز پڑھانے کے لیے قرآن کی سورتیں کس کو زیادہ یاد ہیں؟ کون اپنے نئے دین سے زیادہ جوش اور دلچسپی کا اظہار کرتا ہے؟ اور یہ صفتیں عموماً نوجوانوں میں پائی جاتی ہیں۔ عموماً نوجوان مدینہ آکر زیادہ تیزی سے قرآنی سورتیں حفظ کرلیتے تھے۔ دیگر امور مثلاً مال و دولت‘ وجاہت و تجربہ زیادہ پیش نظر نہیں رہتا تھا۔ ایک صحابی سَلِمہ الجرمی کا بیان ہے کہ جب میں اپنے قبیلے والوں کے ساتھ مسلمان ہوا تو میری عمر بہت کم تھی لیکن قرآنی سورتیں زیادہ یاد ہونے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے قبیلے کا امام مقرر فرمادیا۔ ایک بہت چھوٹی (ناف سے گھٹنوں تک جانے والی) تہمد کے سوا میرے پاس کپڑے بھی کچھ نہ تھے۔ آخر ایک دن قبیلے کی ایک عورت نے ہمارے مجمع سے مخاطب ہوکر کہا: اجی اس لونڈے کو کچھ کپڑے بناکر دو، ورنہ خواہ مخواہ ہماری نماز خراب ہوتی ہے۔(1) اس پر قبیلے والوں نے چندہ کرکے مجھے ایک جوڑا بنادیا‘ اور مجھے اس سے اُس وقت اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ مدینہ ہجرت کرکے آتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے سامنے ایک چبوترہ بنادیا‘ جس پر سائبان بھی تھا‘ اُسے صفہ کہتے تھے۔ دن کو یہ مدرسہ (بلکہ جامعہ) بن جاتا تھا اور رات کو دارالاقامہ اور بورڈنگ۔ یہاں اعلیٰ تعلیم تو خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیا کرتے تھے‘ لیکن ابتدائی تعلیم اور لکھنا پڑھنا سکھانا، یہ کام نوجوان رضاکاروں کے سپرد تھا۔ ہجرت کے ڈیڑھ ہی سال بعد بدر کی جنگ پیش آئی اور مکہ کے قیدیوں کا فدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مقرر فرمایا کہ ہر شخص مدینے کے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھنا سکھائے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے اسی طرح لکھنا سیکھا، اور ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فارسی‘ حبشی‘ یونانی اور عبرانی زبانیں بھی اپنے شوق سے مدینے آنے والے مسافروں سے چند روز میں سیکھ لیں۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عبرانی سیکھنے کا حکم دیا تو پندرہ دن میں اس میں مہارت پیدا کرلی تاکہ یہودیوں سے خط کتابت میں اسلامی محکمۂ خارجہ کسی غیرمسلم یہودی کا محتاج نہ رہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ کے علاوہ دیگر کاتب بھی اکثر نوعمر تھے۔ حضرت علیؓ‘ حضرت معاویہؓ‘ حضرت ابن مسعودؓ وغیرہ سب نوجوان لوگ تھے۔
اس سے بڑھ کر‘ اہم اور ذمہ داری کے کام بھی کثرت سے نوجوانوں کے سپرد کیے جاتے تھے۔ حضرت اسامہؓ بن زید کو بارہا فوج کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ جنگِ خیبر میں حضرت علیؓ کی عمر مشکل سے پچیس سال کی ہوگی۔ انہیں ایک بہت بڑے معرکے کا افسر بنایا گیا۔ اس کے بعد کے سالوں میں انہیں گورنر اور قاضی جیسے عہدے بھی دیے گئے۔ حضرت عمروؓ بن حزم اور حضرت معاذؓ بن جبل بھی بہت نوعمر صحابہؓ تھے۔ انہیں تین کے اہم صوبے کا علی الترتیب گورنر اور انسپکٹر جنرل تعلیم بنایا گیا۔ حضرت معاذؓ کے متعلق مورخ طبری نے لکھا ہے کہ ان کا یہ کام تھا کہ گائوں گائوں اور ضلع ضلع دورہ کریں اور وہاں تعلیم کی نگرانی اور بندوبست کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی صلاحیتیں دیکھ کر مختلف نوجوانوں کو ایک فنی تخصیص کا موقع دیا۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓ حساب کے بھی ماہر تھے۔ اس لیے انہیں تقسیم ترکہ کے ریاضیاتی فن کا امام قرار دیا۔ کسی کو فنِ تجوید اور قرأت کا ماہر‘ کسی کو عام مسئلے مسائل اور فقہ کا مستند عالم قرار دیا اور حکم دیا کہ جس کسی کو ان فنون کے متعلق کچھ پوچھنا ہو تو ان ماہرین سے پوچھ لے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیرانِ خاص بھی اکثر نوجوان تھے۔ ایک حضرت ابوبکرؓ کو چھوڑ کر‘ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقریباً ہم عمر تھے‘ باقی تمام اکابر صحابہ حضرت عمرؓ ‘ حضرت عثمانؓ ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ‘ حضرت ابن مسعودؓ‘ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ‘ حضرت ابن الجراحؓ سب ہجرت کے وقت نوعمر تھے۔ حضرت ابن عمرؓ ‘حضرت ابن عباسؓ‘ حضرت زید بن ثابتؓ وغیرہ تو محض بچے تھے۔
آنحضرت حسب ِ احکام قرآن ہر امر میں مشورہ فرمایا کرتے تھے‘ جس کا منشاء نوجوانوں کی تربیت تھا۔ وہ واقعات اور گتھیوں سے واقف ہوتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو آخر میں سنتے اور اس طرح آئندہ اہم کاموں کے لیے تیار ہوتے جاتے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی شخص کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے نہ پایا۔‘‘ اور (امام شافعیؒ نے حسن بصریؒ کا قول نقل کیا ہے) یہ بھی کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشورے سے مستغنی تھے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ اپنے بعد آنے والے حاکموں کے لیے ایک سنت چھوڑ جائیں۔
انتظام مملکت اور سیاستِ مدن کے لیے جہاں بہت سے عام ادارے (گورنری‘ عدالت‘ تحصیل مال گزاری وغیرہ) قائم ہوئے وہیں شہروں اور قبیلوں کا اندرونی نظام بھی درست کیا گیا۔ ہر گائوں یا بڑے شہر کے ہر محلے میں ہر دس دس آدمیوں پر ایک عریف مقرر ہوا تھا۔ اور جملہ مقامی عریفوں کا ایک نقیب ہوتا جو براہِ راست عامل (گورنر) کے پاس جواب دہ ہوتا۔ عریف کا کام عموماً نوجوانوں کو دیا جاتا اور وہ بڑی مستعدی اور پھرتی سے اپنے فرائض بجالاتے۔ ہوازن کے قیدیوں کی رہائی کے متعلق ہزاروں ہی آدمیوں سے رائے لینی تھی۔ یہ کام عریفوں نے دیکھتے ہی دیکھتے انجام دے دیا۔ اور نتیجہ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنادیا۔
حوصلہ افزائی کے لیے نوجوانوں کو شاباشی اور انعام و اکرام کی بھی کمی نہ تھی۔ اور نوجوانوں کی تربیت پر توجہ کرنا ہی وہ راز معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم جس نے ابتدائے آفرینش سے کبھی حکومت کا نام نہ سنا تھا‘ وہ پندرہ بیس سال ہی میں جب تین براعظموں کی مالک بن جاتی ہے تو ایسے اچھے مدبر اور سپہ سالار اور منتظم افسر بھی مہیا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے جن پر تاریخِ انسانیت فخر کرسکتی ہے۔ آج تہذیب و تمدن کے دعویداروں اور کمالاتِ انسانی کے مالکوں میں سے کون سی گوری سے گوری قوم ہے جو اس اسلامی نظیر کا جواب پیش کرسکتی ہو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب ایک شہر پر قبضہ ہوا اور حسب معمول شہریوں سے حفاظتی ٹیکس وصول کیا گیا لیکن جلد ہی جنگی ضرورت سے شہر کا تخلیہ کرکے اسلامی فوج کو وہاں سے ہٹ کر آنا پڑا تو جملہ حفاظتی ٹیکس شہریوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا گیا کہ اب ہم تمہاری حفاظت کے قابل نہیں ہیں اور ہمیں یہ رقم رکھنے کا کوئی حق نہیں۔ آج مہذب سے مہذب قوموں میں سے کون اس نظیر کا جواب پیش کرسکتی ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک محصور شہر کے لوگوں نے بعض سابقہ تعلقات کی بنا پر محاضر کنندہ فوج کے ایک غلام سے امن نامہ حاصل کرلیا۔ اور فوج کا سپہ سالار مجبور ہوگیا کہ اس مسلمان کی بات کا پاس کرے جو چاہے کتنا ہی کم حیثیت اور ادنیٰ مرتبے کا غلام ہی کیوں نہ ہو۔
اصل میں اعلیٰ تعلیم اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی اعلیٰ تعمیل۔ اسلام نے کبھی دکھاوے کی خوشنما مگر ناقابلِ عمل تعلیم نہ دی کہ کوئی ایک طمانچہ لگائے تو دوسرا گال بھی ضرور ہی پیش کردو۔ کوئی کوٹ چھین لے تو قمیص بھی ضرور ہی اتار کر دے دو۔ اسلام نے اوسط انسانوں کی قابلیت کا لحاظ کرکے قواعد بنائے اور ان کی انتہائی تعمیل ادنیٰ اور اعلیٰ سب سے کرائی۔ ان احکام کا بادشاہِ وقت بھی اتنا ہی پابند ہے جتنا کوئی غلام۔ ایثار اور فرشتہ سیرت اعمال کی تعریف تو کی، مگر ویسا کرنا ہر کسی پر واجب نہیں کردیا۔ یہ اصول اسلامی تعلیم کے ہر جز میں نظر آئے گا۔
اسپورٹس اور مردانہ کھیل
مردانگی اور چستی پیدا کرنے کے لیے جہاں ذہنی تربیت کی ضرورت پڑتی ہے وہیں جسمانی ریاضت بھی ناگزیر ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ سوال دلچسپ ہے کہ عہد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسپورٹ کی کس حد تک سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔
عالم کی آقائی چاہنے والوں کے لیے نشانہ اندازی اور شہ سواری کی جتنی ضرورت ہے وہ ظاہر ہے۔ اس لیے ہمیں کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے جب ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ ہر کھیل کود برا ہے سوائے شہ سواری‘ نشان اندازی اور اہل و عیال کو خوش کرنے والی باتوں کے۔ یہ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں کہ جب تک موٹر، ریل اور ہوائی جہاز نہ تھے تو شہ سواری سے مراد صرف گھوڑے کی سواری ہوتی تھی۔ اور اسی طرح جب تک توپ اور بندوق اور سرنگیں اور تار پیڈو نہ بنے‘ نشانہ اندازی سے مراد صرف تیراندازی ہوتی رہی۔
عرب میں خاص کر حجاز میں تیرنے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ اس کے باوجود خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمری میں اپنی ننھیال کے کنویں میں تیرنا سیکھا تھا۔ اور اس کی آئندہ اوروں کو ترغیب بھی دیتے رہے۔
کشتی کا فن بھی اس ضمن میں بیان ہوسکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رُکانہ پہلوان کو مسلسل تین بار کشتی میں پٹخنا تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ مدینہ میں بھی آپؐ اس کی اکثر سرپرستی فرماتے تھے۔ جنگِ اُحد کے موقع پر چند نوعمر رضاکاروں کو کشتی لڑنے میں ماہر ہونے کے باعث باوجود کم عمر کے فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
دَوڑ کے سلسلے میں آدمیوںکی‘ گھوڑوں‘ گدھوں اور اونٹوں کی دوڑ سب سے زیادہ مقبول تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خود انعام دیا کرتے تھے۔ تربیت یافتہ اور غیرتربیت یافتہ گھوڑوں کے لیے الگ الگ مسافتیں مقرر تھیں۔ وہ مقام اب تک مدینہ منورہ میں محفوظ ہیں جہاں سے شرط کے گھوڑے وغیرہ روانہ ہوتے تھے اور وہ مقام بھی جہاں کھڑے ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیتنے والے کا تعین کرتے تھے۔ اس آخرالذکر مقام پر اب ایک مسجد ہے جو مسجدالسبق (دَوڑ کی مسجد) کے نام سے موسوم ہے۔ دوڑ میں انعام اول‘ دوم‘ سوم‘ چہارم متعدد افراد کو ملتے تھے۔ کبھی یہ انعام کچھ کھانے کی چیزیں مثلاً کھجور ہوتے اور کبھی کوئی چیز جن کی تفصیل سیرت شامی میں ملتی ہے۔
نشانہ اندازی کے انعامات اور اس کی ترغیب و تحریص کا ذکر کثرت سے احادیث میں آیا ہے۔ ابن القیم نے اپنی کتاب الفروسیہ میں ذکر کیا ہے کہ علاوہ اور چیزوں میں مسابقت کے‘ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وزنی پتھر اٹھانے کے بھی مقابلے ہوا کرتے تھے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے روا رکھتے تھے۔ نیزہ بازی (وِرکُلہ) کے علاوہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کجہّ اور کُرَّک کھیلوں کا بھی نوعمروں میں رواج نظر آتا تھا۔
بچوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اس سلسلے میں ذکر کیا جاسکتاہے۔ بی بی عائشہؓ کے ساتھ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دو مرتبہ دوڑ میں مقابلہ کرنا مشہور واقعہ ہے۔ جنگ ہائے بدر و اُحد وغیرہ میں زنانہ رضاکار زخمیوں کی مرہم پٹی‘ پانی پلانے‘ تیر چن کر اپنے ساتھیوں کو دینے‘ بلکہ خود تلوار کھینچ کر لڑنے کا کام انجام دیتی رہی ہیں۔ بی بی عائشہ‘ بی بی صفیہ وغیرہ خاندانِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی افراد بھی ان میں برابر کا حصہ لیتی رہی ہیں۔ بعد کے زمانے میں حضرت خالدؓ بن ولید کی لڑکیوں کی شہ سواری مشہور ہے۔ اور فنونِ مدافعت عورتوں کو بھی سکھائے جاتے رہے ہیں۔
یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا سرسری تذکرہ تھا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر بھی کچھ نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ایمان لانے کے بعد کسی شخص کو نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کا پابند کیا جاتا ہے۔
نماز میں صف آرائی‘ اجتماعی ہم کاری‘ فوج کا گھروں اور بارکوں سے اذان کی آواز پر اجتماع گاہ میں پہنچ جانا۔ اثنائے نماز میں امام مرض یا حدث وغیرہ کی وجہ سے نماز سے الگ ہوجائے تو فوراً سینئر مقتدی کا اس کی جگہ لے کر بقیہ نماز کی تکمیل کرانا‘ نمازِ خوف کا انتظام‘ پنج وقتہ محلہ داری‘ ہر ہفتہ شہرداری اور ہر سال دو مرتبہ شہر و مضافات کے عام اجتماع‘ رکوع و سجود کے ذریعے سے جسم میں لچک اور قوت پیدا کرنا… غرض روحانی کے ساتھ بیسیوں عسکری مصالح نظر آتے ہیں۔
فوجوں کو کھانے پینے کی چیزیں ہر وقت کہاں مل سکتی ہیں! روزے اور تراویح کے ذریعے سے ہر موسم میں دن بھر اور رات کے خاصے حصے میں بھوکے پیاسے کام کو جاری رکھنے کی جو تربیت ملتی ہے‘ اس کے نتائج کا اعتراف گھر والوں سے نہیں حریفوں سے پوچھیے۔
فوج کو کوچ اور پڑائو کی جتنی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کے لیے حج اور میدانِ عرفات سے بہتر کیا مقام مل سکتے ہیں! تمام دنیا سے لوگ آئیں اور اس بے آب و گیاہ مقام پر کوچ اور کیمپ کی تربیت حاصل کریں۔ دن کو آئیں‘ مغرب تک ٹھیریں‘ آگے جاکر رات گزاریں‘ علی الصبح پھر آگے بڑھیں۔ راستے میں کوئی بازار نہیں‘ کوئی ہوٹل اور کوئی مکان نہیں۔ ہر چیز خیمہ‘ توشہ سب ساتھ لینا پڑتا ہے۔ اور عالمگیر اخوت و تنظیم کا مکمل مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہم خیالی سے بہتر اتحاد کا کوئی ذریعہ نہیں۔ زبان‘ رنگ‘ ملک اور اسی طرح کے ذرائع اتحاد کچھ اتنے سطحی ہیں کہ اولادِآدمؑ و حوا کو ان خودساختہ تفریحات کے ذریعے سے اپنی یک جہتی کو نقصان پہنچانا جتنا مضر اور خونریز ثابت ہوا ہے‘ تاریخ اس کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
معاشیات کو سیاسی رفتار وحالات میں جتنا دخل ہے‘ اس سے اب کسی کو انکار نہیں۔ سرمایہ داری اور سودخواری کی انسانیت سوز بے رحمی اور بالشویکزم و کمیونزم کی لعنت اور بربادیاں… ان دونوں انتہا پسندیوں کا علاج اسلام نے زکوٰۃ و متعلقات کے ذریعے سے تجویز کیا۔ اس میں اخلاقی عناصر بھی ہیں‘ فطرتِ انسانی کا بھی لحاظ ہے‘ انفرادی ملکیت کو مکمل طور سے باقی رکھ کر اجتماعی ضروریات کی تکمیل کا پورا انتظام کیا گیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ صرف اس امر کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خانگی انتظامات ہوں کہ حکومتی‘ سب کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ اور کوئی سخت اور ناقابلِ برداشت بار ڈالے بغیر ضرورت سے زیادہ رقم والوں سے اُن کی بچت کا ایک خفیف جز اس غرض کے لیے حاصل کرلیا جاتا ہے‘ اور محتاجوں اور ضرورت مندوں کے کام کے لیے اس کو متعین کیا جاتا ہے۔
جب نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کے ارکان چہارگانہ کی پوری تعمیل ہوتی ہے تو پھر نوجوانوں کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ اپنے فرض کفایہ یعنی جہاد کو انجام دے سکیں، جس کا مقصد دنیا میں رب العالمین کی حکومت قائم کرنا اور روز ازل میں اپنے سر لی ہوئی امانتِ الٰہی کی تکمیل کرنا ہے۔