اسلام دینِ فطرت ہے جو انسان کی روحانی ضروریات کا اہتمام کرتا ہے تو اس کی جسمانی ضروریات سے بھی صرفِ نظر نہیں کرتا۔ خود رب کائنات نے اپنی کتابِ ہدایت میں مختلف پیرایوں میں اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ انسان کو سیدھے راستے کی ہدایت و راہ نمائی فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے، ارشادِ ربانی ہے: ’’بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمے ہے، اور درحقیقت آخرت اور دنیا، دونوں کے ہم ہی مالک ہیں۔‘‘ (الیل 92:12-13)
سورۃ الدھر میں انسان کو ہدایت اور اس کے ساتھ آزادیٔ اختیار و عمل دینے کا تذکرہ یوں ملتا ہے:
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نُطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں، اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ ( الدھر76: 2-3)
سورۃ البلد میں فرمایا:
’’کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟ اور (نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اُسے (نہیں) دکھا دیے؟ (البلد90:8۔10)
اس روحانی راہ نمائی کے ساتھ اللہ نے انسان کی تمام مادی ضروریات کو بھی وافر مقدار میں فراہم کردیا ہے اور وہ خود کہتا ہے کہ میں تمھارا بھی رازق ہوں اور تمھاری آنے والی نسلوں کا بھی رازق ہوں ( بحوالہ الانعام6: 15، بنی اسرائیل17:31)۔ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ دنیا کے معاملات میں شریک ہونا، بھرپور زندگی گزارنا اور اپنے دامن کو گناہ اور اللہ کی بغاوت و نافرمانی سے آلودہ نہ ہونے دینا ہی اصل اسلام ہے اور یہی امتحان بھی ہے۔ ترکِ دنیا کرکے الگ تھلگ بیٹھ جانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اسلام میں رہبانیت اور ترکِ دنیا نہیں ہے‘‘ (مسند احمد)۔ آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میری امت کے لیے رہبانیت کے بجائے جہاد فرض کیا گیا ہے۔ اسلام کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے کہ یہ اپنے پیروکاروں کو ترکِ دنیا اور غرقِ دنیا دونوں تباہ کن کیفیتوں سے بچاتا ہے۔ جس طرح نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے سادگی اور قناعت کو اپنا شعار بنایا، اسی طرح آپؐ نے دنیا کی حلال چیزوں اور جائز لذات کو پسند فرمایا اور صحابہ کو بھی اس کی ترغیب دی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ قریش کے ایک معزز خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد عمرو بن العاصؓ تو غزوہ خندق کے بعد مسلمان ہوئے لیکن یہ خوش نصیب صحابی اوائل عمری ہی میں حلقۂ بگوش اسلام ہوگئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھرپور ساتھ دیا۔ بہت نیک نہاد اور متقی صحابی تھے۔ جہاد میں برابر شرکت کرتے اور حصولِ علم کے لیے بھی بڑا وقت صَرف کرتے تھے۔ اس کے ساتھ انھیں ریاضت و عبادت کا ایسا شغف تھا کہ وہ رہبانیت کی حدوں کو چھونے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ نے انھیں بلا بھیجا۔ اس واقعہ کے راوی خود حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ ہیں۔ آپؐ نے ان سے پوچھا: ’’کیا یہ بات درست ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نماز میں مشغول رہتے ہو‘‘؟ انھوں نے عرض کیا: ’’جی ہاں یارسول اللہ‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو۔ مسلسل روزے نہ رکھا کرو، کبھی روزہ رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ اسی طرح رات بھر قیام نہ کیا کرو، رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارو اور کچھ حصہ آرام کرو۔ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ تمھاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملنے کے لیے آنے والے دوست احباب کا بھی تم پر حق ہے۔ تمھارے لیے یہ عمل کافی ہے کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ اس سے تم مستقل روزہ دار شمار ہوگے کیونکہ تمھیں ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا‘‘۔ حضرت عبداللہؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میں اپنے اندر اس سے زیادہ عمل کی قوت پاتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تو پھر اللہ کے نبی دائودؑ کی طرح روزہ رکھا کرو اور اس سے آگے ہرگز نہ بڑھو‘‘۔ دائودؑ ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن روزہ نہ رکھتے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے حالاتِ زندگی میں ان کی تلاوتِ قرآن کے متعلق بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ بیشتر وقت قرآن پڑھنے میں صَرف کیا کرتے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک ماہ میں ایک بار قرآن مجید ختم کیا کرو‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مجھ میں اس سے کہیں زیادہ طاقت ہے‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تین دن میں ختم کرلیا کرو‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا یہی عمل رہا، لیکن زندگی کے آخری برسوں میں جب بڑھاپے اور ضعف نے آلیا تو اپنے اہل و عیال اور شاگردوں سے فرمایا کرتے کہ کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی رخصت کو مان لیا ہوتا۔
اعمال تھوڑے بھی ہوں مگر ان میں دوام ہو، اخلاصِ نیت ہو اور اللہ کی رضا مقصود ہو تو ان میں بے پناہ برکت اور افزائش ہوتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود فرمایا کرتے تھے کہ میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں مگر میں روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔ رات کو قیام کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ میں شادی کرتا ہوں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی امت کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔ افراط و تفریط اور غلو کسی بھی معاملے میں درست نہیں ہوتا۔ ہم امتِ وسط ہیں اور اعتدال و توازن ہماری امتیازی شان ہے۔ اعتدال میں حسن ہوتا ہے اور توازن مشکلات و مسائل سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ آج امت کو یہ بھولا ہوا سبق دوبارہ یاد کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمھیں بخشی ہیں، انھیں بے تکلف کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘‘۔ (البقرہ2:172)
مذہبی انتہا پسندی کا راستہ اپنانے والے لوگوں نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلینا، ریاضت نہیں کم عقلی اور دین سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ اچھا لباس پہننا مگر تکبر سے بچنا، حلال اور لذیذ غذائیں کھانا مگر اسراف سے اجتناب، شانِ عبودیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے انسان کو جو لباس عطا کیا ہے وہ جسم کے قابلِ شرم حصّوں کو ڈھانکنے اور جسم کی حفاظت کے ساتھ زینت کا بھی ذریعہ ہے، لیکن یہ اچھا لباس دوسروں پر اپنی برتری جتانے یا اظہارِ کبر کا ذریعہ بنے تو یہ شیطانی عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت 26اور 31میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔
بندۂ مومن کے نزدیک زینتِ دنیا مقصود نہیں لیکن اللہ نے کسی شخص کو انعامات سے نوازا ہو تو تحدیثِ نعمت کا تقاضا ہے کہ انسان اس کا اظہار کرے۔ جو لوگ حلال چیزوں کو اپنے لیے حرام کرلیتے ہیں وہ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ سورۃ الاعراف آیت 32 اسی مضمون پر مشتمل ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’اے نبیؐ! ان سے کہو: کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انھی کے لیے ہوں گی۔ اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے گوشت میں سے دستی زیادہ پسند تھی اور آپؐ اسے شوق سے کھاتے تھے۔ اچھی قسم کی کھجوریں اور شہد بھی آپؐ کو پسند تھا۔ صحابہ کرامؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ چیزیں ہدیہ کے طور پر بھیجتے تو آپؐ انھیں بخوشی استعمال فرماتے تھے۔ آپؐ کو میٹھی چیزوں کے ساتھ ثرید بھی بہت پسند تھا۔ آپؐ گوشت کے شوربے میں روٹی کے ٹکڑے ڈال کر ثرید بنایا کرتے اور اسے لذت سے کھایا کرتے تھے۔ یہی دینِ فطرت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ انسان دنیا میں کھانے پینے کے لیے اور زیب و زینت کا اظہار کرنے کے لیے نہیں آیا۔ انسان کا مقصدِ حقیقی رضائے الٰہی کا حصول اور اس کے ذریعے جنت تک رسائی ہے۔ ہر وہ کام جس سے اللہ کی ناراضی اور اللہ کے بندوں کی حق تلفی یا ان کے جذبات مجروح ہونے کا پہلو نکلتا ہو، حرام ہے۔
بلاشبہ حلال چیزیں کھانے کی ترغیب دی گئی ہے لیکن ساتھ ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم بھی دی کہ جس ولیمے (یا دعوت) میں غربا و مساکین پر دروازے بند ہوں، اس میں کوئی خیر نہیں (مشکوٰۃ باب الولیمہ، متفق علیہ)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی شخص پیٹ بھر کر سوجائے اور اس کے پڑوس میں اس کا ہمسایہ رات کو بھوکا رہے تو یہ شخص ایمان سے خالی ہے (المستدرک، متفق علیہ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں اہل و عیال کے لیے پھل لے کر آئے تو اس کے چھلکے دروازے کے سامنے نہ پھینکے کہ غریب ہمسائے کے اہل و عیال کو محرومی کا احساس و غم ہو۔ یہ بھی ترغیب دی کہ ایسی صورت میں ہمسائے کے گھر میں کچھ نہ کچھ بھجوا دینا چاہیے۔ محسنِ انسانیت ؐنے انسانی معاشرے کی بہتری اور اس کے افراد کی بہبود کا کس قدر لحاظ رکھا ہے!
رہبانیت اختیار کرنے والوں نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اس کی تفصیل مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سورۃ الحدید آیت 27 کی تشریح میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کی ہے۔ جن لوگوں نے یہ راستہ اپنایا اور ترکِ لذات کے ذریعے نفس کو مارنے اور تقرب الٰہی حاصل کرنے کی غیر فطری روش اختیار کی وہ بہت بھٹکے، یہاں تک کہ رہبانیت کے نام پر اس قدر عزتیں لوٹی گئیں کہ بسا اوقات ان لوگوں کے حالات پڑھتے ہوئے گھن آنے لگتی ہے۔ اس کی پوری تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد پنجم، سورۃ الحدید، حاشیہ 52 (صفحات 325-333)۔
فطرت سے جب بھی کسی شخص نے لڑائی لڑی تو بری طرح سے پٹا۔ سنن ابودائود میں حضرت انسؓ کی ایک روایت ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’اپنے اوپر سختی نہ کرو کہ اللہ بھی تم پر سختی کرے۔ ایک گروہ نے انتہا پسندی اختیار کی تو اللہ نے بھی اسے سخت پکڑ میں لے لیا۔ دیکھنا چاہو تو دیکھ لو ان لوگوں کی باقیات راہب خانوں اور کلیسائوں میں موجود ہیں۔‘‘
ہمیں اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں بلکہ قرآن کے الفاظ میں انسانوں کے کندھوں پر پڑا ہوا ناروا بوجھ اتار دیا ہے۔ ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اور پائوں کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں اور ہر پاکیزہ چیز کو ہمارے لیے حلال کردیا ہے، اور ہر خبیث و ناپاک چیز کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ جس نبیؐ کے ذریعے اتنا بڑ انعام ہمیں ملا، اس کی نصرت اللہ کی طرف سے ہم پر فرض کی گئی ہے، ان کی نصرت دراصل ان کے دین کے قیام اور غلبے کی جدوجہد کا نام ہے۔
پس ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے غلو اور افراط و تفریط سے بچ کر غلبۂ دین کے لیے جدوجہد کریں اور سب سے پہلے خود کو احکامِ اسلامی کا مطیع بنادیں۔ اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اگر کوئی ہے تو خود ہم بے عمل مسلمان ہی ہیں ورنہ اسلام تو غالب ہے۔