جب فلسطینیوں کی جدوجہد زوروں پر تھی اور اسرائیلی جہازوں کے اغوا سے فدائی حملوں تک فلسطینی عورتیں مردوں سے آگے نکل کر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہی تھیں اور عرب دنیا میں مصر اس تحریک کی سرپرستی اور معاونت کررہا تھا تو امریکی صدر جمی کارٹر کی کوششوں سے اسرائیل کے صدر بیگن اور مصر کے صدر انورالسادات کے درمیان امریکہ کے شہر کیمپ ڈیوڈ میں ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے میں مصر اور اسرائیل نے فلسطینی عوام کی رائے جانے اور اسے سموئے بغیر اُن کے علاقوں پر ایک سمجھوتا کیا جسے تاریخ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے نام سے جانتی ہے۔ اس سے فلسطین کی تحریک خطے میں اپنے سب سے مضبوط حامی ملک کی حمایت سے محروم ہوگئی اور مصر فلسطینی عوام کی حمایت کے معاملے میں اپنے ہاتھ پائوں کٹوا کر بیٹھ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین کے مزاحمت پسند عوام کے لیے ابتلا و آزمائش کے نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہوا۔ چونکہ آزادی کی سوچ ایک عام فلسطینی کے دل میں گھر کرچکی تھی اس لیے سب سے مضبوط حمایت اور سہارے سے محروم ہونے کے باوجود وہ اپنی اس سوچ کو دل ودماغ میں بسائے رہے۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے نتیجے میں بیگن اور سادات کو امن کا نوبل پرائز تو مل گیا مگر چند برس بعد ہی انورالسادات کو ایک فوجی پریڈ میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ اس قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والا ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ ایمن الظواہری بھی تھا جو بعد میں ماہ و سال کی طویل گردش کے بعد اسامہ بن لادن کا دستِ راست بنا۔
چند دن قبل کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے انہیں دورۂ لاہور سے واپسی کے بعد کہا تھا کہ انہوں نے پاکستانی حکمرانوں سے کہا ہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں پر اپنا اپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے کنٹرول لائن کو سیدھا کیا جائے۔ گویا کہ دو دہائیوں سے مسئلہ کشمیر کے جس حل کا غلغلہ جاری رہا اُس کہانی کا سارا نچوڑ اور خلاصہ یہی ہے۔ یہی وہ حل تھا جسے پہلے کرگل کے تصادم نے، اور دوسری بار پاکستان میں شروع ہونے والی وکلا تحریک نے دور کردیا۔ پہلے دور میں اس حل کا سہرا پاکستان کے ایک جمہوری حکمران میاں نوازشریف اور دوسری بار فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف کے سر سجتے سجتے رہ گیا۔ بھارت میں پہلی بار سخت گیر بی جے پی اور دوسری بار برصغیر کے تاریخی تنازعات کا اہم کردار کانگریس اس مشق کا حصہ تھی جس سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ بھارت کی طرف سے اس کوشش کو اجتماعی حمایت حاصل تھی اور اس حل میں بھارت کے قومی اور ریاستی مفادات مجموعی طور پر محفوظ رہتے۔ پاکستان میں ہر دو بار اس سوچ کو مکمل پذیرائی اور حمایت حاصل نہیں رہی، جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مضبوط حلقے کو یہ خدشہ رہا ہے کہ یہ حل ریاست پاکستان اور کشمیر کے ایک مؤثر حلقے کے مفادات سے متصادم ہے۔ دوسرے لفظوں میں نوازشریف اور واجپائی، اور پرویزمشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان کشمیر پر جو کھچڑی پک رہی تھی اس کا کشمیری عوام کی طویل جدوجہد، قربانیوں اور خواہشات سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس میں زمینی صورتِ حال کی بنیاد پر غیر جذباتی انداز میں فیصلہ کیا جانا تھا۔ گویا کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے طویل اور صبر آزما عمل کے بعد کشمیر پر ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا فارمولا استعمال کیا جا رہا تھا۔ پرویزمشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری جنرل پرویزمشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان کشمیر پر ایک سمجھوتے کے مسودے پر متفق ہونے کی بات کررہے ہیں۔ اپنی کتاب میں تو انہوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ اس مسودے پر دستخط ہونا باقی تھے کہ پاکستان میں وکلا تحریک کا آغاز ہوگیا اور یوں بھارت نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔
کنٹرول لائن کو ٹھیک کرکے اسے مستقل مگر نرم سرحد بنانا بھارتیوں کے پاس ہمیشہ سے ایک’’ریڈی میڈ‘‘ حل کے طور پر موجود رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز میں جب ابھی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا بھارتی جریدے انڈیا ٹوڈے سے وابستہ معروف صحافی ہریندر باویجہ پاکستانیوں کا ردعمل معلوم کرنے پاکستان آئیں۔ یہ سوال انہوں نے آزادکشمیر کے اُس وقت کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان کے سامنے بھی رکھا تھا کہ کیوں ناں کنٹرول لائن کو درست کرکے مستقل سرحد بنالیا جائے؟ سردار عبدالقیوم خان کے بقول انہوں نے یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ بھارت کشمیر پر مذاکرات پر آمادہ ہو تو اس تجویز پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ کنٹرول لائن کو ٹھیک کرنے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ وہ دیہات اور گائوں جو غیر فطری تقسیم کا شکار ہیں اور جن پر انتظامی اور فوجی کنٹرول قائم رکھنے میں کسی بھی ایک ملک کو دشواری پیش آرہی ہے، انہیں دوسرے کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ یہ کنٹرول لائن پر موجود چند لوگوں کے مسائل کا حل اور خواہشات کا آئینہ دار تو ہے مگر اس میں اہلِ وادی کے مجموعی جذبات اور احساس کہاں ہیں؟ اسے مسئلہ کشمیر کے حل سے زیادہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سمجھوتا ہی کہا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر اس سمجھوتے میں بیگن بھارت کا حکمران ہے اور سادات کا کردار کسی پاکستانی حکمران کو نبھانا تھا، اور فطری طور پر یہاں فلسطینی عوام کی طرح سمجھوتے کی کند چھری سے مذبوح کا کردار کشمیریوں کے حصے میں آنا تھا۔ جبکہ خود فاروق عبداللہ کہتے ہیں کہ دہلی کے اشوکا ہوٹل میں جب جنرل پرویزمشر ف کے دورے کے موقع پر بھارت کے ایک نمائندے نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ تیسری پارٹی ہے تو فاروق عبداللہ نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ تھرڈ نہیں فرسٹ پارٹی۔ فاروق عبداللہ کی یہ بات بڑی حد تک درست ہے، جب تک تھرڈ پارٹی سمجھی جانے والی پارٹی کو فرسٹ پارٹی کی فرنٹ سیٹ پر نہیں بٹھایا جاتاکوئی سمجھوتا بار آور نہیں ہوسکتا، اور اس کا نتیجہ کسی سادات کے سرِبازار قتل اور کسی ایمن الظواہری کی صورت میں ہی برآمد ہوتا رہے گا۔