علامہ شیخ محجوب عثمان اسحاق
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے، والد کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے ہی ہوگیا تھا‘ آپؐ کی پرورش بھی دوسرے بچوں کی طرح مکہ سے باہر گائوں کی کھلی فضا میں زندگی بسر کرنے والی دایہ کی نگرانی میں ہوئی۔ بچپن ہی سے آپؐ کے عادات و اطوار دوسرے بچوں کے عادات و اطوار سے مختلف تھے۔ عام طور پر نوعمر بچوں کو جن کھیلوں سے دلچسپی ہوتی ہے‘ ان سے بھی آپؐ الگ تھلگ رہتے تھے‘ اور اپنا بیشتر وقت اپنے دادا کے ساتھ اُن کی خلوت جلوت کی نشستوں میں گزارتے۔ قدرت نے کم عمری میں ہی جو غیر معمولی ذہانت و فطانت اور فکرِ صالح عطا کی تھی اس کی وجہ سے آپؐ کے دادا آپؐ کو بے حد چاہتے تھے۔ آپؐ کے دادا قریش کے بڑے سردار و پیشوا تھے‘ ان کے یہاں جو نشستیں ہوا کرتی تھیں ان میں اکابر قریش کے سوا اور کوئی شریک نہ ہوسکتا تھا، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوعمری کے باوجود ان مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔
تاریخ و سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوعمری میں بھی جس انداز سے کسی بات پر تبصرہ کرتے اور اظہارِ خیال فرماتے‘ عام طور پر اس عمر میں اس کی کبھی توقع نہیں کی جاتی۔ ایک مرتبہ آپؐ کے دادا کی خدمت میں ایک وفد پہنچا اور سامنے آتے ہی وفد کے تمام ارکان انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ جھک گئے، قدم بوسی کی اور پھر اپنی اپنی جیبوں سے رقمیں نکال کر نذر میں پیش کیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو اپنے دادا سے پوچھا کہ ان لوگوں نے آپ کے ہاتھ پائوں کیوں چومے اور آپ کے سامنے اس طرح رقمیں کیوں رکھیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جان نے سرداروں جیسی تمکنت کے ساتھ جواب میں کہا کہ بیٹے! ہم ان کے بڑے ہیں، سردارِ قبیلہ ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ لیکن میرے خیال میں تو سردار وہ ہے جو کسی سے کچھ لینے کے بجائے اس کو کچھ عطا کرے۔
اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب منصبِ نبوت پر فائز ہوئے تو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے اسی انداز میں آئی ہے کہ ’’اوپر کا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘ اور بخشش و عطا کی شروعات اُن لوگوں سے کرو جن کا رزق تمہارے ذمے ہے۔‘‘
یہ ایک مثال ہے کہ وہ نعمتِ یزدانی‘ جو عقل و خردکے نام سے بنی نوع انسان کو بخشی گئی ہے اور بحیثیت بشر‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملی‘ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کم عمری کے زمانے میں بھی کس حسن و خوبی کے ساتھ استعمال کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال میں سلامت روی و محکمی زمانۂ جاہلیت میں بھی کفارِ قریش کو اتنی صاف نظر آئی کہ انہوں نے اپنے جھگڑوں میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث اور حاکم تک بنایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت داری اور سچائی کو دیکھا اور لہو و لعب اور عیش و طرب کی محفلوں سے کنارہ کش پایا تو صادق و امین کا لقب دیا، حالانکہ زمانۂ جاہلیت میں عیش و طرب کی محفلیں اور رنگ رلیاں معزز گھرانوں کی روایات میں داخل تھیں اور ان کے نوجوانوں کی امتیازی خصوصیت سمجھی جاتی تھی کہ وہ ان محفلوں کی رونق بنیں۔ اور یہ نظامِ جاہلی وہ تھا جہاں ہر قوی اپنے سے کمزور کو دباکر رکھتا تھا۔ ہر امیر غریبوں اور ناداروں کو پامال کرتا تھا‘ اور ہر صاحبِ اقتدار و اختیار اپنے زیردستوں پر دل کھول کر ظلم کرتا تھا‘ اور اسی میں اس کی شان تھی۔ مگر جاہلی معاشرے کے یہ تمام عناصر بھی‘ اپنی قوت و دولت اور اقتدار کے نشے میں چُور ہونے کے باوجود اپنے دلوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و تقدیس کو محسوس کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلیم الطبعی اور حق گوئی کی قدر کرتے تھے‘ جس کو مطلق اس کی پروا نہ تھی کہ کون اس سے خوش ہوتا ہے اور کون ناخوش، کیوں کہ حق و صواب تو صرف وہی ہے جس کی طرف عقلِ فکر انگیز رہنمائی کرتی ہے‘ اور جس سے ضمیرِ انسانی راحت و سکون پاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشریت کا اعلیٰ نمونہ تھے، اس بشریت کا جس کی فکر مستقیم، قوتِ فیصلہ مستحکم اور اعمال صالح ہوں، اور یہی وہ خصوصیات تھیں جن کی بنا پر اُس دور کے عقلاء اور ممتاز اہلِ قریش اور دوسرے قبائل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و ہدایت کے طلب گار ہوئے۔
ہاں‘ یہ بات یہاں دل میں کھٹک ضرور پیدا کرے گی کہ اگر ایسا تھا تو پھر اتنی جنگیں کیوں برپاہوئیں‘ ان کو جھٹلایا کیوں گیا‘ ان پر جادوگری کی تہمت کیوں لگائی گئی‘ ارشاداتِ عالیہ کو شاعرانہ خیال آرائی کہہ کر ان کی اہمیت کیوں گھٹانے کی کوشش کی گئی‘ او ریہ سب کچھ ان ہی لوگوں نے کیا جن کے درمیان رہ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ بسر کیا تھا‘حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف ستھری زندگی ان کے سامنے تھی‘ اور ابتداہی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ذہانت و فطانت اور بلند کرداری کے بھی وہ سب قائل تھے۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے اور آسان بھی‘ جو ہر زمانہ اور ہر قوم میں دہرایا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اُن لوگوں نے کی تھی جو صاحبانِ اقتدار تھے، اربابِ دولت و جاہ تھے، اور جن کو اپنی شرافت و نجابت اور برتری کا دعویٰ تھا۔ ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت یہ تھی کہ تمام انسان برابر ہیں، کوئی کسی سے برتر نہیں ہے، فضیلت اگر کوئی ہے تو صرف اخلاقِ حمیدہ کی ہے،اور ُان اعمالِ صالح کی جو معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے مفید ہوں۔ یہ دعوت تفاخرِ نسبی اور غرورِ پیشوائی کے انکار پر مبنی تھی۔ لیکن جہاں زندگی کا نظام اسی ڈھب پر قائم ہو، وہاں کوئی تعجب کی بات نہ تھی اگر لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی سخت مخالفت کی اور تکذیب پر یوں کمر باندھی۔ ان کو بہرصورت اپنی سرداری و پیشوائی کو بچانے اور اپنے خالص مادی نظام حیات کو برقرار رکھنے کی فکر تھی۔
سچ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، آج پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کی یہ پاکیزہ دعوت، جس نے کذب و اختراع اور دجل و فریب کے خلاف زبردست جہاد کیا تھا، پھر باطل کے نرغے میں ہے، اور اقصائے عالم میں جہاں جہاں بھی اس دعوت کے علَم بردار کھڑے ہیں، ان کو پامال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، اور صرف اس لیے کہ یہ لوگ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ سے قریب تر ہوجانے کی دعوت دے رہے ہیں، اور سچے دل سے اس کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں، اور اپنی مخلصانہ جدوجہد سے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کو برسرِعمل لانا چاہتے ہیں، خواہ وہ شعبہ نظم و نسق کا ہو یا نظام قانون کا ، نظمِ سماجی کا ہو یا نظام ِمعاشی و اقتصادی کا۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ مسلمان توجہ کریں، اپنے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں، اور اپنی زندگی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیرتِ طیبہ کے سانچے میں ڈھال کر خود اپنے لیے بھی زندگی کی خوش گواریاں مہیا کریں اور دوسروں کو بھی خوش حالی کی راہ دکھائیں؟