پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ اور جماعت اسلامی

کلیم اکبر صدیقی
دستور ہر ریاست کے بنیادی چار عناصر میں سے ایک اہم عنصر ہے جس سے نظامِ ریاست، طرزِ حکومت اور انتخابِ حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات، فرائض اور حدودِ کار کا تعین ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند اگست 1947ء میں دو آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوا۔ غیر منقسم ہند پر عرصۂ دراز سے ایک غیر ملکی قوم کا تسلط تھا اور برطانوی پارلیمان کے طے کردہ قوانین پر نظام چلتا تھا۔ اس لیے داخلی خودمختاری مل جانے کے باوجود اقتدارِ اعلیٰ برطانوی حکومت کے پاس رہا اور دونوں ریاستوں میں تاجِ برطانیہ کی طرف سے مقرر شدہ فرد کو گورنر جنرل کے طور پر ریاست کا سربراہ بنایا جاتا۔ دستور بن جانے تک یہی صورت رہنی تھی۔
بھارت کی قومی قیادت اپنی قوم اور ملک سے مخلص اور اپنے قومی تشخص کی خواہاں تھی، اس لیے انہوں نے چند سال ہی میں دستور بناکر غیر ملکی اقتدار سے مکمل آزادی حاصل کرلی۔ بدقسمتی سے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی صحت کمزور ہوگئی اور ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ حکمران جماعت کے قائدین کی اکثریت ذاتی اقتدار کی خواہاں اور مفاد پرست تھی اور زیادہ تر اُن لوگوں کی اولاد تھی جنہوںنے 1857ء میں قوم سے غداری اور انگریزوں سے وفاداری کی تھی۔ اس لیے جلد دستور سازی میں ان کی دلچسپی نہ تھی، نہ ملکی و قومی مفاد انہیں عزیز تھا۔
قائداعظم کے انتقال سے تو اقتدار پرست طبقے کو اور حوصلہ ہوگیا کہ وہ کھل کھیلیں۔ 1948ء سے جماعت اسلامی نے دستور سازی اور نظامِ اسلام کے نفاذ کے لیے عوامی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ مہم کسی نہ کسی انداز میں 1955ء تک جاری رہی، یہاں تک کہ تمام رکاوٹوں، سازشوں اور بدنیتی کے باوجود اسمبلی نے 1956ء کے شروع میں ایک دستور منظور کرلیا جس کو 23 مارچ 1956ء کو نافذ کردیاگیا تاکہ نو سال بعد برطانوی اقتدار اعلیٰ کا خاتمہ ہو۔ یہ دستور جمہوری، پارلیمانی اور اسلامی دفعات پر مشتمل تھا۔ نئے آئین کے نفاذ کے بعد فروری 1959ء میں پہلے عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ لیکن صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے افواج کے کمانڈر انچیف ایوب خان کے ساتھ مل کر 24 اکتوبر1958ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اور 1956ء کے آئین کو منسوخ کرکے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی۔ اس طرح ملک ایک دفعہ پھر بے آئین ہوگیا۔
جماعت اسلامی کی دستوری مہم کے تمام مراحل، درمیانی مراحل کی مشکلات اور حادثات کی تفصیلات کو میاں طفیل محمد مرحوم جانشینِ اوّل سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اپنی تصنیف ’’جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد‘‘ میں مرتب کرکے تاریخِ پاکستان میں محفوظ کردیا۔ علاوہ ازیں اپنی کتاب ’’مشاہدات‘‘ اور ’’تذکرہ سید مودودی‘‘ کے مضامین میں بھی جستہ جستہ احوال بیان کردیے، جس کے مطابق اہم واقعات یوں ترتیب پائے:
(الف) 1948ء میں قائداعظم کی وفات کے ایک ماہ بعد اکتوبر میں جماعت اسلامی کے تین اہم ترین رہنماؤں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور سمجھا گیا کہ اگر یہ لوگ میدانِ عمل میں نہ ہوں گے تو جماعت اسلامی کی دستور ی مہم اور نظامِ اسلام کا مطالبہ سرد پڑجائے گا۔ بلکہ حکومت کے ایک ذمے دار نے دستور ساز اسمبلی میں فخریہ اور متکبرانہ انداز میں کہاکہ مودودی جیل میں ہے اور ساری زندگی جیل میں رہے گا۔ لیکن عدالت کے ایک فیصلے کے تحت نظربندی میں دو دفعہ سے زیادہ اضافہ نہیں ہوسکتا۔ بیس ماہ بعد مولانا مودودی اپنے دونوں ساتھیوں سمیت رہا ہوگئے۔ نظربندی کے دوران جماعت اسلامی کی دستوری مہم اور مطالبۂ نظام اسلامی کی تحریک زیادہ زورو شور سے جاری رہی۔
(ب) 1949ء میں عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جس سے ریاست کا مقصدِ قیام دستوری طور پر طے کردیا اور اس کو پاکستان کے تمام دساتیر میں دیباچہ کے طور پر شامل کیا، اور جنرل ضیاء الحق شہید نے اس کو باقاعدہ دستور کا حصہ بنادیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کی جدوجہد سے قرارداد کو پیش کرنے سے پہلے جیل میں مولانا مودودی کو دکھائی گئی تاکہ اسلامی نظام سے متعلق اس میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔
(ج) وقتاً فوقتاً دستور ساز اسمبلی کی طرف سے جو سوالنامے مرتب ہوئے یا کارروائی کی تفصیل پریس میں شائع ہوئی، جماعت اسلامی کی طرف سے فی الفور بھرپور انداز میں جوابات، تنقید اور بہتر تجاویز تحریری طورپر پریس، دستور ساز اسمبلی اور حکومت کے ذمے داران کو ارسال کی گئیں اور بسا اوقات عوام کی رہنمائی کے لیے کتابچے بھی شائع کیے جاتے رہے۔
(د) دستور کی تدوین اور مطالبۂ اسلامی نظام کے لیے عوام کو منظم اور متحرک کرنے کے لیے پوری مہم کے دوران پوسٹر، وال چاکنگ، اخباری اشتہارات، دستخطی مہم، محضرنامے تیارکرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک اجلاس مری میں ہونا تھا، جماعت اسلامی کے کارکنوں نے راولپنڈی سے مری تک پُرپیچ سڑک کا کوئی موڑ نہ چھوڑا جس پر ہر گزرنے والے فرد کی نظر لازماً پڑتی تھی۔ دستور ساز اسمبلی کے ارکان پر اس چاکنگ کا بارعب اثر پڑا اور وہ سمجھ گئے کہ عوامی مطالبے کے برعکس آئین بنانا آسان نہیں ہے۔
1951ء میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے دستور کے لیے جو رپورٹ پیش کی اُس کی ساری تفصیلات سیکولر اور غیر جمہوری سفارشات پر مشتمل تھیں۔ مولانا مودودی نے لاہور اور کراچی کے جلسہ ہائے عام میں رپورٹ کے نقائص پرمدلل تنقید کی اور واضح کیا کہ پاکستان کے مسلمان عوام کسی لادینی اور غیر جمہوری دستور کو قبول نہ کریں گے۔ اور ساتھ ہی آٹھ نکاتی مطالبہ پیش کیا جو اسلامی جمہوری دستور کے لیے لازم تھے۔ دسمبر1952ء میں خواجہ ناظم الدین نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں جماعت اسلامی کے آٹھ نکاتی مطالبے کو بنیاد بنایا گیا، اور یہ آٹھ نکات بعدازاں ہر دستور میں اسلامی دفعات کی بنیاد بنتے رہے۔
(ر) گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے اسلام دشمنی، آمریت اور ذاتی اقتدار کو طول دینے کا سلسلہ جاری رہا۔ خواجہ ناظم الدین کی دین پرستی اور عوامی خواہشات کی تکمیل کا جذبہ اُس کے لیے قابلِ قبول نہ تھا، اس لیے ان کو معزول کرکے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو پاکستان بلا کر نیا وزیراعظم بنادیاگیا۔ خیال تھا کہ وہ لادین عناصر کے لیے بہت سودمند ہوں گے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
بوگرہ کی امریکہ سے کراچی آمد کے موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے ہزاروں کارکنان کراچی ائرپورٹ پر جمع تھے۔ سب کے پاس احتجاجی اور مطالبات کے نعروں پر مشتمل کتبے اور بینر تھے جن کو مخفی رکھاگیا اور انتظامیہ بالکل بے خبر رہی۔ جیسے ہی وزیراعظم کا قافلہ روانہ ہوا، اسٹار گیٹ تک جماعت اسلامی کے کارکنان بآوازِ بلند اسلامی دستور کے حق میں نعرے لگاتے اور مطالباتی کتبے اور بینر لہراتے نظر آئے۔ اس مظاہرے کا اثر یہ ہوا کہ نومولود وزیراعظم کو احساس ہوگیا کہ عوامی خواہشات کے علی الرغم ملکی نظام چلانا ممکن نہیں۔ اس لیے محمد علی بوگرہ کی وزارتِ عظمیٰ میں 1956ء کا آئین تیار ہوگیا جس کے مطابق میاں طفیل محمد مرحوم کا کہنا تھا کہ اس سے اچھا اسلامی اور جمہوری آئین دوبارہ نہ بن سکا۔ لیکن اس سے پہلے کہ آئین پر اسمبلی اسپیکر کے دستخط ہوتے اور وہ نافذ ہوجاتا، گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی توڑ دی اور ملک ایک بار پھر سرزمینِ بے آئین رہ گیا۔
(ز) دستوریہ کو توڑنے کے غیر قانونی اور آمرانہ قدم کو جماعت اسلامی نے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ میاں طفیل محمد سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان اس غرض سے کراچی گئے اور چودھری غلام محمد مرحوم امیر جماعت اسلامی کراچی کے ہمراہ کالعدم دستوریہ کے اسپیکر مولوی تمیزالدین جو کہ اُس وقت غیر اعلانیہ نظربندی کا شکار تھے، سے ملے اور اُن کو عدالت میں معاملہ لے جانے پر آمادہ کیا۔ اخراجات کے لیے میاں صاحب کے ایک عزیز میاں عبدالرشید نے دوقسطوں میں دس ہزار روپے ادا کیے تھے، وہ مولوی صاحب کے حوالے کیے۔ معاونت اور حمایت کے لیے جماعتی رہنماؤں نے مولانا ظفر احمد انصاری، سردار عبدالرب نشتر، مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منظر عالم سے ملاقاتیں کیں اور ان سب کو مولوی تمیزالدین کی عملی مدد پر آمادہ کیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی، اور کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور دستوریہ بحال کردی۔ لیکن مرکزی حکومت نے چیف کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کے تحت سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط قرار دے کر حکومتی کارروائی کو جائز قراردیا، البتہ جلد از جلد نئی اسمبلی قائم کرنے کی ہدایت کی۔
اس سے قبل حکومت نے 1953ء میں جماعت اسلامی کی دستوری اور نظام اسلامی کی مہم کو ختم کرنے کے لیے بعض مذہبی عناصر کے ساتھ مل کر ختمِ نبوت جیسے حساس مسئلے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی پُرتشد تحریک شروع کرادی۔ جماعت اسلامی کا مؤقف تھا کہ اسلامی آئین بن جانے سے قادیانیت کا مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا، لیکن حکومت جذبات کو بھڑکاکر اس آڑ میں اسلامی قوتوں اور بالخصوص جماعت اسلامی کو کچلنا چاہتی تھی، اس لیے مولانا مودودی کو پمفلٹ ’’قادیانی مسئلہ‘‘جو پہلی اشاعت سے لے کر آج تک ضبط نہ ہوا، لکھنے کے جرم میں ایک فوجی عدالت کے ذریعے پھانسی کی سزا دلادی جس کو قومی اور بین الاقوامی احتجاج پر عمر قید میں تبدیل کردیا گیا اور سمجھاگیا کہ مودودی کے میدان سے ہٹ جانے کے بعد لادینیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ جماعت اسلامی کی دستوری مہم جاری رہی، یہاں تک کہ چودھری محمد علی کی وزارتِ عظمیٰ میں دسمبر 1955ء میں ایک جمہوری پارلیمانی اور اسلامی دفعات پر مشتمل دستور پاس ہوگیا اور اس کو 23 مارچ 1956ء کو نافذ کردیاگیا جس کو تاریخ میں 1956ء کا دستور کہتے ہیں۔ یوں 9سال بعد سرزمینِ پاکستان کو آئین کا سائبان نصیب ہوا۔ سیکولر اور اقتدار پرست طبقے کو اپنی پسپائی برداشت نہ ہوئی، آخری گورنر جنرل اسکندر مرزا نے جو کہ آئین نافذ ہونے پر پہلا صدر بن گیا تھا، پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان جو کہ خود بہت عرصے سے اقتدار حاصل کے لیے کوشاں تھے، سے مل کر سیاسی حکومتوں کی کمزوری اور سیاسی انتشار کا بہانہ کرکے اکتوبر 1958ء میں مارشل لا نافذ کردیا جو کہ اڑتالیس ماہ جاری رہا۔ چونکہ 1956ء کا آئین منسوخ ہوچکا تھا اس لیے مارشل لا کے بعد نافذ کرنے کے لیے نئے آئین کی خاطر دستور ساز اسمبلی یا عدلیہ کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے چند افراد پر مشتمل ایک دستوری کمیٹی بنائی گئی جس نے قابض حکمران کی منشا کے مطابق آئین کا مسودہ تیار کیا جو کہ پارلیمانی کے بجائے صدارتی طرزِ حکومت اور قومی انتخابات براہِ راست کے بجائے بالواسطہ (جس کو بنیادی جمہوریت کا نام دیاگیا) انتخابات پر مشتمل، اور جملہ اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز، عوام کے بنیادی حقوق کے ذکر سے خالی، اسلامی دفعات تو کجا مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے جمہوریہ پاکستان سے تبدیل کرنے پر مشتمل تھا۔ دستوری کمیٹی کو تجاویز حاصل کرنے کے لیے ایک سوالنامہ شائع کرنا لازم تھا، جماعت اسلامی تو کالعدم تھی لیکن مولانا مودودی نے تفصیل کے ساتھ سوالنامے کا جواب ارسال کیا اور عوام الناس کی آگاہی کے لیے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا۔ لیکن ایوب خان کو تو آمر بن کر حکومت کرنا تھی، وہ کس طرح آئینی طور پر اپنے آپ کو پابند کرتا! دستوری کمیٹی کے تیار کردہ آئین کو 1962ء کا آئین کہتے ہیں۔ مارشل لا ختم کرکے 1962ء کا دستور نافذ کردیا گیا۔ اس دستور کے خلاف مشرقی پاکستان میں سخت ردعمل ہوا بلکہ حسین شہید سہروردی نے جو کہ وزیراعظم بھی رہ چکے تھے اور ایک معروف سیاسی رہنما تھے، آئین کو ماننے سے انکار کردیا اور تمام سیاسی قوتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ نئے آئین کو مسترد کردیں۔
مولانا مودودی نے فوراً سہروردی سے رابطہ کیا کہ آئین کو مسترد کرنے سے بحران اور سنگین ہوجائے گا اور فوجی آمریت کی کالی رات بہت طویل ہوجائے گی، اس لیے استرداد کے بجائے نئے آئین میں ایسی ترامیم کرائی جائیں جن سے آئین جمہوری اسلامی ہوجائے۔ اس پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کا اجلاس ہوا اور مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے کے لیے ترامیم کا مطالبہ کیاگیا، جس کی بنیاد پر 9 قومی رہنماؤں پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیاگیا جن میں جماعت اسلامی کے رہنما میاں طفیل محمد اور چودھری غلام محمد بھی شامل تھے۔ سارے جبرو استبداد کے باوجود 1962ء کے دستور کو جمہوری اور اسلامی بنانے کے لیے جماعتی جدوجہد جاری رہی۔ عوام الناس سے مطلوبہ ترامیم کے لیے محضرنامے پر دستخط کی مہم شروع کی گئی جس سے نو میل لمبا محضرنامہ تیار ہوگیا جس کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے ایم این اے مولانا عبدالباری نے ڈھاکا کے اجلاس میں پیش کیا۔ اس محضرنامے کو کئی چھکڑوں پر لاد کر اسمبلی ہال لایاگیا۔ بالآخر عوامی دباؤ پر قومی اسمبلی نے ترمیم کرکے نومبر 1963ء میں ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کردیا گیا اور عوام کے بنیادی حقوق بحال کردیے گئے۔ لیکن صدر پاکستان نے نفاذ کے لیے دستخط میں جان بوجھ کر تاخیر کی تاکہ جماعت اسلامی جس کو جنوری 1964ء میں خلافِ قانون قرار دیا گیا، بنیادی حقوق کی بحالی کا فائدہ حاصل نہ کرسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ نو ماہ بعد سپریم کورٹ نے حکومت کے اقدام کو غلط قرار دیا اور جماعت کو بحال کردیا۔
1968ء میں ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی۔ پُرامن تحریک جاری تھی اور ایوب خان کی طلب کردہ گول میز کانفرنس میں پارلیمانی طرزِ حکومت اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہِ راست انتخابات کے متفقہ مطالبات منظور ہوگئے۔ لیکن بھٹو اور بھاشانی نے تشدد اور توڑپھوڑ کی سیاست شروع کردی جس پر ایوب خان نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے مارشل لا لگاکر 1962ء کا آئین منسوخ کردیا۔
دسمبر1970ء میں جنرل یحییٰ خان نے پہلے قومی انتخابات کرائے۔ منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو پہلی آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرنا تھا۔ بعد ازاں مقننہ کے طور پر مشرقی پاکستان میں دو تین نشستوں کے سوا ساری نشستیں عوامی لیگ نے حاصل کیں۔ مغربی پاکستان میں اس کاکوئی امیدوار نہ تھا۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں اکثریت بھٹو نے حاصل کی، مشرقی پاکستان میں اس کا کوئی نمائندہ نہ تھا۔ علاقائی جماعتوں کی کامیابی سے ملک متحد نہ رہ سکا اور مشرقی پاکستان علیحد ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ مارچ 1972ء میں پاکستان کے صدر اور سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بھٹو نے بچی کھچی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا۔ مارشل لا ختم کرکے 1935 کے ایکٹ کو عبوری آئین کے طور پر نافذ کردیا گیا۔ نئے آئین کی تدوین کے لیے اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل دستوری کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر پروفیسر غفور احمد بھی شامل تھے۔ آئین سازی میں بہت مشکلات کا سامنا تھا۔ ایک موقع پر بلوچستان کے نمائندوں نے بائیکاٹ کردیا۔ سنگین بحران تھا کیونکہ چاروں صوبوں کی شمولیت کے بغیر آئین بن ہی نہیں سکتا تھا۔ مولانا مودودی نے قومی رہنماؤں کو سمجھایا اور آئین سازی میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ یہ بات تمام سیاسی حلقوں میں اتفاق کے ساتھ کہی گئی اور اعتراف کیاگیا کہ 1973ء کے آئین کی تدوین میں سب سے زیادہ محنت اور جانفشانی پروفیسر غفور احمد کی تھی۔
اس طرح مارچ 1972ء سے آئین سازی کاکام شروع ہوکر فروری 1973ء میں مکمل ہوا اور سربراہِ مملکت سے منظور ہوکر 23 مارچ 1973ء کو نافذ ہوگیا۔ 1973ء کے دستور کو تمام سیاسی جماعتوں کی منظوری حاصل تھی۔ دین، جمہوریت اور اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے اسے متفقہ دستور قرار دیاگیا۔ لیکن بھٹو نے اپنی فسطائیت قائم کرنے کے لیے اکثریت کے بل بوتے پر پے درپے ترامیم کرکے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ بھٹو دور کے خاتمے پر جنرل ضیاء الحق اور متحدہ مجلس عمل سے مذاکرات کے ذریعے مشرف کے دور میں سترہویں ترمیم کے ذریعے جمہوریت کے فروغ اور عدلیہ کی آزادی کے اقدامات ہوتے رہے۔ ترامیم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ جماعت اسلامی ہر موقع پر ملک، عوام اور مملکت کے مقصدِ قیام کی تکمیل کے لیے نہ صرف یہ کہ بیداریٔ عوام کا اہتمام کرتی آئی ہے بلکہ میدانِ عمل میں رہ کر بھی جدوجہد کا حق ادا کرتی ہے۔
مصر، یمن، تیونس، عراق، شام اور لیبیا بھی اسلامی ممالک ہیں لیکن ہر جگہ شخصی یا جماعتی استبداد چالیس چالیس، پچاس پچاس سال رہا اور عوام اپنے ہی ملک میں اپنے ہی حکمرانوں کے ظلم کا شکار رہے، لیکن پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس میں کوئی سول یا فوجی آمریت گیارہ سال سے زیادہ نہیں رہی۔ اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد ہی دستور اور اسلامی نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا اور مقصد کے حصول کے لیے عوامی مہمات کا سلسلہ جاری رکھا، اور اصل منزل حاصل کرنے کے لیے بسا اوقات اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے ایسے اقدامات کی بھی توثیق کی جن کی آئین اور قانون میں گنجائش نہ تھی، جیسے ضیاء الحق کے دور میں ریفرنڈم میں حصہ لینا تاکہ سول گورنمنٹ بننے کا راستہ کھلے، اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ، کہ کسی طرح عوامی نمائندگی کا نظام بن سکے۔ یعنی بحران ختم کرکے خوب سے خوب تر کی طرف سفر جاری رکھنا۔