گیارہواں حصہ
سول نافرمانی کی تحریک
11 مئی کو ایم آر ڈی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ 14 اگست سے پورے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک چلائے گی جس میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کے تمام شعبوں میں عدم تعاون اور سول نافرمانی شامل ہوگی تاکہ حکومت کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردے۔ صوبہ سندھ میں اگست سے قبل ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مئی کے مہینے میں سرسری سماعت کی فوجی عدالتوں نے حکومت کے خلاف تقاریر کرنے پر سندھ کے متعدد افراد کو مختلف سزائیں سنائیں۔
26 مئی کو اصغر خان کی نظر بندی کو ار سال مکمل ہوگئے۔ 1977ء میں ان کا خیال تھا کہ مارشل لا لگنے کی صورت میں فوج نوے دن کے اندر انتخابات کراکے اقتدار عوام کے حوالے کردے گی۔
منشور مطالبات
17 جون کو ایم آر ڈی نے شریک جماعتوں کے مشورے سے اپنا منشور مطالبات مرتب کرلیا۔ 24 جون کو کراچی میں ایم آر ڈی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں بھی تحریک استقلال نے شرکت نہیں کی۔ یکم جولائی کو ایک افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے ایم آر ڈی کے کنوینر سردار شیرباز خان مزاری نے کہا کہ انتخابات کا وعدہ یاد دلانے کے لیے ۵ جولائی کو یوم سیاہ منایا جائے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اس روز پورے ملک میں کالے جھنڈے لہرائے جائیں اور وہ جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں ایم آر ڈی کا ساتھ دیں۔ کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ دو جماعتیں ۱۴ اگست کی تحریک میں شرکت سے گریز کررہی ہیں۔ واضح طور پر ان کا اشارہ تحریک استقلال اور جمعیت علماء اسلام کی جانب تھا جو ایم آر ڈی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کررہی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کے انکار کرنے پر مزاری صاحب کو کنوینر کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی۔
تحریک چلانے کا فیصلہ
12 اگست کو کراچی میں ایم آر ڈی میں شامل آٹھ سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مستقبل کے سیاسی نظام کے بارے میں صدر کے پیش کردہ خاکے پر غور کیا گیا۔ اجلاس نے اس سیاسی ڈھانچے کو مسترد کردیا۔ اجلاس نے 1973ء کے آئین کی بحالی اور اس کے تحت عام انتخابات بلاتاخیر کرانے کا مطالبہ کیا اور ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔ اس اجلاس میں جتوئی، مشیر پیش امام، معراج محمد خاں، اقبال حیدر، خواجہ خیرالدن، فتح یاب علی خان، عابد زبیری، حکیم جمال الدین، قاری شیر افضل، انور عباس نقوی، مشتاق مرزا، علائو الدین چشتی، چودھری سجاد اور ریاض الحسن شریک ہوئے۔
پی پی کی کمیٹی کے رکن ممتاز بھٹو نے کراچی میں 13اگست کو کہا کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑیں گے بلکہ غداروں کو پارٹی سے نکالیں گے، انہوں نے پھر کہا کہ تحریک شروع کرنے میں تاخیر کی گئی ہے۔
جمعیت علماء پاکستان نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ پارٹی کے حتمی فیصلے سے قبل ایم آر ڈی کی تحریک میں تعاون کریں۔
13 اگست کو غفار خاں نے کہا کہ ایم آر ڈی کی جانب سے 14 اگست سے شروع کی جانے والی تحریک قومی مفاد میں نہیں ہے۔
37 واں جشن آزادی۔ ایم آر ڈی اور ضیاء حمایت تحریک کا تصادم
پاکستان کی 36 سالہ تاریخ میں پہلی بار یوم پاکستان کے مقدس موقع پر مزار قائداعظم کے اردگرد ایک انتہائی دل خراش اور افسوس ناک صورت حال پیدا ہوگئی۔ مارشل لا دور میں وجود میں آنے والی ضیاء حمایت تحریک کے کارکن تقریباً تیس ٹرکوں اور ویگنوں پر سوار ہوکر صبح آٹھ بجے ہی مزار قائد پہنچ گئے۔ ان ٹرکوں اور گاڑیوں پر صدر ضیاء کی تصویروں والے بڑے بڑے پوسٹر چسپاں تھے۔ ان کارکنوں نے مزار کے احاطے میں اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ بعد میں جیسے ہی ایم آر ڈی کے افراد وہاں پہنچے تو ان کے اور ضیاء حمایت تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔ لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ بعض افراد چھرے لہرارہے تھے۔ اس ہڑبونگ میں قومی پرچم پیروں تلے روندے گئے دونوں گروہ ایک دوسرے پر پتھر، جوتیاں اور چپل برسا رہے تھے۔ صبح دس بجے سے ایک بجے دن تک یہ تصادم ہوتا رہا۔ ایک گروہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااللہ‘‘ کا نعرہ لگارہا تھا تو دوسرا گروہ ’’پاکستان کا مطلب کیا غنڈہ گردی اور مارشل لا‘‘ کا نعرہ بلند کررہا تھا۔
ایم آر ڈی اور ملک کی سنگین صورتِ حال
15 اگست کو قذافی مارکیٹ لاہور میں بم کا ایک دھماکہ ہوا جس میں ایک بچہ ہلاک اور دس افراد زخمی ہوگئے۔ 17دکانیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ اسی روز پشاور میں بموں کے دو زبردست دھماکے ہوئے۔ 14اگست کو ضیاء حمایت تحریک کے کارکنوں کے ساتھ تصادم کے بعد بھی ایم آر ڈی کراچی میں ریگل چوک کے مرکزی مقام پر ایک زبردست مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جس میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں۔ اسی دن لاہور، پنڈی، کوئٹہ اور سندھ کے بیشتر مقامات پر مظاہرہ کیے گئے۔ پولیس نے جتوئی، خیرالدین، معراج، عابد زبیری، ٹکاخاں، فاروق لغاری، شوکت محمود، خورشید قصوری سمیت سینکڑوں افراد اور متعدد خواتین کو گرفتار کرلیا۔
16 اگست کو ایم آر ڈی کے حامیوں نے دادو میں عدالتوں کو آگ لگادی جس سے ریکارڈ اور فرنیچر جل کر تباہ ہوگیا۔ ریل کی پڑیوں پر رکاوٹیں کھڑی کردیں، مسافر ٹرینوں پر پتھرائو کیا اور ریلوے اسٹال اکھاڑ پھینکے۔ تین بسیں نذر آتش کردیں۔ ضلع دادو کے تمام اسکول غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیے گئے۔ انتظامیہ نے گھوٹکی ریلوے اسٹیشن بند کردیا۔ سکھر، خیرپور، نواب شاہ، بدین اور دوسرے شہروں میں بھی مظاہرہ کیے گئے اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ مظاہرین نے ٹھٹھہ جیل پر یورش کی۔ پشاور، لاہور، پنڈی سے بھی مظاہروں کی خبریں آئیں۔
دادو جیل سے قیدی فرار
17 اگست کو دادو میں مظاہرین دروازہ توڑ کر جیل کے اندر داخل ہوگئے۔ جیل کا پھاٹک کھلنے سے سو قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس ہنگامے میں ای ڈی ایم اور ڈی ایس پی زخمی ہوئے اور ایک سپاہی ہلاک ہوگیا۔ مورو میں مظاہرین نے بینکوں کو آگ لگادی۔ حیدرآباد، سکھر، خیرپور، ٹنڈو محمد خان، سجاول، ٹھٹھہ، کنڈیارو، کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پنڈی میں بھی مظاہرے ہوئے اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔
بدامنی کے واقعات
19 اگست کو گھوٹکی کے قریب ریلوے لائن اکھاڑ دی گئی جس کے باعث انجن پٹری سے اتر گیا۔ 20 اگست کو ایک ہجوم نے خیرپور ناتھن شاہ میں جیل توڑنے کی کوشش کی۔ جیل کے ریکارڈ اور فرنیچر کو آگ لگادی۔ پولیس فائرنگ سے دو افراد زخمی ہوگئے۔ سٹی مجسٹریٹ کی عدالت کو آگ لگادی۔ تین ریلوے انجنوں اور ایک ٹریکٹر کو بھی نذر آتش کردیا بینک اور تھانے کو بھی نقصان پہنچایا۔ بسوں پر پتھرائو کیا۔ ہجوم نے ایک پولیس اسٹیشن پر پتھرائو کیا، سڑکوں کے بلب توڑ دیئے۔ حیدرآباد اور ٹنڈو محمد خاں میں بھی مظاہرے کیے گئے اور کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔
22 اگست کو خیرپور اور رانی پور میں متعدد سرکاری عمارتوں اور بینکوں کو آگ لگادی گئی۔ رانی پور میں پولیس فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے۔ خیرپور میں ربر کی گولی لگنے سے ایک شخص ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔ لیاقت میڈیکل کالج کے نزدیک ایک بینک اور پٹرول پمپ کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔
24 اگست کو شہداد کوٹ کے ریلوے اسٹیشن پر حملہ کرکے اس کے کاغذات اور سامان کو آگ لگادی۔ دیگر عمارتوں پر بھی پتھرائو کیا گیا۔ کراچی میں بھی ہنگامے ہوئے ہجوم نے پولیس پر پتھرائو کیا مختلف شہروں میں کارکنان گرفتار کیے گئے۔
وکلاء کنونشن
30 اگست کو لاہور میں وکلاء کا ایک نمائندہ کنونشن منعقد ہوا جس میں وکلاء کی جانب سے 3 ستمبر کو پورے ملک میں احتجاجی جلسے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کنونشن نے نئے سیاسی ڈھانچے کو مسترد کردیا اور بھارتی حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
تحریکِ بحالی جمہوریت
3 ستمبر کو مورو میں مسلح ہجوم کے ساتھ تصادم میں چار پولیس والے ہلاک اور سپرنٹنڈنٹ پولیس زخمی ہوگئے۔ مورو میں حفاظتی انتظامات فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ گھوٹکی میں ہجوم نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ سرسری سماعت کی فوجی عدالتوں نے حیدرآباد، ٹھٹھو، نواب شاہ اور دیگر مقامات پر مختلف افراد کو قید اور کوڑوں کی سزائیں سنائیں۔
4 ستمبر کو سجاول شہر میں جلوس نکالا گیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس استعمال کی اور مختلف افراد کو گرفتار کرلیا۔ کراچی اور دوسرے شہروں میں بھی گرفتاریاں پیش کی گئیں۔
5 ستمبر کو بیگم مزاری نے گورنر سندھ کو بذریعہ تار مطلع کیا کہ سردار مزاری کو جو نظر بند ہیں، ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور انہیں طبی امداد مہیا نہیں کی گئی۔
8 ستمبر کو کنڈیارو میں جلوس نکالا گیا اور گرفتاریاں پیش کی گئیں۔ قاضی احمد میں ہڑتال کی گئی اور جلوس نکالا گیا۔ مظاہرین نے نیشنل بینک کی عمارت پر پتھرائو کیا۔ نوشہرو فیروز میں عورتوں اور مردوں پر مشتمل جلوس نے ایک گھنٹے تک قومی شاہراہ کو بند رکھا اور گرفتاریاں پیش کیں۔ مورو میں بھی مکمل ہڑتال رہی۔
10 ستمبر کو خضدار جیل سے آٹھ قیدی فرار ہوگئے۔ چار افراد جو ایک جیپ میں سوار تھے ڈسٹرکٹ جیل کے احاطے میں داخل ہوئے۔ محافظوں کو قابو میں کیا اور آٹھ قیدیوں کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہوگئے۔
12 ستمبر کو خیرپور ناتھن شاہ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ مظاہرین سے بھری ہوئی بسیں شہر میں داخل ہورہی تھیں۔ پولیس نے انہیں شہر میں داخل ہونے سے روکا۔ اس طرح پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوگیا جس میں پانچ افراد لقمہ اجل بن گئے۔
13 ستمبر کو لاہور شہر میں الفلاح بلڈنگ کے نزدیک بم کا ایک زبردست دھماکہ ہوا، دھماکے سے عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ مختلف کاروں کو نقصان پہنچا۔ کئی افراد زخمی ہوگئے جن میں ایک شدید زخمی تھا۔ بم ایک کار کے نیچے رکھا گیا تھا۔ دوسرے روز بھی لاہور میں میکلود روڈ پر بم کا دوسرا دھماکہ ہوا جس میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔
20 ستمبر کو قاضی احمد میں مسلح ہجوم نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کردیا۔ 27 ستمبر کو کوئٹہ ایکسپریس پر شکارپور کے قریب فائرنگ کی گئی۔
20 ستمبر کو جتوئی، خواجہ خیرالدین معراج محمد خان اور خلیق الزماں کو گھارو ریسٹ ہائوس سے کراچی سنٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ اس کے بعد عابد زبیری، معراج محمد خان، فتحیاب، نفیس صدیقی، احمد علی سومرو، قاری شیر افضل، موسیٰ لاشاری، رحیم بلوچ، انور عباس نقوی، علی مختار نقوی اور چودھری کامران سمیت 15 سیاسی قیدی کراچی سے اندرون سندھ منتقل کیے گئے اس پر بعض حلقوں میں یہ قیاس آرائی کی گئی کہ ہوسکتا ہے کہ حکومت ایم آر ڈی کے بعض رہنمائوں سے کوئی بات چیت کرنے کا ارادہ کررہی ہو۔
26 ستمبر کو ولی خان اسلام آباد ائرپورٹ پر گرفتار کرلیے گئے۔ وہ لندن سے پہنچے تھے۔ پولیس ان کی گرفتاری کے لیے پہلے ہی سے بڑی تعداد میں موجود تھی۔
جمعیت علماء پاکستان کا الٹی میٹم
27 ستمبر کو لاہور میں مولانا عبدالستار خاں نیازی نے کہا کہ جمعیت کی جانب سے نظام مصطفیؐ کے نفاذ کے لیے حکومت کو دیا گیا راست اقدام کا نوٹس برقرار ہے۔ اگر 30 ستمبر سے قبل حکومت کی جانب سے جمعیت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو یکم اکتوبر سے راست اقدام کے پروگرام پر عمل شروع ہوجائے گا۔
ایم آر ڈی کی تحریک اور ہلاکتیں
5 اکتوبر کو کوئٹہ میں ایک ہجوم کی اندھا دھند فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور ایک سب انسپکٹر سمیت سات افراد زخمی ہوگئے۔ نواب شاہ میں ایک احتجاجی جلوس اور پولیس کے درمیان تصادم میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ مظاہرین نے مورو باندھی روڈ ٹریفک کے لیے بند کردی۔ روہڑی میں ایک پسنجر ٹرین پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص زخمی ہوگیا۔ میرپور بٹھورو میں ہجوم اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلہ کی وجہ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ 5 اکتوبر کو امرکوٹ جیل سے گیارہ قیدی فرار ہوگئے۔ 25 اکتوبر کو لاہور میں بم دھماکے میں دو افراد ہلاک اور اٹھارہ شدید زخمی ہوگئے۔ یہ دھماکہ بھاٹی چوک پر سات بجے شام ہوا۔ اکتوبر کا پورا مہینہ گزر گیا لیکن حکومت نے جمعیت علماء پاکستان سے مذاکرات نہیں کیے۔ مولانا نورانی نے کراچی میں اپنے کارکنوں کو بتایا کہ مذاکرات کی دعوت پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے یکم نومبر سے نظامِ مصطفیؐ کے نفاذ کے لیے جدوجہد کا آغاز ہوجائے گا۔
10 اکتوبر کو شیرباز مزاری کو ملتان جیل سے رہا کرکے انہیں ان کے گھر کراچی میں نظر بند کردیا گیا اور ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ نصر اللہ خاں کی نظر بندی میں مزید تین ماہ کی توسیع کردی گئی۔
6 نومبر کو سکھر جیل میں قیدیوں کی ہنگامہ آرائی اور پتھرائو کے باعث دو وارڈن زخمی ہوگئے۔ قیدیوں نے بیرکوں کے دروازے اور دیواروں توڑ دیں اور بیرکوں سے باہر نکل آئے۔ انہوں نے جیل کے اندر فیکٹری کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی تھی۔ سکھر جیل کے قیدیوں میں تحریک کے ضمن میں گرفتار شدگان کی ایک خاصی بڑی تعداد شامل تھی۔ انہیں جیل کے عملے سے شکایات تھیں۔ 1984ء کی ابتداء میں ایم آر ڈی نے اپنا ایجی ٹیشن بغیر کسی اعلان کے خاموشی کے ساتھ ختم کردیا۔ تحریک کی اس پسپائی نے سیاسی حلقوں کے حوصلے پست کردیے۔ صدر ضیاء کے لیے اب پورا میدان صاف اور ہموار تھا۔ اقتدار ان کے ہاتھوں میں مرتکز بھی تھا اور محفوظ بھی۔
ایڈیٹروں سے خطاب
یکم جنوری 1984ء کو صدر نے قومی اخبارات کے ایڈیٹروں سے اسلام آباد میں ایک ملاقات کی اور ان سے تعاون کی اپیل کی۔ انہیں یقین دلایا کہ اگر اخبارات ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں تو حکومت پریس آرڈی نینس منسوخ کردے گی۔ انتخابات کے لیے ضروری کاموں کی تکمیل کے لیے وقت درکار ہے۔ ہم ان کو جلد مکمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہرحال یہ 12 اگست کو اعلان کردہ پروگرام کے مطابق ہوں گے۔ جماعتی یا غیرجماعتی انتخابات کا فیصلہ بھی جلد کردیا جائے گا۔ انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ عوام پہ تشنگی محسوس کررہے ہیں کہ میں جلسے اور جلوس نہیں کرتا، انہیں شکوہ ہے کہ میں ملتان میں بس اپنی ایک جھلک دکھا کر غائب ہوگیا۔
علماء کنونشن 1984ء
5 جنوری کو صدر نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے علماء کنونشن کی صدارت کی۔ وہ تقریباً دس گھنٹے اجلاس میں موجود رہے، علماء کی تقاریر غور سے سنتے رہے اور ضروری نوٹس لیتے رہے جبکہ کئی شرکاء تھک کر اونگھ کا بھی شکار ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ میں اسلام کا ادنیٰ خادم اور گنہگار ہوں دوران اجلاس اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر تنزیل الرحمن کے جذبے ایثار اور محنت کی تعریف کی لیکن ان کی اس شکایت پر اپنی برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں کونسل کی سفارشات کو نظرانداز کررہی ہے اور تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ کنونشن میں شامل علماء نے کہا کہ مالیاتی اداروں سے سود کے خاتمے کے سرکاری دعوے حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ کنونشن نے حکومت سے سفارش کی کہ جون ۱۹۸۴ء تک سودی نظام ختم کردیا جائے۔
اسلامی سربراہ کانفرنس
کانفرنس میں شرکت کے لیے مراکش روانگی سے قبل 13 جنوری کو اسلام آباد میں کہا کہ نظر بند سیاسی رہنمائوں کو رہا کرنے کی انہیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ ان کی نظر بندی اس لیے نہیں ہے کہ انہوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ وہ اپنے گھروں میں آرام کرسکیں اور کچھ بہتر باتیں سوچ سکیں۔
کیسابلانکا میں چوتھی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم ممالک کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ عالم اسلام کو تعلیمات مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر متحد اور مستحکم کیا جائے۔ مسلمانوں کا صرف اور صرف ایک نظریہ ہے اور وہ ہے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نظریہ۔ مجھے مظلوم اقوام سے محبت ہے۔ دس مرتبہ بھی اگر مجھے زندگی ملے تو ہر مرتبہ مظلوم قوموں کی حمایت میں لڑتا رہوں گا اور اپنی جان قربان کرتا رہوں گا۔
صدر کی اس تقریر کو مندوبین نے بے حد سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ صدر نے کہا کہ میری تقریر دراصل اسلام سے میری سچی عقیدت اور تڑپ کے باعث دلوں میں اترگئی۔ ورنہ نہ تو میں فن خطابت سے واقف ہوں اور نہ ہی مجھے عالم اسلام کی ترجمانی کا دعویٰ ہے۔
طلبہ تنظیموں پر پابندی
30 جنوری 1984ء کو ضیاء الحق نے مارشل لا کا ایک ضابطہ جاری کیا جس کی رو سے اسلام آباد کے علاقے میں تمام تعلیمی اداروں کی طلبہ یونینوں پر فوری طور پر پابندی عائد کردی گئی اور ان کے فنڈز ضبط کرلیے گئے۔ اسلام آباد یونیورسٹی کے طلبہ اپنے ان ساتھیوں کے دوبارہ داخلے کا مطالبہ کررہے تھے جن کا یونیورسٹی سے اخراج کردیا تھا۔ اس کے بعد پورے صوبہ پنجاب میں تمام طلبہ یونینوں اور تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی۔ 11 فروری 1984ء کو یہی اقدام تمام صوبہ سندھ میں اٹھایا گیا۔ ان کے بھی دفاتر سربمہر کردیے گئے۔ موجود سامان ضبط کرلیا گیا اور ان کے بنک اکاؤنٹ منجمد اور فنڈز ضبط کرلیے گئے۔ اس سے پہلے اپریل 1983ء میں صوبہ سرحد میںطلبہ یونینوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ صوبے یا کسی اور صوبے میں اس کے خلاف کوئی موثر آواز نہ اٹھی تو موقع ملتے ہی یہ اقدام بھی اٹھالیا گیا کیونکہ طلبہ تنظیموں پر ضیاء الحق انتظامیہ برسوں سے پابندی لگانے کا ارادہ کیے ہوئے تھی لیکن 1977ء اور 1979ء میں یہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکی تھیں۔
اس پابندی کے خلاف پشاور میں، پنجاب یونیورسٹی اور کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں طلبہغ نے شدید احتجاجی مظاہرے کیے۔ پولیس نے ہر جگہ شدید لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس استعمال کی اور طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا پولیس کے تشدد سے تقریبا سو طلبہ زخمی ہوگئے۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔
کوٹہ سسٹم
سندھی ادبی میلہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم مزید دس سال کے لیے برقرار رہے گا۔ گورنر عباسی نے بھی بعد میں یہی کہا کہ کراچی یا سندھ کی شہری آبادی کے کوٹے میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ نظام من و عن مزید دس سال کے لیے بڑھادیا گیا ہے۔ شہری اور دیہی آباد کے لیے کوٹے کی شرح چالیس اور ساٹھ فیصد ہے۔
استقبالیہ
9 اپریل کو کراچی میں موتمر عالم اسلامی نے صدر کے اعزاز میں دیے جانے والے ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا جو انہیں ۱۷ جنوری کو کیسابلانکا میں چوتھی اسلامی سربراہی کانفرنس میں کی جانے والی تاریخی تقریر پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تھا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ضیاء نے کہا کہ میں اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں کوئی ریفرنڈم نہیں کرائوں گا۔ انتخابات میں امیدوار نہیں بنوں گا۔ عہدوں کے طلب گار منافق ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)