پیپلزپارٹی نے اپنے پچاسویں یوم تاسیس پر لاہور کے بجائے اسلام آباد میں مرکزی جلسہ کیا، جب کہ پارٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی تھی۔ پنجاب میں جلسہ اس لیے نہیں رکھا گیا کہ سب کچھ افشاء ہوجانے کا خوف تھا، تاہم اسلام آباد کا جلسہ بھی یہ راز فاش کرگیا ہے کہ پارٹی ابھی تک سیاسی لحاظ سے انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے باہر نہیں نکلی۔ بلاول بھٹو زرداری کی نگرانی میں دستیاب آکسیجن کے سلنڈر بھی اس کے کام نہیں آرہے۔ پیپلزپارٹی کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آصف علی زرداری کے ہوتے ہوئے بلاول لاکھ کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بلاول خود بھٹو اور زرداری کی تقسیم سے باہر نکلیں اور برملا اور پورے سچ کے ساتھ بلا خوف اس بات کا اعلان کریں کہ آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی گرفتاری میں ناکام رہے ہیں، پارٹی ان کی وجہ سے کرپشن میں مبتلا رہی ہے اور اب ان کا بوجھ اتار کر نئے خون، نئے عزم اور نئی لیڈرشپ کے ساتھ پارٹی کو چلایا جائے گا۔ بلاول کے اس اعلان کے بعد ہی پارٹی کی سیاسی بقا کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ اسلام آباد کے جلسے میں پارٹی قیادت اور بلاول بھٹو زرداری نے بے نظیر بھٹو (جن کی برسی تین ہفتے کے بعد ہے) کے قتل کیس پر ایک بھی لفظ نہیں بولا۔ یوم تاسیس پر یہی کافی سمجھ لیا گیا کہ کارکن اسلام آباد میں جمع کیے جائیں تو پارٹی زندہ ہوجائے گی، اسی لیے اسلام آباد میں پارٹی کے جلسے کے لیے ملک بھر سے کارکن جمع کیے گئے، اور سندھ کی حاضری سب سے زیادہ تھی۔ سندھ کے بعد قابلِ ذکر حاضری آزاد کشمیر سے ہوئی۔ باقی مقامات سے چھوٹی چھوٹی ویگنوں اور کیری ڈبوں میں لوگ لائے گئے۔ جلسہ گاہ کے باہر بڑی بسیں کہاں تھیں کوئی علم نہیں۔ جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے حلقوں سے حاضری پر پارٹی رہنمائوں کی گرفت نہیں ہوگی تو انتخابات میں پارٹی کو جو نتائج ملیں گے اس کا اندازہ پارٹی کی مرکزی قیادت کو اس جلسے سے ہی کرلینا چاہیے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی مقامی قیادت جلسے کے لیے لوگوں کی بھرپور شرکت یقینی بنانے میں بری طرح بلکہ بدترین حد تک ناکام رہی، حالانکہ اسلام آباد میں انہیں علم ہے کہ مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اس کی سخت حریف سیاسی جماعتیں ہیں، اور یہ تینوں جماعتیں پیپلزپارٹی سے کہیں زیادہ اپنی اپنی حد تک بہت متحرک ہیں۔
اس جلسے کے اخراجات کا ایک بہت بڑا بوجھ نواز کھوکھر کے خاندان نے برداشت کیا۔ دیگر مقامی رہنما ’’شرکت‘‘ کی حد تک جلسے میں شریک ہوئے۔نواز کھوکھر اگرچہ پیپلزپارٹی کے بانی کارکنوں میں شامل ہیں تاہم اُن کا سیاسی سفر مسلم لیگ کے ساتھ بھی رہا۔ آج کل اپنے کاروبار پر توجہ دے رہے ہیں۔ اپنے صاحب زادے مصطفی نواز کھوکھر کے لیے وہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی مالی خدمات اپنے صاحب زادے مصطفی نواز کھوکھر کے لیے ہی ہیں۔ پارٹی کے وقتی قائدین فیصل سخی بٹ اور دیگر بہت کم متحرک رہے۔
یہ جلسہ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری کی ایک بڑی لانچنگ کا ذریعہ تھا لیکن جلسے میں آصف علی زرداری نے اسٹیج اپنے کنٹرول میں رکھا اور عارف لوہار کے گیت پر اسٹیج پر دھمال ڈال کر بلاول بھٹو زرداری کو ایک بار پھر پس منظر میں کردیا۔ بلاول بھٹو کو پس منظر میں رکھ کر آصف علی زرداری نے جلسے میں عملاً پارٹی کی قیادت اپنے بیٹے کے سپرد کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ ’’میں بلاول کو آپ کے سپرد کررہا ہوں‘‘۔ جلسے میں پیپلز پارٹی کے دیگر اہم رہنمائوں سید خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، یوسف رضا گیلانی،راجا پرویز اشرف نے بھی تقاریر کیں، مگر ان رہنمائوں نے اپنی تقاریر میں صرف پیپلز پارٹی کی 50 سالہ جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ صرف آصف علی زرداری نے اپنے محدود ویژن کے ساتھ پالیسی لائن دی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پالیسی گائیڈ لائن دے کر ملکی سیاست کے خاکے میں رنگ بھرنے والوں کو بھی پیغام دیا کہ ’’جب بھی پارٹی سے بات کرنا ہوگی تو بات انہی سے کرنا پڑے گی‘‘۔ اسی لیے وہ نوازشریف پر خوب برسے اور عندیہ دیا کہ پارٹی اس خصوصی کوشش کا بھی ساتھ دے سکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کسی نگران حکومت سے پہلے ہی میدان چھوڑ دے۔ یہ بہت اہم بات کی گئی ہے، حالانکہ پارٹی کا سیاسی بیانیہ کچھ اور ہے اور وہ بار بار کہتی رہی ہے کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے، اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ پرویزمشرف پر بھروسا نہ کیا جائے، اور اس خوف کا بھی اظہار کیا کہ وہ سیاست بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آصف علی زرداری نے کارکنوں کو بھی ایک پیغام دیا کہ ’’ امید ہے میرے جانے کے بعد کارکن میرے بچوں سے بھی وفا کریں گے۔ آپ اتنی ہی وفا کریں گے جتنی بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ کرتے تھے‘‘۔
پارٹی کے جلسے میں پارٹی کی پالیسی گائیڈ لائن آصف علی زرداری نے دی اور افغانستان اور بھارت کے لیے وہی زبان بولی جو اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ اس موضوع پر اظہارِ خیال کرکے اسٹیبلشمنٹ اور ساتھ ہی عدلیہ کا بھی اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ججوں کو کچھ نہیں کہنا چاہتے، اور اس بات کی حمایت کی کہ پارلیمنٹرینز کا احتساب ہونا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں افسانوی رنگ زیادہ تھا۔ ان کی لکھی ہوئی تقریر میں وہی پرانے جملے ’’نصف صدی کے سفر میں میرِ کارواں کن کن صحرائوں سے گزرا، مشکلات کے باوجود قافلہ منزل کی جانب رواں دواں رہا، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد پر قائدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جب جب ملک میں آمریت مسلط کی گئی تب تب پی پی نے علم بغاوت بلند کیا۔ یہ تیسری نسل ہے جو علَم تھامے جدوجہد کے میدان میں سرگرم ہے۔ بھٹو تیرا قافلہ رکا نہیں، تھما نہیں… بی بی تیرا قافلہ رکا نہیں، تھما نہیں۔ ریاستی اداروں کے وسائل پر طاقتور طبقات کا استحقاق تھا۔ 1971ء کے بعد جب بچا کھچا پاکستان نہ سنبھالا گیا تو ملک کو بھٹو کے حوالے کردیا گیا۔ بھٹو دور میں غیر ملکی ترسیلات ملنا شروع ہوئیں، بھٹو شہید نے پاکستانی ریاست کو جمہوری، آئینی بنیادوں پر قائم کیا، بھٹو شہید نے پاکستان کو جمہوری اور پارلیمانی روایات پر ڈالا، بھٹو شہید نے اقتدار سنبھالتے ہی 90 ہزار جنگی قیدی رہا کرائے، بھٹو شہید نے اس ملک کو متفقہ آئین دیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا اور میں نے ’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ کہا۔ سندھ میں ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں۔ سندھ میں صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
اگرچہ بلاول کو جلسوں میں خطاب کا بہت موقع مل چکا ہے، وہ پارٹی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں، معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی اتالیق انہیں ابھی تک مقرر نہیں بنا سکے۔ انہوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر کے سہارے چھے نکاتی عوامی ایجنڈے کا اعلان کیا اور کہا کہ فیض آباد میںختم ہونے والی ریاستی رٹ کو پیپلزپارٹی بحال کرے گی، جمہوریت کے بغیر وفاق قائم نہیں رہ سکتا، استحصالی قوتوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کرتے ہوئے پاکستان کو حقیقی جمہوری ملک بنائیں گے، دہشت گردی اورانتہاپسندی سے پاک سماج قائم کریں گے، عدلیہ، پولیس اور سول سروس میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ ان کی تقریر میں کسانوں، طلبہ، مزدوروں، خواتین اور نوجوان نسل کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ان کی تقریر جس نے بھی لکھی اُس نے تمام حالات اور موضوعات کا احاطہ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے 50 ویں یوم تاسیس کے موقع پر اگلے پچاس سال کا ویژن دینا چاہیے تھا کہ اگلے پچاس برسوں میں اس خطہ اور دنیا میں کیا تبدیلیاں آنے والی ہیں اور پارٹی ان کے حوالے سے کیا پروگرام رکھتی ہے۔ مگر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تقریر میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس جلسے پر مختصر اور جامع تبصرہ یہی ہے کہ پارٹی قیادت اور کارکنوں نے پریڈ گرائونڈ میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا، دھمال ڈالا اور تفریح کا خوب سامان کیا۔