امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس4 دسمبر کو امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو نئی ہدایات دے کر واپس چلے گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں نئی امریکی حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستان کے حوالے سے امریکی وزیر دفاع کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بھی پاکستان کی سیاسی قیادت سے مل کر واپس جا چکے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے دوروں میں فرق یہ ہے کہ ریکس ٹلرسن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اس طرح اعتماد حاصل نہیں ہے جس طرح جیمز میٹس کو حاصل ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست2017ء میں اپنی نئی افغانستان پالیسی کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان کو کھلی دھمکیاں دی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں تقریباً سارے محاذ کھول دیے ہیں اور جارحانہ تکبر کے ساتھ تقریباً اپنے ہر فریق کو طاقت کے بل پر زیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس حوالے سے عالمِ اسلام اور پاکستان بھی ان کی نفرت انگیز نظروں کا ہدف ہے۔ افغانستان کی جنگ امریکی جنگی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے۔ امریکہ نے اس جنگ میں اسلحہ اور جاسوسی ٹیکنالوجی سمیت ہر اسلحہ کو استعمال کیا ہے۔ امریکی دعویٰ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ امریکی ٹیکنالوجیکل اور انسانی جاسوسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن16برس سے زائد عرصے سے افغانستان پر قابض ہونے کے باوجود افغانستان کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے افغان طالبان کو امریکہ شکست نہیں دے سکا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجی قیادت کے مؤقف سے اتفاق کیا ہے جس کے مطابق افغانستان میں مزید طاقت استعمال کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے بارک اوباما کے برعکس افغانستان میں فوجی موجودگی میں توسیع کا فیصلہ کیا اور فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ موجودہ امریکی حکومت سمیت سابق امریکی حکومت اور اس کے اہلکار افغانستان میں امریکہ کی فوجی شکست کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے رہے ہیں۔ اس جنگ نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی پیچیدگی کو نمایاں کردیا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے ’’ڈومور‘‘ کی اصطلاح معروف ہوچکی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد امریکہ کی جانب سے ’’ڈو مور‘‘ کا حکم دیا جاتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے دورے کے حوالے سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ ماضی کی طرح جیمزمیٹس بھی ’’ڈو مور‘‘ کا پیغام لے کر آئے ہیں، اور اس کے جواب میں ہماری قیادت کی جانب سے ’’نومور‘‘ کا پیغام دیاگیا ہے۔ لیکن حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ اب بات ڈومور سے آگے بڑھ گئی ہے۔ امریکی وزیر دفاع کے دورۂ پاکستان سے قبل سی آئی اے کے ڈائریکٹر پومپو اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر نے پاکستان کو خطرناک انجام کی دھمکی دی تھی۔ اس کے ساتھ افغانستان میں ناٹو کی قیادت میں موجود امریکی جنرل جان نکلسن نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان شوریٰ کی حمایت ختم نہیں کی ہے۔ اس پس منظر میں امریکی وزیر دفاع اور پاکستان کے درمیان اصل بات اورگفتگو عسکری قیادت کے ساتھ ہوئی ہے۔ اس بات کو بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ افغانستان میں ’’بموں کی ماں‘‘ کا تجربہ کرچکا ہے جو اصل میں پاکستان کے لیے دھمکی ہے۔ امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس جو اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے قابلِ اعتماد مشیروں میں شامل ہیں اور امریکی جنگی پالیسی سازی میں قائدانہ اور فیصلہ کن رول رکھتے ہیں وہ بھی افغانستان میں امریکی فوج کی قیادت کرچکے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع نے دورۂ پاکستان میں دو ملاقاتیں کی ہیں، پہلی ملاقات وزیراعظم کی قیادت میں ایک وفد کے ساتھ ہوئی جس میں وزرائے دفاع، خارجہ، داخلہ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور مشیر قومی سلامتی شریک تھے۔ جبکہ اصل ملاقات پاکستان کی عسکری قیادت یعنی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہوئی۔ عسکری ترجمان کے مطابق فوجی قیادت کی جانب سے امریکی وزیر دفاع کو یہ پیغام دیاگیا ہے کہ ہم نے پاکستان میں دہشت گردی کے تمام محفوظ ٹھکانے ختم کردیے ہیں۔ اب امریکہ کی ذمے داری ہے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے۔ کیا امریکی قیادت نے اس پیغام کو قبول کرلیا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکی صرف حکم دینا جانتے ہیں۔ امریکہ نے سرِعام اپنی بات کہنے سے ضرور گریز کیا ہے لیکن حقائق جس طرف اشارے کررہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ خطرناک دھمکیوں کے ساتھ امریکی قیادت پاکستان کو پیغام دے کر جاچکی ہے۔ ساری خرابیوں کی جڑ اس فیصلے میں ہے جس کے تحت سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف نے امریکی حکم پر نام نہاد وار آن ٹیرر کا حصہ بن کر پاکستان کی آزادی و خودمختاری سے دست برداری اختیار کرلی تھی۔ بہ ظاہر یہ بات کی جاتی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے، لیکن حقائق نے ثابت کردیا ہے کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ نہ ملتا۔ یہ جنگ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کا سبب بنی ہے اور اس کی ذمے داری امریکی خفیہ ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی غلامی نے آج پاکستان کی قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔