سندھی تحریر: طیب لاکھو؍ترجمہ: اسامہ تنولی
’’سندھ میں اس وقت قوم پرستی پر مبنی سیاست پس منظر میں جاچکی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ انقلابی رومانس بھی رخصت ہوگیا ہے جو گزشتہ ایک عرصے سے سندھ کی قومی تحریک کی شناخت بن چکا تھا۔ ایک دور وہ تھا جب سندھ کے اندر قوم پرستی اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھی اور سارا سندھ قومی تحریک کے سائے تلے یکجا ہوچکا تھا۔ ون یونٹ کا معاملہ ہو یا سندھی بولی کی بہ حیثیت قومی بولی کا مسئلہ درپیش ہو، یا سندھ میں ووٹر لسٹیں چھپوانے کی بات ہو، یا پھر 1973ء کا بدترین آئین ہو… سندھی قوم اس دور میں قوم پرست تحاریک کی پکار پر اکٹھی ہوجایا کرتی تھی۔ لیکن آج سندھ ان مسائل سے بھی کئی گنا زیادہ گمبھیر اور پریشان کن مسائل سے دوچار ہے لیکن کسی بھی قوم پرست پارٹی میں ایسی عوامی مقبولیت ہے ہی نہیں کہ وہ ہزاروں سندھیوں کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے۔ اگر اس (سابقہ) دور کا جائزہ لیا جائے تو سندھ کی قوم پرست تحریک کے ابھار، جمہوری تحاریک کی کامیابی اور قوم پرست سیاست کی ناکامیوں سمیت سندھ کی تاریخ کے بے شمار خفتہ مسائل آشکارا ہوجائیں گے۔ آخر کیا بات تھی کہ اُس دور میں ذرائع اور روابط کی کمی کے باوجود سارا سندھ باہم یکجا اور ملا ہوا تھا، لیکن آج جب جدید مواصلاتی نظام کے ذریعے بلا تاخیر کوئی بھی خبر یا مسئلہ سندھ بھر میں پھیل جاتا ہے، اس پر کسی نوع کا کوئی مؤثر ردعمل ظاہر نہیں ہوپاتا۔ جس دور میں سندھ کے اندر قوم پرست تحریک اپنے عروج پر تھی تو اس میں سب سے زیادہ کردار بھی سندھ کے نوجوان پڑھے لکھے طلبہ کا ہوا کرتا تھا، اور طلبہ سیاست اُس وقت کی قوم پرست تحریک اور سیاست کی ایک پہچان اور شناخت بنی ہوئی تھی۔ کیوں کہ جب بھی سندھ کے قومی مسائل کی بات سامنے آئی تو نوجوانوں نے ان کے حل کے لیے قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحاریک زور و شور سے جاری تھیں اور ساری دنیا کے اندر قومی جمہوری انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہورہے تھے۔ سندھ کی طلبہ سیاست جو سندھی قوم کے لیے امید کے ایک چراغ کی مانند تھی، وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات اور انتشار کا شکار ہوتی چلی گئی۔ جو تحریک 4 مارچ اور ٹھوڑی پھاٹک کے نام پر قوم کو اپنا سرخ لہو پیش کررہی تھی، اسی تحریک کے نام پر بعد میں بالآخر سندھ کے تعلیمی اداروں میں اپنوں نے ہی اپنوں کا خون بہانا شروع کردیا۔ جن کمروں میں قبل ازیں مارکس، اینجلز، مائو، ہوچی منہ اور جی ایم سید کی کتابیں رکھی ہوئی ملا کرتی تھیں وہاں پر ہتھیاروں کی نحوست نے ڈیرے جمانے شروع کردیے، اور اب صورتِ حال یہ ہوگئی کہ سامراج سے لڑنے کے عزائم کے دعویداروں نے باہم ایک دوسرے ہی کے گریبانوں کو چاک کرنا شروع کردیا۔ سندھ کے تعلیمی ادارے جو پہلے انقلاب اور سامراج دشمنی کے نعروں سے گونجا کرتے تھے وہاں اب گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ سندھ کے وہ تعلیمی ادارے اور درس گاہیں جو تعلیم یافتہ اور نظریاتی رہنمائوں کو پیدا اور تیار کیا کرتی تھیں وہاں اب ایسے بے لگام اور شتر بے مہار کے مصداق لڑکے جنم لینے لگے جو آگے چل کر قومی سیاست کی موت ثابت ہوئے۔ اور اس طرح سے وقت کے بڑے بڑے بت ریت کی دیوار ثابت ہوکر نیچے زمین پر آن گرے۔
سندھ کی طلبہ سیاست کا وہ ایک شاندار دور تھا جس پر ماضی کے وہ شاگرد رہنما آج بھی فخر محسوس کریں گے جو اب ان عظیم نعروں اور نظریات سے دھوکا کرکے انہی حلقوں اور گروہوں سے جاملے ہیں جن کے ساتھ اُس دور میں وہ ساتھ بیٹھنا بھی غداری سمجھا کرتے تھے۔ آزادی اور انقلاب کے دل فریب نعرے جو ان کے جوان دل اور دماغ کو گرمایا کرتے تھے وہ نعرے اب کہیں کتابوں میں جاکر دفن ہوگئے ہیں۔ آخر ایسے کون سے اسباب تھے کہ اتنی بڑی منظم تحریک اتنی جلدی منہدم ہوگئی اور ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی؟ جس تحریک کے بھروسے پر ہم آزادی حاصل کرنے نکلے تھے اور انہوں نے نوجوانوں کو انقلاب اور آزادی کا ایندھن بنا ڈالا تھا۔ لیکن اس کے نتائج بہتر برآمد نہیں ہوسکے اور قربانیاں دینے والی اس نسل کے ہاتھ ماسوائے دربدری، ذلت و رسوائی اور ٹھوکروں کے کچھ بھی نہیں آسکا۔ لیکن جن کے پاس یہی نظریات کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ تھے وہ افراد پاور پالیٹکس کی بہتی گنگا میں جاکر اشنان کرنے میں لگ گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اَن گنت روپ ظاہر ہونے لگے۔ آج اگر ان حضرات کے کردار پر بات کی جائے تو شاید انہیں اپنا منہ چھپانے کے لیے بھی جگہ میسر نہ ہوسکے گی، لیکن اس کے باوجود یہ افراد اپنے ماضی کے سابقہ کردار کے نام پر قوم سے لوٹ مار کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ آج بھی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
اس وقت سندھ اور اہلِ سندھ بے شمار مسائل میں مبتلا ہیں۔ سندھ حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے حصول کا ایک اہم ذریعہ اور کارڈ بنا ہوا ہے۔ گویا سندھ ایک ایسی قیمتی شے ہے جسے ہر ایک سرِعام بازار میں بڑے نرخ پر نیلام کرنے میں لگا ہوا ہے۔ قوم پرست تحریک کی ناکامی اور حکمران طبقے کی غداری کے باعث ہمیں بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ دانشور، ادیب، صحافی اور مؤثر افراد قوم کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے حکمرانوں کے غلام اور اُن کے طوطے بن کر انہی کے مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں اور اپنے آقائوں کی بولی بولنے میں لگے ہوئے ہیں۔ صحافی حضرات اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈال کر جاگیرداروں اور وڈیروں کے در کے چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ مڈل کلاس طبقہ اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ موقع پرستی کے مزے لوٹ رہا ہے اور ہر ابھرنے والے سورج کے ساتھ ہی اس کے مفادات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اسے اپنے معاشی مفادات کی تو خوب خبر ہے لیکن سندھ کے سیاسی مفادات سے وہ کوسوں دور کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سندھ میں اس وقت وہ طبقہ جس نے ماضی میں قربانیاں دیں اور اپنی جوانیاں سندھ کے روشن مستقبل کے لیے تباہ کرڈالیں اس پر پابندیاں مسلط کرکے آج تاریخ کی بند گلی میں لاکھڑا کردیا گیا ہے۔ طلبہ سیاست کے ماضی میں ادا کیے گئے کردار، غلطیوں، کمیوں، کوتاہیوں اور کامیابیوں کو چھان پھٹک کر تنقیدی نقطہ نظر سے پرکھنے اور ازسرنو اس کے کردار کے تعین کی آج اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ سندھ کو یہی طبقہ اپنی تمام تر سچائیوں، قربانیوں اور جدوجہد کے ساتھ دوبارہ ایک نئی منزل تک لے جاسکتا ہے۔ لیکن جب تک ہم اپنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کریں گے اور طلبہ سیاست کی ناکامی کے تمام پہلوئوں کا بنظرِ غائر جائزہ نہیں لیں گے اُس وقت تک یہی سیاسی انتشار ہمارا دامن پکڑے رکھے گا اور ہماری امیدیں بارآور ثابت نہیں ہوپائیں گی۔‘‘