عشقِ رسول ﷺ کے تقاضے

عبدالغفار عزیز
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو یا خاتون کو نہیں مارا تھا، بلکہ آپؐ نے میدانِ جہاد کے سوا کبھی کسی کو نہیں مارا۔ اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑا ہو اور آپؐ نے دونوں میں سے آسان تر کو پسند نہ کیا ہو، اِلاّ یہ کہ اس میں اللہ کی ناراضی کا کوئی پہلو ہو۔ اگر کسی کام میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا، تو آپؐ اس کام سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ آپؐ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگر اللہ کی حدیں پامال ہورہی ہوتیں، تو پھر آپؐ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، حدیث 1984)
ربیع الاول میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت و عقیدت نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ عشق و احترامِ نبیؐ کے روشن تر ان لمحات میں، سیرتِ اطہر کا مطالعہ ایمان میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تین اہم صفات و عادات ہر امتی کو دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ آپؐ نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی، میدانِ جہاد کے سوا کبھی کسی کو نہ مارا۔ ہتھیار تو دور کی بات ہے کہ اس سے کسی کی طرف مزاحاً اشارہ کرنا بھی جہنم میں جگہ بنانا ہے، ہاتھ سے بھی کسی کو نہ مارا، کسی کمزور سے کمزور کو بھی نہیں۔ انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے اگر مسلمان ہیں تو کس منہ سے عشق و محبت کا دعویٰ کرسکیں گے۔ دوسری یہ کہ اگر گناہ کے زمرے میں نہ آتی ہو تو ہمیشہ آسانی کو پسند کیا۔ دوسروں کو بھی یہی تعلیم دی کہ ’’آسانیاں پیدا کرو‘‘۔ اس سنہری اور جامع اصول کا اطلاق بھی، زندگی کے ہر گوشے پر ہوتا ہے، دین و مذہب سے لے کر حکومت و اقتدار تک۔ تحریک و جماعت سے لے کر ملازمت و بیوپار تک۔ خود پر وہ بوجھ مت ڈالو جو خالق نے نہیں ڈالا، اور اگر کسی معاملے میں دو راستے میسر ہیں اور کسی میں بھی اللہ کی نافرمانی نہیں، تو آسان کو مشکل پر ترجیح دو۔ تیسری یہ کہ اپنی ذات کے لیے انتقام، نبی کا شیوہ نہیں۔ ہاں، اگر کوئی خالق ہی کو ناراض کرنے پر تل جائے، تو آئندہ اسے اور دوسروں کو اس کارِ بد سے باز رکھنے کے لیے سزا بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔
……٭٭……
حضرت جابر بن عبداللہ اور ابوطلحہ بن سہل انصاری رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے جب وہ خود اللہ کی نصرت کا محتاج ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو ایسے وقت میں اپنے بھائی کی نصرت کرے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی نصرت ایسے وقت میں نہ کرے کہ جب وہ اللہ کی نصرت کا محتاج و طالب ہوتا ہے۔ (ابوداؤد، حدیث 4884)
بندہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کررہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ اپنی ہی مدد کررہا ہوتا ہے۔ بندہ اپنے بھائی کے کام آتا ہے تو ربِّ کائنات خود اس بندے کا نگہبان بن جاتا ہے۔ مسلم کی طویل حدیث کے مطابق ’’اللہ تب تک خود بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘۔ رب کا انصاف ہر شے سے بالاتر ہے۔ جس نوع کی نیکی، اسی طرح کا اس کا اجر، اور جس طرح کا جرم، اسی نوع کی سزا و عذاب۔ افراد ہی نہیں اقوام و ممالک بھی اس حدیث کی روشنی میں اپنے حال و مستقبل کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات سے لے کر بین الاقوامی مسائل تک، اللہ نے یہ فیصلہ بندے پر چھوڑ دیا کہ وہ رب کی نصرت چاہتا ہے یا اس کی سزا و عذاب!