واصف علی واصف
رحمت ایک مستقبل کا تصور دے کر انسان کو جاوداں کردیتی ہے۔ خاک افلاک تک جا پہنچتی ہے۔ رحمت کے شکر میں جھکا ہوا سر سرفراز کردیا جاتا ہے۔
رحمت ایک عام زندگی میں ایسا انقلاب برپا کرتی ہے کہ وہی عام انسان خاک کے ایک ذرے سے ماہتاب و آفتاب بنادیا جاتا ہے۔ آنے والے زمانوںکو رخ عطا کرنے والے لوگ رحمت سے نوازے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی فکر رحمت کا کرشمہ ہے۔ ان کی فصاحت اور بلاغت رحمت کا اعجاز ہے۔ رحمت رفعتیں عطا کرتی ہے، فانی کو جاودانی بناتی ہے، جزو کو کُل کے راستے دکھاتی ہے، کثرت کو وحدت میں سمیٹتی ہے، مایوسیوں میں امیدوں کے چراغ جلاتی ہے، ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی کردیتی ہے، غریبی میں بادشاہی اور بادشاہی میں فقیری کو عطا کرنے والی شے رحمت ہے۔ وہ جو دیکھنے میں خاک نشیں نظر آتا ہے، حقیقت میں عرش نشیں ہے۔ دونوں جہاں کے لیے رحمتوں کا پیغام لانے والی ذات انسان کو تکلیفوں میں مبتلا دیکھ کر پریشان ہوجاتی ہے۔ آپؐ کو اپنا کوئی غم نہیں۔ آپؐ آدھی آدھی رات تک جاگتے ہیں، سجدے کرتے ہیں اور روتے ہیں۔ بس امت کا حال دیکھ کر آپؐ کو آزردہ کرنے والی بات صرف یہی ہے کہ امت نے آپؐ کا راستہ ترک کردیا۔ لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے، ابھی امیدوں کے چراغاں ہیں، ابھی اعتماد کی منزلیں طے ہورہی ہے۔ ابھی لوگوں میں یقین ہے آپؐ کی رحمتوں کا، آپؐ کی نوازشوں کا۔ حق نہ رکھنے کے باوجود آپؐ کی عنایت کو اپنا حق سمجھنے والے اتنی ناحق بات بھی نہیں کررہے۔ یہی تو حق ہے اور یہی اللہ کے حکم کا مفہوم ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ یعنی عمل کی کوتاہی کی وجہ سے حق نہ رکھنے کے باوجود رسولِِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت کو اپنا حق مانتے رہنا۔ یہی راستہ مایوسیوں سے بچنے کا راستہ ہے، اسی یقین کو ایمان کہتے ہیں۔ وہ اللہ جس نے ہمیں اپنا دین عطا فرمایا، اپنی عنایات عطا فرمائیں، ہمیں آنکھیں عطا کیں اور آنکھوںکے لیے روشن روشن کائنات بنائی، اسی اللہ نے جس نے ہمارے لیے دنیا کی راہیں آسان فرمائیں، ہمارے لیے دریائوں کو حکم دیا کہ ہمیں راستہ دے دیں، بلند پہاڑوں کے لیے حکم ہے کہ انسان کو راستہ دے دیں۔ ہر راز کو حکم ہے کہ انسان کے لیے آشکار ہوجائے، ہر مخفی کو ظہور کا حکم دینے والا اپنی رحمتوں کے اٹل ہونے کا اعلان فرماتا ہے۔ رحمت آکے رہے گی، گناہ معاف کردیے جائیں گے، شرط اظہارِ ندامت ہے، شرط خلوصِ دل سے توبہ ہے۔ شرط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہونے کی تمنا ہے۔ شرط اللہ کی رسّی کو مل کر مضبوط پکڑنے کی ہے، یعنی شرط رحمت کی تمنا ہے اور اس کا انعام حصولِ رحمت۔
(’’حرف حرف حقیقت‘‘)