تاریخ کے وسیع دائروں پر نظر ڈالیں تو اس میں ہمیں طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں۔ شیریں مقال واعظ اور آتش بیان خطیب سامنے آتے ہیں، بہت سے فلسفہ طراز ہر دور میں ملتے ہیں، بادشاہوں اور حکمرانوں کے انبوہ ہمیشہ موجود رہے ہیں جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں، جنگجو فاتحین کی داستانیں ہم پڑھتے ہیں، جماعتیں بنانے اور تمدن میں مدوجزر پیدا کرنے والوں سے ہم تعارف حاصل کرتے ہیں۔ انقلابی طاقتیں نگاہوں میں آتی ہیں جنہوں نے نقشہ ٔ حیات کو بار بار زیر و زبر کیا ہے۔ رنگارنگ مذاہب کی نیو ڈالنے والے بکثرت سامنے آتے ہیں۔ اخلاقی خوبیوں کے داعی بھی اسٹیج پر جلوہ گر ہوتے رہے ہیں۔ کتنے ہی مقنّن ایوانِ تہذیب میں کارنامے دکھا چکے ہیں۔ لیکن جب ہم ان کی تعلیمات، ان کے کارناموں اور ان کے پیدا کردہ مجموعی نتائج کو دیکھتے ہیں تو اگر کہیں خیر و فلاح دکھائی دیتی ہے تو وہ جزئی قسم کی ہے۔ اس کے اثرات زندگی کے کسی ایک گوشے پر ابھرتے ہیں۔ پھر خیر و فلاح کے ساتھ طرح طرح کے مفاسد ترکیب پائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انبیا ؑ کے ماسوا کوئی عنصر تاریخ میں ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انسان کو… پورے کے پورے انسان کو… اجتماعی انسان کو… اندر سے بدل سکا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغتہ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسہ سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا۔ ذہن بدل گئے، خیالات کی رو بدل گئی، نگاہ کا زاویہ بدل گیا، عادات و اطوار بدل گئے، رسوم و رواج بدل گئے، حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں، خیر و شر کے معیارات اور حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے، اخلاقی قدریں بدل گئیں، دستور اور قانون بدل گیا، جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے، معیشت اور ازدواج کے اطوار بدل گئے، اور تمدن کے ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔ اس پوری کی پوری تبدیلی میں جس کا دائرہ ہمہ گیر تھا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ کسی گوشے میں شر نہیں، کسی کونے میں فساد نہیں، کسی جانب بگاڑ نہیں۔ ہر طرف بنائو ہی بنائو، تعمیر ہی تعمیر اور ارتقا ہی ارتقا ہے۔ درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت کے ہاتھوں انسانی زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظامِ حق کی صبح درخشاں سے مطلع تہذیب کو روشن کرکے بین الاقوامی دورِ تاریخ کا افتتاح فرمایا۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی!
اللہ کے آخری رسولِ ہدایتؐ کا ظہور ایسے حالات میں ہوا جب کہ پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی… کہیں دورِ وحشت چل رہا تھا، اور کہیں شرک اور بت پرستی کی لعنتوں نے مدنیت کا ستیاناس کررکھا تھا۔ مصر اور ہندوستان، بابل اور نینوا، یونان اور چین میں تہذیب اپنی شمعیں گل کرچکی تھی۔ لے دے کر فارس اور روم تمدنی عظمت کے پھریرے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ رومی اور ایرانی تمدنوں کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تھی۔ مگر ان شیش محلوں کے اندر بدترین مظالم کا دور دورہ تھا اور زندگی کے زخموں سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ بادشاہ خدا کے اوتار ہی نہیں، خدا بنے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جاگیردار طبقوں اور مذہبی عناصر کی ملی بھگت قائم تھی۔ روم اور ایران کے دونوں خطوں میں اس تگڑم نے عام انسان کا گلا اچھی طرح دبوچ رکھا تھا۔ یہ لوگ ان سے بھاری ٹیکس، رشوتیں، خراج اور نذرانے وصول کرتے تھے اور ان سے جانوروں کی طرح بیگاریں لیتے تھے۔ لیکن ان کے مسائل سے ان کو کوئی دلچسپی نہ تھی، ان کی مصیبتوں میں ان سے کوئی ہمدردی نہ تھی اور ان کی گتھیوں کا کوئی حل ان کے پاس نہ تھا۔ ان بالادست طبقوں کی عیاشیوں اور نفس پرستیوں نے اخلاقی روح کو ہلاک کردیا تھا۔ بادشاہوں کے ادل بدل، نت نئے فاتحین کے ظہور اور خونریز جنگوں کی وجہ سے حالات میں جو تموج پیدا ہوتا تھا، اس میں بھی کوئی راہِ نجات عام آدمی کے لیے نہ نکلتی تھی۔ عام آدمی کو ہر تبدیلی کی چکی اور زیادہ تیزی سے پیستی تھی۔ ہر قوت اسی کو آلہ ٔ کار بناکر اور اسی کا خون صرف کرکے اور اسی کی محنتوں سے استفادہ کرکے اپنا جھنڈا بلند کرتی تھی، اور پھر غلبہ واقتدار پانے کے بعد وہ پہلوں سے بھی بڑھ چڑھ کر ظالم ثابت ہوتی تھی۔ خود روم و ایران کی سلطنتوں کے درمیان مسلسل آویزش کا چکر چلتا رہتا تھا اور مختلف علاقے کبھی ایک حکومت کے قبضے میں جاتے اور کبھی دوسری سلطنت ان کو نگل لیتی۔ لیکن ہر بار فاتح قوت عوام کے کسی نہ کسی طبقے کو خوب اچھی طرح پامال کرتی۔ مثلاً رومی حکومت آتی تو آتش کدے کلیسائوں میں بدل جاتے، اور ایرانی راج چھا جاتا تو پھر کلیسا آتش کدے بن جاتے۔ اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مفتوحین کو جبری تبدیلی ٔ تہذیب سے گزرنا پڑتا یا وہ منافقت اختیار کرتے، ورنہ موت یا ایذا رسانی سے دوچار ہوتے۔ ایسے لوگوں میں جوہرِ ایمان و اخلاق کیسے زندہ رہ سکتا!
دنیا کے اکثر حصوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ نت نئے ٹکرائو ہوتے۔ بار بار کشت و خون ہوتے، بغاوتیں اٹھتیں، مذہبی فرقے خونریزیاں کرتے، اور ان ہنگاموں کے درمیان انسان بہ حیثیت انسان بری طرح پامال ہورہا تھا۔ وہ انتہائی مشقتیں کرکے بھی زندگی کی ادنیٰ ضرورتیں پوری کرنے پر قادر نہ تھا۔ اسے مظالم کے کولہو میں پیلا جاتا تھا، مگر تشدد کی خوفناک فضا میں وہ صدائے احتجاج بلند نہیں کرسکتا تھا۔ وہ تلخ احساسات رکھتا ہوگا مگر اُسے ضمیر کی آزادی کسی ادنیٰ درجے میں حاصل نہ تھی۔ اس کی مایوسیوں اور نامرادیوں کا آج ہم مشکل ہی سے تصور کرسکتے ہیں کہ وہ ماحول کے ایک ایسے آہنی قفس میں بند تھا جس میں کوئی روزن کسی طرف نہیں کھلتا تھا۔ اس کے سامنے کسی امید افزا اعتقاد اور کسی فلسفے یا نظریے کا جگنو تک نہیں چمکتا تھا، اس کی روح چیختی تھی، مگر پکار کا کوئی جواب کسی طرف سے نہ ملتا تھا۔ کوئی مذہب اس کی دستگیری کے لیے موجود نہ تھا۔ کیونکہ انبیا کی تعلیمات تحریف و تاویل کے غبار میں گم کی جاچکی تھیں اور باقی جو شے مذہب کے عنوان سے پائی جاتی تھی اسے مذہبی طبقوں نے متاعِ کاروبار بنالیا تھا اور انہوں نے وقت کی ظالم طاقتوں کے ساتھ سودے گانٹھ لیے تھے۔
یونان کا فلسفہ سکتے میں تھا۔ کنفیوشس اور مانی کی تعلیم دم بخود تھی، ویدانت اور بدھ مت کے تصورات اور منوشاستر کے نکات سربہ گریباں تھے۔ جسٹینن کا ضابطہ اور سولن کا قانون بے بس تھا۔ کسی طرف کوئی روشنی نہ تھی۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان حالات کے ایک آہنی قفس میں بند ہوجاتا ہے اور اُسے کسی طرف سے نجات کا راستہ دکھائی نہیں دیتا، تو تمدنی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ خوف ناک ترین بحران کا ایک عالم گیر دور تھا جس کی اندھیاریوں میں محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشعل یکایک آ ابھرتی ہے اور وقت کے تمدنی بحران کی تاریکیوں کا سینہ چیرکر ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے۔
خود عرب کا قریب ترین ماحول جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اوّلین میدانِ کار بنا، اس کا تصور کیجیے تو دل دہل جاتا ہے۔ وہاں عاد و ثمود کے ادوار میں سبا اور عدن اور یمن کی سلطنتوں کے سائے میں کبھی تہذیب کی روشنی نمودار بھی ہوئی تھی تو اب اسے گل ہوئے مدتیں گزر چکی تھیں۔ بقیہ عرب پر دورِ وحشت کی رات چھائی ہوئی تھی۔ تمدن کی صبح ابھی تک جلوہ گر نہیں ہوئی تھی اور انسانیت نیند سے بیدار نہ ہوپائی تھی۔ ہر طرف ایک انتشار تھا، انسان اور انسان کے درمیان تصادم تھا، جنگ و جدل اور لوٹ مار کا دور دورہ تھا، شراب اور زنا اور جوئے سے ترکیب پانے والی جاہلی ثقافت زوروں پر تھی۔ قریش نے مشرکانہ اور بت پرستانہ مذہبیت کے ساتھ کعبہ کی مجاوری کا کاروبار چلا رکھا تھا۔ یہود نے کلامی اور فقہی موشگافیوں کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ باقی عرب فکر کے لحاظ سے ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا۔ مکہ اور طائف کے مہاجنوں نے سود کے جال پھیلا رکھے تھے۔ غلام سازی کا منحوس ادارہ دھوم دھڑلے سے چل رہا تھا۔ حاصلِ مدعا یہ کہ انسان خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گرکر درندوں اور چوپایوں کی شان سے جی رہا تھا۔ جو زور والا تھا اس نے کمزوروں کو بھیڑ بکریوں کے گلوں کی طرح قابو میں کر رکھا تھا۔ اور کمزور لوگ قوت والوں کے قدموں میں سجدہ پاش تھے۔
یہ تھے وہ حالات جن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم عظیم ترین تبدیلی کا پیغام لے کر یکہ و تنہا اٹھتے ہیں۔ ایسے مایوس کن حالات میں کوئی دوسرا ہوتا تو شاید زندگی سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ دنیا میں ایسے نیک اور حساس لوگ بکثرت پائے گئے ہیں جنہوں نے بدی سے نفرت کی، مگر وہ بدی کا مقابلہ کرنے پر تیار نہ ہوسکے اور اپنی جان کی سلامتی کے لیے تمدن سے کنارہ کش ہوکر غاروں اور کھوہوں میں پناہ گزین ہوئے اور جوگی اور راہب بن گئے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی نیّا کو طوفانی موجوں میں ہچکولے کھاتے چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر نہیںکی، بلکہ بدی کے ہلاکت انگیز گردابوں سے لڑکر ساری اولاد ِآدمؑ کے لیے نجات کا راستہ کھولا۔ تمدن کی کشتی کی پتوار سنبھالی اور پھر اسے ساحلِ مراد کی طرف رواں کردیا۔
روم اور ایران کی دو بڑی ٹکراتی ہوئی تمدنی طاقتوں نے جو بحران پیدا کردیا تھا، اسے توڑنے کے لیے آپؐ ایک تیسری طاقت بن کے اٹھے اور آہستہ آہستہ یہ تیسری طاقت جب اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی تو اس نے روم و ایران دونوں کو چیلنج کیا، دونوں کی مرعوب کن قیادتوں کے تخت الٹ دیئے اور عوام الناس کو خوفناک تمدنی قفس سے نکال کر آزاد فضائوں میں اڑان کا موقع دیا! اولاد ِآدم ؑ کے سامنے معاً ایک راہِ نجات کھل گئی، کاروانِ زندگی جو رہزنوں کے درمیان گھرا کھڑا تھا وہ پھر فلاح و ارتقا کی راہوں پر گامزن ہوگیا!
یوں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم خلقِ خدا کے لیے نجات دہندہ بن کر تشریف لائے۔