تحریک لبیک کی جانب سے اسلام آباد میں ختم نبوت میں ترمیم کے مسئلے پر ہونے والا دھرنا حکومت اور علامہ خادم حسین رضوی کے درمیان ایک تحریری معاہدے کے بعد ختم ہوگیا ہے۔ یہ دھرنا 22 روز جاری رہا۔ لیکن اس تحریری معاہدے کے بعد اس کی حمایت اور مخالفت میں ایک نئی بحث مختلف سیاسی، قانونی، حکومتی حلقوں میں شروع ہوگئی ہے۔ عمومی طور پر جب دو فریقوں میں کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس معاہدے کو دونوں فریقوں کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے۔ لیکن اس معاہدے نے حکومتی ساکھ جو پہلے ہی بری طرح مجروح یا کمزور تھی اسے اور زیادہ کمزور کرکے تماشا بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ احسن اقبال کے بقول دھرنا مظاہرین سے حکومتی معاہدہ افسوسناک ہے اور اس پر فخر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کو مظاہرین کے سامنے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
دوسری جانب اس معاہدے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے دیے گئے فیصلے میںکہا گیا کہ وزیر داخلہ نے مجموعی طور پر انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کردیا۔ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اہم نکتہ یہ اٹھایا کہ اس معاہدے میں فوجی کیسے ثالث بن گئے؟ عدالت نے اس معاہدے میں تیسرے فریق یعنی فوج کی شمولیت پر بڑا اعتراض اٹھایا ہے۔ عدالت کے بقول اگر فوجیوں کو سیاست کرنی ہے تو وہ نوکری چھوڑ کر سیاست کریں۔ جب ریاست خود دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کرے گی تو ریاستی رٹ کو کون تحفظ دے سکے گا! جبکہ چیئرمین سینیٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ معاہدہ کیونکر کیا گیا اور پارلیمان کو کیوں اعتماد میں نہیں لیا گیا؟ سوال یہ ہے کہ جب اسلام آباد میں دھرنا جاری تھا تو خود پارلیمان کیا کررہی تھی اور کیوں اسپیکر اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ کے سیاسی ادارے کمزور ہوں گے اور خود آپ، افراد کی تابعداری میں پیش پیش ہوں گے تو پارلیمنٹ بے بس ہوگی اور اِس کی ذمہ داری بھی پارلیمنٹ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب فریقوں کو وزیر قانون زاہد حامد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا، مگر سب نے چنگاری پر پیٹرول چھڑکا۔
وزیر داخلہ سمیت حکومت کا مؤقف تھا کہ دھرنے کے دبائو پر وزیر قانون سے کسی صورت استعفیٰ نہیں لیا جائے گا، اور یہ معاملہ محض حکومتی غلطی کا نہیں بلکہ پوری پارلیمانی کمیٹی کی کوتاہی کا نتیجہ تھا۔ ان کے بقول اگر دھرنے والوں کے مطالبات پر حکومت اپنی بے بسی دکھا کر کسی بھی وزیر سے استعفیٰ لیتی ہے تو اس سے اس کی حکومتی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مگر ایک طرف حکومتی بے بسی ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ معاہدہ حکومت سے زیادہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے نمائندے میجر جنرل فیض حمید کی ذاتی مداخلت کی بنیاد پر ہوا ہے، اور اس کی درخواست بھی خود حکومت نے کی، جس سے حکومتی نااہلی اور بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔ وگرنہ بیس دن تک خود حکومت سیاسی و انتظامی طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کررہی تھی، مگر کامیابی نہیں مل سکی۔
اگرچہ یہ معاہدہ ہوگیا ہے اور ایک بڑے بحران سے حکومت نے اپنے آپ کو بچالیا ہے، لیکن اس بحران نے حکومت کو پہلے سے زیادہ کمزور کردیا ہے۔ حکومت کا الزام تھا کہ اس سارے کھیل کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے، اور اس کی مرضی کے بغیر یہ دھرنا اسلام آباد میں نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن سب نے دیکھا کہ جو معاہدہ سامنے آیا وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت ہے، اور اگر فوج حکومتی تجویز پر آگے بڑھتی تو جو بحران بڑھتا، یا اس کے نتیجے میں جو تشد د ہوتا تو فوج بھی براہِ راست اس کی فریق بن سکتی تھی۔ بات یہ ہے کہ جو حل اب فوج کی مدد سے حکومت نے نکالا اور وزیر قانون کی قربانی دی، یہ عمل ابتدا میں ہی کرکے اس بحران سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن اگر کوئی حکومت سیاست سے زیادہ طاقت یا ضد پر قائم ہو تو اس کو سیاسی محاذ پر ایسی ہی پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے تھے کہ اس دھرنے کا مقصد مارشل لا لگانا، ایمرجنسی لگانا، ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت بنانا ہے، وہ بھی غلطی پر تھے۔ فوج نے بغیر کسی آپریشن کے مسئلے کا سیاسی حل نکال کر خود حکومت کو بھی ریلیف دیا اور اس تاثر کی نفی کی کہ وہ جمہوری حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
جو لوگ فوج پر تنقید کررہے ہیں اُن کو اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ فوج کو دعوت کس نے دی؟ اورکیا وجہ ہے کہ سیاسی حکومت خود اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام رہی؟ یہ کہنا کہ فوج کیوں ثالث بنی، سوال یہ ہے کہ کیا اسے ثالث کے بجائے سازش کا حصہ بننا چاہیے تھا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوج پہلی بار اس طرح کے بحران میں ثالث نہیں بنی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں بھی حکومت نے فوج سے ثالث کا کردار ادا کا مطالبہ کیا تھا۔ عدلیہ تحریک میں اُس وقت کے آرمی چیف کو بھی چیف جسٹس کی بحالی میں ثالث کا کردار ادا کرنا پڑا تھا۔ اُس وقت فوج کی ثالثی پر سب متفق تھے اور سب نے فوج کے کردار کو سراہا تھا۔ عمومی طور پر کسی تیسرے فریق کا ثالث کا کردار اسی صورت میں ہوتا ہے جب آپ خود ناکام ہوجاتے ہیں یا فریقین ایک دوسرے پر اعتماد کھو دیتے ہیں۔ اگر فوج یہ کردار ادا نہ کرتی تو اس سے ایک بڑا بحران پیدا ہوسکتا تھا جو خود حکومت اور ریاست کے مفاد میں نہیں تھا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ یہ سارا بحران فوج کا پیدا کردہ ہے۔ یہ بھی ہماری سیاست میں ایک فیشن بن گیا ہے کہ حکومتیں اپنی ذمہ داری یا ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے ساری ذمہ داری فوج یا عدلیہ پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
حکومت کے بقول جو معاہدہ کیا گیا ہے اسے فتح اور شکست کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ جو کچھ ہوا وہ ملکی مفاد میں کیا گیا۔ حالانکہ آپ کو چاروں طرف سے پہلے بھی یہی پیغام دیا گیا تھا کہ اسے اپنی انا اور ضد کا مسئلہ بنانے کے بجائے سیاسی اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر حل کیا جائے۔ لیکن اِس حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو بھی کام کرتی ہے ایک بڑے بحران یا ردعمل کے نتیجے میں کرتی ہے، جس سے مزید بحران پیدا ہوتا ہے۔ حالانکہ ایک اچھی اور ذمہ دار حکومت کا طرزعمل فیصلہ سازی، مسائل سے نمٹنا اور حالات کو اپنے اور ملک کے حق میں سازگار بناکر عوامی مفادات کو تحفظ دینا ہوتا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ہمیں اچھی سیاست اور حکومت نہیں مل سکی۔
یقینی طور پر اسلام آباد میں جاری دھرنے سے نمٹنا حکومت کے لیے ایک مشکل معاملہ تھا۔ کیونکہ حکومت کی مشکل یہ تھی کہ اگر وہ مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرتی تو اس سے حکومتی رٹ کی کمزوری نظر آتی، اور اگر ان کے خلاف کوئی سخت آپریشن کرتی تو اس سے تشدد کا جو عمل سامنے آتا وہ بھی حکومت کے لیے بڑا چیلنج تھا۔ ماضی میں لال مسجد، جامعہ حفصہ اور ماڈل ٹائون کے واقعات موجود ہیں۔ ایک ایسے جذباتی، حساس، دینی اور ایمانی مسئلے کی شدت یا حساسیت کو حکومت اور اُس کے ذمہ داران بہتر طور پر نہ تو سمجھ سکے اور نہ ہی کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کی جاسکی جو سیاسی محاذ پر آپریشن سے قبل کوئی قابلِ قبول فارمولا سامنے لاتی۔ حکومت نے ختمِ نبوت کے مسئلے پر اپنی کوتاہی تو قبول کی، مگر اس کے ذمہ داران کا تعین کرنے سے گریز کیا کہ اس ساری ترمیم کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ محض ترمیم کرتے وقت کوئی ٹیکنیکل غلطی ہوئی ہے، قابلِ قبول نہیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ترمیم ایک خاص مقصد کو سامنے رکھ کر کی گئی، اور بعد میں جب حالات بگڑے تو اس سے پسپائی اختیار کرلی گئی اور ملبہ پوری پارلیمانی کمیٹی پر ڈال دیا گیا۔ جب کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں کمیٹی میں شامل تمام ارکان نے وزیر قانون کے جواب کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
وزیر داخلہ احسن اقبال کے بقول اسلام آباد آپریشن کا فیصلہ ان کا نہیں تھا، بلکہ یہ آپریشن ان کی نگرانی میں نہیں بلکہ عدالتی حکم کی بنیاد پرکیا گیا ہے اور اس کی ذمہ داری ان کی نہیں بلکہ انتظامیہ کی تھی۔ حالانکہ انتظامیہ حکومتی فیصلے کے بغیر کچھ نہیں کرتی۔ اگر مسئلہ مذاکرات سے ہی حل کرنا تھا تو وزیر داخلہ کا فرض تھا کہ وہ آپریشن کے بجائے عدالت کو اعتماد میں لیتے، لیکن اب اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے ساری ذمہ داری عدالت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔ فوج کو طلب کرنے کے وزارتِ داخلہ کے نوٹیفکیشن نے بھی فریقین میں مسائل پیدا کیے۔ حکومت کو یہ بھی اندازہ نہیں ہوسکا کہ اس آپریشن کے ردعمل میں خود ارکانِِ اسمبلی اور وزیروں، مشیروں کے گھروں پر حملے ہوسکتے ہیں۔ یہ مسئلہ اگر فوری طور پر حل نہ ہوتا تو اس بات کا خدشہ تھا کہ حکمران جماعت کو پنجاب میں اپنے ارکانِ اسمبلی کی صورت میں نہ صرف ایک بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ اور زیادہ ارکانِ اسمبلی کے گھروں پر حملے ہوسکتے تھے۔ یہ عمل یقینی طور پر حوصلہ افزا نہیں تھا، مگر جو ردعمل عوامی سطح پر نظر آیا وہ واقعی حکومت کے لیے حیران کن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود حکومت میں ایسے لوگ موجود تھے جو حکومت کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ وزیرقانون کی قربانی دے کر مسئلے کا حل نکالے وگرنہ دوسری صورت میں ان کو انتخابی حلقوں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ حکومت اور وزارتِ داخلہ نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کی صورت میں حالات خراب ہونے کی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹوں پر کیوں غور وخوض نہیں کیا، اور کیوں صوبائی حکومتوں سے حتمی آپریشن کرنے سے قبل مشاورت نہیں کی گئی؟ یہ اندازہ نہیں کیا جاسکا کہ آپریشن کا ردعمل پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔ اگر وقتی طور پر یہ معاملہ پہلے ہی حل کرلیا جاتا تو صورت حال اتنی سنگین نہ ہوتی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی مثال سامنے ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا پہلا دھرنا زیادہ بڑا تھا، لیکن اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت، وزیر داخلہ رحمان ملک، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی نے صدر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر مسئلے کا سیاسی حل نکالا تھا۔ یہ کام ابتدا میں خود آج کی حکومت بھی کرسکتی تھی، لیکن اس کا جمہوری مقدمہ پہلے بھی کمزور تھا اور اس واقعے نے اور زیادہ کمزور کردیا ہے۔ اب وقتی طور پر تو دھرنا ختم ہوگیا ہے، لیکن یہ کہنا کہ حکومت کا بحران ختم ہوگیا ہے، درست نہیں ہوگا۔ حکومت کو اب ہر محاذ پر پسپائی اختیار کرنا پڑے گی اور اس کی سیاسی پوزیشن غیر مستحکم ہوگی۔ کیونکہ ختمِ نبوت کے معاملے پر نوازشریف کی سیاست کو خاصا دھچکہ لگا ہے اور وہ درست طور پر یہ اندازہ ہی نہیں کرسکے کہ اس مسئلے پر پہلے سے موجود بحران میں ان کو اور زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔