مشرق وسطیٰ کا مستقبل؟

امریکہ کے سوشل میڈیا پر آجکل امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کے ایک انٹرویو کا چرچا ہے جو لندن سے شائع ہونے والے طنز و مزاح کے رسالے روزنامہ Squibنے نومبر 2011ء میں شائع کیا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اسکوئب کا مقصد ہی پھلجڑی چھوڑنا اور ہجو اڑانا ہے، اور اس میں شائع ہونے والی تحریروں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا، چنانچہ یہ سنسنی خیز اور چشم کشا انٹرویو بھی ہنسی مذاق میں اڑا دیا گیا، لیکن اس کی اشاعت کے ایک سال بعد مارچ 2012ء میں برطانیہ کے سابق وزیر خزانہ نارمن لامنٹ (Norman Lamont) نے لندن کے ہفت روزہ New Statesman میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس انٹرویو کا ذکر کیا، جس کے چند ماہ بعد مصر کے مؤقر جریدے ’الاہرام‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ جناب کسنجر کا انٹرویو ذہنی اختراع یا مذاق و ہجو نہیں بلکہ سابق امریکی وزیرخارجہ انٹرویو کے دوران بے حد سنجیدہ تھے۔ اُس وقت ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے صدر تھے، چنانچہ ان کے سیکولر مخالفین نے الزام لگایا کہ مرسی کے کہنے پر یہ اداریہ لکھا گیا ہے اور ایک سال پہلے شائع ہونے والے طنز و مزاح کے مضمون پر غیر ضروری تشویش کا مقصد محض ہیجان پھیلانا ہے۔ ادھر کچھ دنوں سے انٹرویو کی بازگشت دوبارہ سنائی دے رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی انہی خطوط پر تشکیل دی جارہی ہے جس کی طرف جناب کسنجر نے اپنے انٹرویو میں اشارہ کیا تھا۔ فلسطین کے معاملے میں سعودی عرب کا بڑھتا ہوا اثررسوخ، حماس کو غیر مسلح کرنے پر اصرار، محمود عباس کو دیوار سے لگانے کی کوشش اور ایران کے خلاف مجوزہ اسرائیل خلیج اتحاد سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔
اپنے انٹرویو میں ہنری کسنجر نے ایک بہت بڑی عالمی جنگ کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’اگر آپ کو نقارۂ جنگ نہیں سنائی دے رہا توآپ یقینا بالکل بہرے ہیں‘‘۔ سابق امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی پر آنکھیں بند کرکے (امریکہ کی جانب سے) ان دونوں کو دانہ ڈالا جارہا ہے۔ ہمارا حال اُس مسلح فرد کا سا ہے جو اپنے شکار کو بندوق اٹھانے کا موقع دیتا ہے اور جیسے ہی اس کے ہاتھ بندوق تک پہنچے، ٹھاہ! اور بات ختم۔ تابوت کی آخری کیل ایران ہوگا جو اسرائیل کا کلیدی ہدف ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ جنگ بہت خوفناک ہوگی جس کے اختتام پر صرف ایک ہی عالمی قوت باقی بچے گی اور وہ ہم ہوں گے۔ اس حسین منظر کو دیکھنے کے لیے میری آنکھیں ترس رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ (امریکی) فوج کو بتادیا گیا ہے کہ انھیں وسائل سے مالامال مشرق وسطیٰ کے سات ملکوں پر قبضہ کرنا ہے، اور ہمارے جوانوں نے تیاری کرلی ہے۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو (امریکی) فوج کے بارے میں میرے خیالات کا پتا ہے، لیکن اِس بار فوج نے ضرورت سے بہت زیادہ وسائل جمع کرلیے ہیں۔ یہ آخری معرکہ ہوگا۔ ہنری کسنجر نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ روس اور چین کب تک امریکہ کی پیش قدمی کو خاموشی سے دیکھتے رہیں گے۔ ایران سے ہماری چھیڑ خانی پر روسی ریچھ اور درانتی والے چینی خوابِ غفلت سے بیدار ہوں گے اور یہی وہ وقت ہوگا جب اسرائیل پوری قوت سے حملہ آور ہو اور زیادہ سے زیادہ عرب (سپاہ) کو ہلاک کردے۔ اگر کوئی گڑبڑ نہ ہوئی تو امید ہے کہ کم از کم آدھے مشرق وسطیٰ پر اسرائیل کا قبضہ ہوجائے گا۔ ہمارے جوانوں نے گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران (عراق، افغانستان اور شام میں) خوب سیکھا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے جوان عمدہ عسکری تربیت کی بنا پر لڑنے مرنے کو تیار ہیں اور جب انھیں حکم ہوگا تو وہ دوبدو لڑائی میں سرفروش چینیوں اور روسیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ جنگ کے بعد ملبے اور راکھ سے ہم ایک نیا معاشرہ تعمیر کریں گے۔
•… ایک نیا عالمی نظام (New World Order)
•… صرف ایک عالمی طاقت
•…اور ایک عالمگیر حکومت (Global Government)
یہ مت بھولو کہ امریکہ کے پاس دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں، ایسا مال جو کسی اور قوم کے پاس نہیں، اور ہم اپنے ترکش کے ان مہلک تیروں کو وقت آنے پر حرکت میں لائیں گے۔
بلاشبہ یہ انٹرویو شیخی، بڑھک اور لن ترانی سے بھرپور ہے جس کی ہنری کسنجر جیسے سنجیدہ اور تجربہ کار دانشور سے توقع نہیں کی جاسکتی، اور بہت ممکن ہے کہ زیبِ داستاں کے لیے انٹرویو لینے والے نے اس میں ضرورت سے کچھ زیادہ مرچ مسالہ لگادیا ہو، کہ اسکوئب اسی نوعیت کا اخبار ہے۔ تاہم انٹرویو کی اشاعت کے بعد ہنری کسنجر کی جانب سے کسی قسم کی تردید یا وضاحت سامنے نہیں آئی۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے جو مؤقف اختیار کیا تھا اُس کے کئی نکات ہنری کسنجر کے اس انٹرویو کے مطابق نظر آرہے ہیں۔ انھوں نے عراق سے امریکی فوج کے خالی ہاتھ لوٹنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتنی مالی و جانی قربانی کے بعد عراقی تیل ہمارا مالِ غنیمت تھا۔ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد سی آئی اے افسران سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہمیں عراقی تیل کے ذخائر پر قبضہ کرلینا چاہیے تھا۔ اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا ’’کوئی بات نہیں، شاید دوبارہ موقع مل جائے‘‘۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ڈیوڈ فریڈمین کی اسرائیل میں بطور سفیر تقرری بھی اسی جانب واضح اشارہ تھا۔ مسٹر فریڈمین فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے پُرجوش حامی ہیں۔ امریکہ اسرائیلی قبضے کے خلاف سلامتی کونسل کی ہر قرارداد کو ویٹو تو کرتا ہے لیکن پالیسی کی حد تک واشنگٹن یہودی بستیوں کے خلاف ہے۔ فریڈمین کی تعیناتی کے ساتھ غیر اعلانیہ طور پر انھیں اور داماد اول جیررڈ کشنر کو اسرائیل فلسطین امن معاہدے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اس ضمن میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ فلسطین اسرائیل تنازعے کو عرب اسرائیل معاملہ قرار دے کر ریاض کو عربوں کا نمائندہ تسلیم کرلیا گیا۔ سعودی عرب کے دورے میں صدر ٹرمپ نے بھی اپنے میزبان کو یہی باور کرایا کہ امریکہ فلسطین کے معاملے پر سعودی عرب کو قائد تسلیم کرتا ہے۔ جیررڈ کشنر اور مسٹر فریڈمین نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBS سے اس سلسلے میں تفصیلی ملاقاتیں کیں اور اس بات پر اجماع ہوگیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو اصل خطرہ ایران کی طرف سے ہے جبکہ فلسطنیوں کی حماس اور لبنانی ملیشیا حزب اللہ عرب دنیا میں ایران کا دست و بازو ہیں۔ حزب اللہ شام میں تعینات امریکی اور نیٹو فوج کے نشانے پر ہے اور وقتاً فوقتاً اسرائیل بھی حزب اللہ کے خلاف کارروائی کرتا رہتا ہے۔ حماس غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ سے پہلے ہی دبائو میں ہے اور فلسطینی اتھارٹی بھی حماس کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم نے حماس کو دہشت گرد، گمراہ اور مفسد قرار دیا ہے۔
امن معاہدے کے لیے فلسطینی ریاست کی جو انتظامی تفصیلات سامنے آئی ہیں اس پر معروف صحافی جناب آصف جیلانی نے اپنے آن لائن مضمون ’’فلسطینیوں کی دائمی محکومیت کا حتمی سودا‘‘ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جیلانی صاحب کے تجزیے سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطینی ریاست عملاً اسرائیل کی ایک میونسپلٹی ہوگی جہاں سیکورٹی، بندرگاہ اور امیگریشن وغیرہ کے تمام انتظامات اسرائیل کے ہاتھ میں ہوں گے۔
ان امور پر متوقع مخالفت کا سرکچلنے کے لیے پیش بندی کا آغاز خاصے بھونڈے انداز میں ہوا۔ یعنی لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کو ریاض بلاکر اُن سے حزب اللہ اور ایران کے خلاف تقریر کروائی گئی اور خطاب کے اختتام پر انھوں نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ لبنانی صدر مشل عون نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے منتخب انتظامی سربراہ کا بیرون ملک سے استعفیٰ لبنانی قوم کی توہین ہے۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حزب اللہ کا اسلحہ لبنان کے تحفظ کے لیے ہے اور ملک کے محافظوں کو غیر مسلح کرکے ہم اپنے قومی دفاع کو کمزور نہیں کرسکتے۔ اسی قسم کی اطلاعات فلسطین کے صدر محمود عباس کی طرف سے بھی آرہی ہیں۔ فلسطینی صدر بیت المقدس سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں، اور نہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیاں انھیں قبول ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فلسطینی علاقوں میں 176 نئی اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی حکومت اسرائیلی بستیوں کے بارے میں مؤقف تبدیل کرنے کے لیے محمود عباس پر دبائو ڈال رہی ہے، باخبر ذرائع کے مطابق MBS نے محمود عباس سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اگر انھوں نے ’’معقولیت‘‘ اختیار نہ کی تو خلیجی ممالک فلسطینی اتھارٹی کی مالی اعانت بند کردیں گے۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل ایران کے خلاف فیصلہ کن اقدام کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ دوسری طرف جیررڈ کشنر اور ڈیوڈ فریڈمین خلیجی رہنمائوں کو ایران سے ڈرا کر ایران سے متوقع جنگ کے تمام اخراجات کے لیے ان کو تیار کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ متمول سعودی شہزادوں کی گرفتاری اور اُن سے رقم اگلوانے کی کوشش مالی وسائل اکٹھا کرنے کے لیے ہی ہے۔
ایران کے خلاف خلیجی ممالک کی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ 23 نومبر کو MBS کا ایک تفصیلی انٹرویو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا جس میں سعودی ولی عہد نے ایران کے رہبر معظم حضرت سید علی حسینی خامنہ ای کو مشرق وسطیٰ کا ہٹلر قرار دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم نے یورپ کے تجربے سے یہی سیکھا ہے کہ خوشامد اور نظرانداز کرنے کی پالیسی بے سود ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ایران کا ہٹلر مشرق وسطیٰ میں وہی کچھ کرے جو جرمن ہٹلر نے یورپ میں کیا‘‘۔ یہ انٹرویو مشہور امریکی صحافی ٹامس فریڈمین (Thomas Freidman) نے کیا تھا۔ انتہائی متعصب، فلسطین و اسلام مخالف صحافی ٹامس فریڈمین کو سعودی عرب کے شاہی دربار کا قربِ خاص حاصل ہے اور وہ صحافی سے زیادہ ریاض کے شاہی مشیر سمجھے جاتے ہیں۔ سعودی عرب کو اسرائیل دوست بنانے میں فریڈمین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 2002ء میں فریڈمین نے MBS کے تایا اور اُس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر راضی کرلیا تھا۔ شہزادہ مکرم خانوادۂ عبدالعزیز کی شدید مخالفت کی وجہ سے کھل کر ایسا تو نہ کرسکے لیکن انھوں نے اسی سال منعقد ہونے والی عرب لیگ کی بیروت سربراہ کانفرنس میں مبادرہ السلام العربیہ (Arab Peace Initiative) پیش کیا جس میں مقبوضہ عرب علاقوں سے اسرائیل کے انخلا کے عوض تل ابیب سے سفارتی تعلقات کی تجویز دی گئی۔ یاسرعرفات نے جو اُس وقت رام اللہ میں اپنے گھر پر نظربند تھے، اس تجویز کی شدید مخالفت کی۔ صحافیوں کی غیر جانب دار انجمنیں اسرائیل سے متعلق فریڈمین کے تجزیات کو متعصبانہ و یک طرفہ اور اُن کی رپورٹنگ کی صحت اور صداقت کو مشکوک قرار دیتی ہیں۔ خاص طور سے صابرہ اور شتیلہ کے فلسطینی کیمپوں میں قتلِ عام کے بارے میں اُن کی رپورٹوں کو جھوٹ کا پلندہ کہا گیا، بلکہ مشہور دانشور پروفیسر نوم چومسکی تو فریڈمین کو اسرائیلی دہشت گردوں کا سرپرستِ اعلیٰ گردانتے ہیں۔ غیر جانبدار حلقوں کا خیال ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کے بارے میں MBSکے نام سے شائع ہونے والی گفتگو ٹامس فریڈمین کی تخلیق کردہ ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای محض ایران کے رہبر ہی نہیں بلکہ مرجع تقلید کے مقام پر فائز ہیں اور اس اعتبار سے وہ شیعانِ عالم کے روحانی پیشوا، مرجع خلائق اور فقیہ معظم ہیں۔ اُن کے بارے میں اس قسم کے تضحیک آمیز کلمات سے کروڑوں شیعوں کی دل شکنی ہوسکتی ہے۔ شکر ہے کہ ایرانی وزارتِ خارجہ نے اس توہین آمیز بیان پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوابی الزام تراشی کے بجائے شہزادہ صاحب کے ارشادات کو بچکانہ، بے بنیاد اور غیر ضروری قرار دینے پر اکتفا کیا، ورنہ اگر وہاں سے تبرے کے تیر چل نکلتے تو زبانی جنگ بے قابو ہوسکتی تھی۔ مسلم امت کی بدنصیبی کہ اکثر ملکوں میں ان کی قیادت خودغرض و بے ایمان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن سے ثالثی کی کوئی توقع نہیں، اور نہ ان بے بصیرت لوگوں میں کوئی صلاحیت ہے۔ اسلامی تحریکوں کو اکثر جگہ خود ہی بدترین آزمائش کا سامنا ہے۔ اس پس منظر میں مشرق وسطیٰ کا مستقبل بڑا مشکوک و مایوس کن نظر آرہا ہے۔