خدا لتاڑرہا ہے تجھے نواز شریف

کسی زمانے میں میاں نوازشریف کے ’’عروج‘‘ کا یہ عالم تھاکہ ہفت روزہ تکبیر نے اپنے سرورق پر میاں نوازشریف کی تصویر کے ساتھ یہ شعر شائع کیا تھا:

ہیں سرنگوں ترے آگے ترے تمام حریف
خدا نواز رہا ہے تجھے نواز شریف

آج میاں نوازشریف، شریف خاندان، شریف حکومت اور نون لیگ کی حالت دیکھ کر خیال آتا ہے کہ مذکورہ شعر کو الٹ دینے کی ضرورت ہے۔ اس شعر کو الٹ دیا جائے تو اس کی صورت یہ ہوگی:

ہیں سرخرو ترے آگے ترے تمام حریف
خدا لتاڑ رہا ہے تجھے نواز شریف

اتفاق سے ’خدا نواز رہا ہے تجھے نوازشریف‘ کو ثابت کرنا ناممکن تھا، مگر ’خدا لتاڑ رہا ہے تجھے نوازشریف‘ کو ثابت کرنا نہایت آسان ہے۔
میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کی کرپشن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ شریف خاندان نے ہمیشہ دولت کے ذریعے صحافیوں، اخبارات و رسائل اور ٹیلی وژن چینلز کے مالکان کو خریدا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ججوں اور جرنیلوں پر بھی ’’ہاتھ صاف‘‘ کیا ہے۔ میاں نوازشریف کی کرپشن صرف محفلوں اور چند اخبارات میں زیر بحث آکر رہ جاتی تھی، مگر پاناما کیس کے فیصلے نے میاں نوازشریف ہی کو نہیں اُن کے پورے خاندان کو کٹہرے میں لاکھڑا کردیا۔ بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ نے پاناما کیس سے فائدہ اٹھایا ہے مگر پاناما کیس اسٹیبلشمنٹ کی ’’تخلیق‘‘ نہیں ہے۔ پاناما پیپرز کی بلائے ناگہانی ایک ایسی آفت کی طرح شریف خاندان پر نازل ہوئی ہے جو بظاہر کہیں موجود ہی نہ تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ پاناما کیس کے حوالے سے جو ہولناک تضادات عدالت، وکلا اور ذرائع ابلاغ کو تلاش کرنے تھے وہ تضادات خود میاں نوازشریف، میاں نوازشریف کے بیٹوں اور مریم نواز کے بیانات، تقریروں اور ٹاک شوز سے مہیا ہوگئے۔ یعنی شریف خاندان کے اراکین خود میاں صاحب اور اپنے خلاف گواہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ رہی سہی کسر میاں صاحب اور ان کے وکلا کی عدالتی کارکردگی سے پوری ہوگئی۔ اس کارکردگی کا لب لباب یہ ہے کہ میاں صاحب ڈیڑھ سال تک عدالت میں کوئی ایک بھی ایسا ثبوت اپنے دفاع میں پیش نہ کرسکے جس کو دیکھ کر عدالت یہ ماننے پر مجبور ہوجاتی کہ میاں صاحب کے قانونی مؤقف میں کچھ نہ کچھ جان ہے۔ یہ صورت حال چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے:
خدا لتاڑ رہا ہے تجھے نواز شریف
اس سلسلے کی دوسری مثال اور بھی ہولناک ہے۔ ختمِ نبوت پوری امت کا ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ پاکستان میں اس کے حوالے سے طویل جدوجہد ہوئی ہے، اور اس جدوجہد کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پوری پاکستانی قوم کی ’’حساسیت‘‘ بھی ’’راز‘‘ نہیں، مگر میاں صاحب چونکہ امریکہ، یورپ اور بھارت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ میں اب خیر سے ’’اسلام پسند‘‘ نہیں رہا، بلکہ ’’سیکولر اور لبرل‘‘ ہوگیا ہوں، چنانچہ انہوں نے کسی بھی ’’حقیقت‘‘ کو خاطر میں لائے بغیر ختمِ نبوت کے قانون پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ آخری مرحلے تک ’’مکمل‘‘ اور ’’کامیاب‘‘ تھا، مگر آخری مرحلے کے آخری حصے میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے اراکینِ قومی اسمبلی نے اس حملے کا سراغ لگالیا، اس لیے صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگئی، اور نواز لیگ کو قانونِ ختمِ نبوت پر حملے سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ لیکن یہ تو اسلام کے بنیادی تصور پر حملے کے حوالے سے میسر آنے والی ’’ذلت مآبی‘‘ کی محض ابتدا تھی۔
قانونِ ختمِ نبوت پر حملے کے حوالے سے قوم کا غم و غصہ شدید ہوا تو قوم نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مگر میاں نوازشریف، اُن کی بیٹی مریم نواز اور نواز لیگ کا بدنام زمانہ ’’تکبر‘‘ ابھر کر سامنے آیا اور اس مطالبے پر توجہ نہیں دی گئی۔ البتہ شدید دبائو کے نتیجے میں میاں صاحب اس بات پر آمادہ ہوئے کہ راجا ظفرالحق کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی جائے جو تحقیق کرے کہ ختمِ نبوت کے قانون پر حملے کا ذمے دار کون ہے۔ کمیٹی نے مقررہ وقت میں اپنا کام مکمل کرلیا لیکن کمیٹی کی رپورٹ کو شائع نہ کیا گیا۔ چنانچہ تحریک لبیک یارسول اللہ کے دھرنے کی نوبت آگئی۔ دھرنا 20 دن جاری رہا مگر میاں صاحب اور ان کی حکومت اور ان کی پارٹی کی عقل پر پتھر پڑے رہے، بالکل ایسے جیسے ان کی عقل ’’سلب‘‘ کرلی گئی ہو۔ ایسا نہ ہوتا تو زاہد حامد کے استعفے کے ذریعے حالات پر قابو پایا جاسکتا تھا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ چنانچہ دھرنا دینے والوں کے خلاف آپریشن کی نوبت آئی۔ اس سلسلے میں میاں صاحب، ان کے خاندان، ان کی حکومت اور ان کی پارٹی کے حوالے سے جو ’’ذلت مآبیاں‘‘ سامنے آئیں ان میں سے اہم یہ ہیں:
ابھی چند روز پہلے تک میاں نوازشریف فرما رہے تھے کہ میں “Dictation” نہیں لوں گا۔ مگر میاں صاحب کے مقرر کردہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سرجھکا کر جنرل قمر جاوید باجوہ سے ’’رابطہ‘‘ کرنا پڑا، اُن سے ’’مدد‘‘ کی ’’درخواست‘‘ کرنی پڑی۔ جنرل باجوہ نے انہیں مشورے کی صورت میں ڈکٹیشن دیتے ہوئے فرمایا کہ طاقت نہ استعمال کی جائے بلکہ دھرنا دینے والوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ انہوں نے صاف کہا کہ فوج دھرنا دینے والوں کے خلاف بروئے کار نہیں آئے گی بلکہ وہ صرف حساس عمارتوں کا تحفظ کرے گی۔ اگلے مرحلے پر انہوں نے ڈکٹیشن دی کہ ٹی وی چینلز پر عائد پابندی ختم کی جائے۔ اس حکم کی فوری طور پر تعمیل کی گئی۔ آپریشن میں طاقت استعمال ہوئی اور 6 افراد شہید اور 300 سے زیادہ زخمی ہوگئے تو نواز لیگ کے ’’ارسطو‘‘ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے فرمایا کہ آپریشن کی ہدایت میں نے نہیں دی بلکہ آپریشن عدالت کی ہدایت پر انتظامیہ نے کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ فرما چکے تھے کہ ہم اسلام آباد میں وہی کریں گے جو عدالت چاہ رہی ہے۔ لیکن میاں صاحب اور نواز لیگ کے رہنما عدالتوں کا کتنا ’’احترام‘‘ کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور نواز لیگ کے پانچ چھے بڑے رہنمائوں نے نوازشریف کی نااہلی کے بعد روز کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی توہین کی۔ روز کی بنیاد پر اسے اسٹیبلشمنٹ کا آلۂ کار ثابت کیا۔ لیکن دھرنے میں جانی نقصان ہوتے ہی احسن اقبال اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے پیچھے چھپ گئے۔ ایسا کام اسی جماعت کا رہنما کرسکتا ہے جس کی کوئی اخلاقیات نہ ہو، جس کی کوئی تہذیب نہ ہو، جس کا کوئی ضمیر نہ ہو۔ احسن اقبال اور ان کی جماعت کی اخلاقی حالت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ احسن اقبال نے فرمایا کہ چھے میں سے چار پانچ افراد اسلام آباد کے دھرنے میں نہیں بلکہ نواز لیگ کے رہنما چودھری نثار کے گھر پر حملے کے وقت شہید ہوئے۔ لیکن چودھری نثار نے ایک بیان میں احسن اقبال کے دعوے کی تردید کی اور کہا کہ میرے گھر کے باہر کوئی شہید تو کیا زخمی بھی نہیں ہوا۔ دھرنے پر اسلام آباد میں حملہ ہوا تو دھرنا ملک کے ایک درجن سے زیادہ شہروں میں پھیل گیا اور نواز لیگ کے رہنمائوں کے گھروں پر حملے ہونے لگے۔ اس منظرنامے میں نواز لیگ کے تمام ’’سیاسی شیر‘‘ اچانک ’’سیاسی چوہوں‘‘ میں تبدیل ہوکر بلوں میں گھس گئے۔ اس منظرنامے میں نہ کہیں میاں نوازشریف کا پتا مل رہا تھا، نہ مریم نواز کی خبر آرہی تھی، نہ رانا ثناء اللہ، سعد رفیق، طلال چودھری، دانیال عزیز، عابد شیر علی، مریم اورنگ زیب اور انوشہ رحمن کی اطلاع میسر آرہی تھی۔ اس منظرنامے میں میاں صاحب کے تمام سیکولر اور لبرل ’’صحافتی شیر‘‘ بھی اچانک ’’صحافتی چوہوں‘‘ میں ڈھل کر ’’ابلاغی بلوں‘‘ میں جاگھسے۔ یہ شریف خاندان اور ان کی وفاقی و پنجاب حکومت کے نفسیاتی، ذہنی، سیاسی اور انتظامی انہدام کا منظر تھا۔ جو ’’رہنما‘‘، جو ’’جماعتیں‘‘ اور جو ’’صحافی و دانشور‘‘ حق پر ہوتے ہیں، جو عوام میں واقعتاً مرتبۂ محبوبیت پر فائز ہوتے ہیں وہ چیلنج کی صورت میں اس طرح بلوں میں نہیں گھستے۔ وہ حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مگر میاں صاحب اور ان کے سیاسی و صحافتی حواری تو اس موقع پر صرف ایک ’’بیان‘‘ جاری کرتے ہوئے بھی نہیں پائے گئے۔ یہ میاں نوازشریف، ان کے خاندان اور ان کے پیروکاروں کی ’’ذلت مآبی‘‘ کی انتہا ہے۔ اس ذلت مآبی میں اُس وقت چار چاند لگ گئے جب ملک میں پھیل جانے والے دھرنوں پر قابو پانے کے لیے میاں صاحب کے مقرر کردہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر آرمی چیف کی مدد طلب کی۔ یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے آگے جھکنے اور اس سے سیاسی و انتظامی بھیک مانگنے کا ایسا منظر تھا جسے تاریخ کبھی بھلا نہ سکے گی۔ لیکن قصہ یہیں ختم نہیںہوا۔ حکومت اور تحریک لبیک یارسول اللہ کے مابین جو سمجھوتا ہوا اُس میں آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید ’’ضامن‘‘ کے طور پر شریک ہوئے۔ معاہدے کے تحت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ استعفے سے قبل استعفے کی اطلاع عام ہوئی تو اطلاعات و نشریات کی وزیر مملکت مریم اورنگ زیب نے جو مریم نواز کے قریب ہیں، ایک بیان میں فرمایا کہ زاہد حامد استعفیٰ نہیں دیں گے۔ لیکن استعفیٰ بہرحال آکر رہا۔ حکومت اور تحریک لبیک یارسول اللہ کے مابین معاہدے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں دھرنے کو فوجیوں کا ’’پروجیکٹ‘‘ قرار دیا۔ جسٹس شوکت عزیز کی رائے غلط نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا میاں نوازشریف کی جماعت کو ختمِ نبوت کے قانون پر حملے کا مشورہ یا حکم بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے دیا تھا؟ کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہی زاہد حامد کو اُس وقت مستعفی ہونے سے روکا تھا جب دھرنے کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ حکومت نے دھرنے والوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے کیوں نہیں روکا؟ کیا اس کی ذمے داری بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سر ہے؟ میاں نوازشریف کے مقرر کردہ وزیراعظم اگر آرمی چیف سے مدد کی بھیک مانگتے نظر آئے تو کیا یہ بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے؟کیا ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر پابندیاں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے لگوائیں؟ جسٹس شوکت عزیز غور کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ یہ ساری حماقتیں ’’ہائوس آف شریف‘‘ اور نواز لیگ کے ’’شیر دل‘‘ اور ’’عالی دماغ‘‘ رہنمائوں کی ایجاد ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے صرف ’’فائدہ‘‘ اٹھایا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست ’’طاقت کا کھیل‘‘ ہے، اور طاقت کے کھیل میں کوئی کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتا۔
اس پورے منظرنامے کی افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ نزلہ اِس بار بھی ’’عضوِ ضعیف‘‘ یعنی وفاقی وزیر قانون زاہد حامد پر گرا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بنیادی حقیقت کسی کو بھی یاد نہیں۔ میاں نوازشریف ایک سیاسی ’’وڈیرے‘‘ اور نواز لیگ کے ’’گاڈفادر‘‘ ہیں۔ نواز لیگ کا کوئی رہنما، یہاں تک کہ شہبازشریف بھی میاں صاحب کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ نواز لیگ نے ختمِ نبوت کے تصور اور قانون پر حملہ کیا، اس کے اصل ذمے دار زاہد حامد یا انوشہ رحمن نہیں بلکہ اس کے اصل ذمے دار خود میاں نوازشریف یا ان کی ممکنہ جانشین مریم نواز ہیں۔ چنانچہ دھرنا دینے والوں کا مقصد تو ٹھیک تھا مگر دھرنا انہوں نے غلط جگہ دے ڈالا۔ دھرنا اسلام آباد میں نہیں بلکہ جاتی امراء میں ہونا چاہیے تھا۔ ایک اور دھرنا اسلام آباد میں ہونا چاہیے تھا اور اس کا مقام امریکی سفارتخانہ ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ پاکستان کا اسلامی تشخص امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا ’’دردِ سر‘‘ ہے۔ چنانچہ قیاس یہی ہے کہ ختم نبوت کے تصور پر حملے کی ہدایت امریکہ اور یورپ ہی سے آئی ہوگی۔ چونکہ میاں صاحب بہت تیزی کے ساتھ سیکولر اور لبرل ہوتے جارہے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنی سیاسی طاقت کے تکبر میں مبتلا ہوکر ختمِ نبوت کے تصور اور قانون پر حملے کی ہدایت کی ہوگی۔ میاں صاحب کی ہدایت کے بغیر نواز لیگ کا کوئی بڑے سے بڑا شیر بھی ختمِ نبوت کے قانون پر حملے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب میاں صاحب اور ان کا خاندان اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کے ساتھ مذاق کریں گے اور اللہ کے محبوبؐ کی حیثیت پر حملے کی منصوبہ بندی کریں گے تو پھر خدا کا ناراض ہونا یقینی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خدا ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی ’’صاحبِ تکریم‘‘ نہیں رہنے دیتا۔ بالخصوص ایسے انسانوں کو جو ’’مسلمان‘‘ ہونے کے دعویدار بھی ہوں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں صاحب اور ان کے پورے خاندان کو چاہیے کہ وہ سیکولر اور لبرل نظریات و خیالات سے توبہ کریں، لیکن بدقسمتی سے میاں نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ متکبر نہیں ہیں بلکہ تکبّر سے بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میاں صاحب کی ’’اصلاح‘‘ کا امکان بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں انہیں اپنے داماد ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کے برابر بھی فہم حاصل نہیں۔ کیپٹن(ر) صفدر نے دھرنے کے بعد ٹیلی وژن کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کا دھرنا، دھرنا نہیں درودو سلام کی محفل تھی۔
تجزیہ کیا جائے تو میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کی معذوری، حماقتوں اور سیکولرروش نے اسٹیبلشمنٹ کو مزید قوی بنادیا ہے۔ دھرنے کے آغاز سے اختتام تک جو کچھ ہوا اس کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ ہی ملک اور اس کے نظام کا محور ہے۔ دھرنے کا ایک پیغام یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ قوم کے مذہبی جذبات سے ہم آہنگ نہیں تو ان سے بہت دور بھی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کنٹرولڈ سیاست، کنٹرولڈ جمہوریت، کنٹرولڈ آزادیٔ اظہار کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو مذہبی جذبات بھی ’’کنٹرولڈ‘‘ ہی درکار ہیں۔ اس بات کا مفہوم کیا ہے، اس کا اندازہ 26 نومبر2017ء کے جنگ میں شائع ہونے والے منصور آفاق کے کالم سے بخوبی کیا جاسکتاہے۔ منصور آفاق اُن کالم نگاروں میں سے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی شہرت رکھتے ہیں۔ منصور آفاق نے لکھا ہے:
’’اب ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ اس مذہبی حلقے کو طاقت ور کیا جائے جو پاکستان میں سوادِ اعظم کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ مذہب سے دلچسپی نہ رکھنے والی سیاسی پارٹیاں کمزور ہوں اور ملک کی مذہبی شناخت جتنی ملک کے لیے فائدہ مند ہے اتنی برقرار رہے۔‘‘
اس اقتباس کی آخری سطر کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں مذہب اور ریاست کا تعلق یہ ہے کہ ریاست مذہب کی خادم نہیں بلکہ مذہب ریاست کا خادم ہے۔ اس تناظر میں دھرنا کا ایک پیغام یہ ہے کہ اگر امریکہ بہادر نے اسٹیبلشمنٹ پر ایک حد سے زیادہ دبائو بڑھایا تو امریکہ کے لیے ناپسندیدہ مذہبی قوتوں کے ابھار پر صرف ایک دن صرف ہوگا۔
دھرنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے مخصوص ذرائع ابلاغ کی اس رائے کو آگے بڑھایا کہ دھرنے سے ہزاروں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ اعتراض غلط نہیں تھا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکمران اپنی نقل و حرکت سے آئے دن ٹریفک جام کرتے رہتے ہیں لیکن ہماری اعلیٰ عدالتیں اور ذرائع ابلاغ کبھی اس صورتِ حال پر برہم نہیں ہوتے۔ کراچی میں الطاف حسین اور اُن کی جماعت برسوں تک پُرتشدد ہڑتالیں کراتی رہی مگر کسی اعلیٰ عدالت کو اس کا نوٹس لینے کی جرأت نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے اخبارات اور چینلز قوم کو یہ تک نہ بتاسکے کہ پُرتشدد ہڑتالوں میں جلائو گھیرائو کون کرتا ہے؟ ہمیں یاد ہے کہ عمران خان نے اسلام آباد میں 120 دن دھرنا دیا مگر کسی عدالت کو یاد نہ آیا کہ اس دھرنے سے قوم کو کیا تکلیف ہورہی ہے، لیکن چونکہ اسلام آباد کا دھرنا ایک مذہبی عقیدے، ایک مذہبی مسئلے پر ہورہا تھا اس لیے سب کو عوام کے ’’درد‘‘ کا احساس شدت سے ہورہا تھا۔ بلاشبہ بعض دھرنے والوں نے عدلیہ وغیرہ کے بارے میں اچھی زبان استعمال نہیں کی مگر میاں نوازشریف نے نااہل قرار پانے کے بعد عدلیہ کی کچھ کم توہین نہیں کی، لیکن کسی عدالت نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ اس سے دھرنے کے شرکاء کی خراب زبان کا جواز پیدا نہیں ہوتا مگر اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ عدالتوں کو کچھ لوگوں کی بری زبان محسوس ہوتی ہے اورکچھ لوگوں کی بری زبان محسوس نہیں ہوتی۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دھرنے والوں کی زبان و بیان کا سیرتِ طیبہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ بات درست ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی لوگوں کو خود تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر اہم ترین مذہبی و نظریاتی مسائل پر نظریاتی قوتیں اپنا کردار ادا نہیں کریں گی تو ان کے خلا کو کوئی نہ کوئی تو پُر کرے گا۔ اس لیے کہ زندگی کو خلا سے بیر ہے۔ بہرحال ان تمام حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ میاں نوازشریف اینڈ کمپنی کیا کررہی ہے اور اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کا بنیادی سبب کیا ہے؟