آخرکار 22 دن کے دھرنے،6 معصوم شہریوں کی ہلاکت، عدالت کی لعن طعن، کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری اور لاکھوں شہریوں کے سفری مشکلات سے دوچار ہونے کے بعد وہی ہوا جو دھرنے کے پہلے دن کیا جاسکتا تھا، بلکہ دھرنا شروع ہونے سے قبل ہی کردیا جاتا تو شاید دھرنا ہی نہ ہوتا۔ لیکن حکومت شاید اپنی رٹ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ حکومتی رٹ جو ملک کے کسی چھوٹے سے چھوٹے ادارے، کسی چوک اور کسی گلی محلے میں بھی نہیں نظر آرہی تھی، حکومت نے عوام اور اپوزیشن کے طعنوں کا جواب دینے کے لیے راولپنڈی اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر یہ رٹ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی، مگر 22 دن کے بعد سو پیاز اور سو جوتے کھاکر بھی اس کا تاثر نہ دے سکی۔ حکومت نہ تو طاقت سے اس چوک کو کھلوا سکی، نہ مذاکرات کے ذریعے ایسا کرسکی، اور جب فیض آباد کا ایک چوک کھلوانے کی کوشش کی تو ردعمل میں ملک بھر میں سیکڑوں بند کروا بیٹھی۔ اس طرح حکومتی رٹ تو کیا بحال ہونا تھی، حکومت اور اس کے کارپردازوں کو مزید سبکی، ذلت اور پشیمانی اٹھانا پڑی۔ ہرہر قدم پر حکومت کی نالائقی، معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محرومی اور مشکل صورتِ حال کو ہینڈل کرنے کی اہلیت سے تہی دامنی کا تاثر ابھرتا اور پھیلتا رہا۔ ہر حکومتی اقدام اس کے اپنے خلاف جاتا رہا، اس کی کمزوری کو ظاہر کرتا رہا، اور یہ تاثر عوام میں پوری حد تک پھیل گیاکہ حکومت صلاحیتوں سے محروم اور بے بس و بے اختیار ہی نہیں بلکہ اداروں اور مظاہرین سے ڈیل کرنے کی اہلیت سے بھی محروم ہے۔ اس سارے معاملے میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی مسلسل خاموشی اور شہبازشریف کی مداخلت نے نئی کہانیوں کو جنم دیا اور نئے شکوک و شبہات پیدا کیے۔
اب جبکہ فیض آباد (اسلام آباد) میں دھرنا دے کر بیٹھنے والے ایک معاہدے کے تحت اٹھ گئے ہیں، لاہور کی شاہراہ قائداعظم پر تاحال ایک گروپ دھرنا دیے بیٹھا ہے۔ مولانا ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کی قیاد ت میں بیٹھے ہوئے ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ صرف وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ کافی نہیں، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ بھی آنا چاہیے۔ دھرنے میں شہید ہونے والے افراد کی ایف آئی آر وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے خلاف درج کی جائے۔ یہ دھرنا کتنے دن چلتا ہے اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔
اسلام آباد کا دھرنا بھی اس حالت میں ختم ہوا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ شہریوں کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے حکومت کو راستہ کھلوانے یعنی فیض آباد انٹر چینج پر سے مظاہرین کا قبضہ ختم کرانے کے لیے سخت ترین احکامات اور ریمارکس دے رہی تھی اور آرمی چیف کے یہ بیانات اخبارات اور چینلز کی زینت بن رہے تھے کہ تشدد مسائل کا حل نہیں ہے، تشدد کا راستہ نہ اپنایا جائے۔ عوام میں یہ اطلاعات بھی گردش کررہی تھیں کہ آرمی چیف نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زاہد حامد سے استعفیٰ لے لے، مظاہرین پر تشدد ہرگز نہ کرے اور راجا ظفرالحق کمیٹی رپورٹ فوراً جاری کردے۔
حکومت اور تحریک لبیک یارسول اللہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق وفاقی وزیرقانون زاہد حامد مستعفی ہوگئے ہیں۔ حکومت 30 دن کے اندر راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ جاری کردے گی جبکہ مظاہرین 12 گھنٹے میں دھرنے کی جگہ خالی کردیں گے، جو انہوں نے خالی کردی ہے اور اب وہاں صفائی کے بعد ٹریفک رواں دواں ہے۔ اب تک مسلم لیگ (ن) سے وابستہ قومی و صوبائی اسمبلی کے 16 ارکان نے اپنے استعفے پیر سیالوی کو پیش کردیے ہیں۔ ان میں شریف خاندان کے انتہائی وفادار اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو اچھے وقتوں میں بائولنگ کرانے والے پنجاب کے ایک وزیر زعیم حسین قادری بھی شامل ہیں۔ گویا بند مٹھی سے ریت نکلنا شروع ہوگئی ہے جس کی نفسیات یہ ہیں کہ ایک بار یہ ریت مٹھی سے نکلنا شروع ہوجائے تو ریت کے آخری ذرے تک تمام ریت نکل کر رہتی ہے۔ جس کا فوری اثر یہ ہے کہ نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد فوری طور پر پنجاب ہائوس پہنچ گئے جہاں تازہ ترین صورتِ حال پر پارٹی کے سینئر رہنما مشاورت کے لیے پہلے سے موجود تھے۔ پیشی کے بعد نوازشریف اور مریم نواز نے میڈیا سے بات چیت کرنے سے گریز کیا، جبکہ کیپٹن(ر) صفدر نے ذومعنی جملے کہہ کر جان چھڑا لی۔
اسلام آباد کا دھرنا ختم ہونے سے حکومت اور عوام کو کچھ ریلیف ضرور ملا ہے لیکن مسئلہ مکمل طور پر حل ہوا ہے نہ پریشانی کامل انداز میں ختم ہوئی ہے۔ خدشات موجود ہیں اور شکوک و شبہات کے سائے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ان میں افواہوں، سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے پیغامات اور حکومت کے مبہم و مشکوک اقدامات اور بیانات کی وجہ سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔ یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ یہ معاملہ حکومت کی مس ہینڈلنگ یا ضرورت سے زیادہ اعتماد کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ آصف علی زرداری کے دور میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ صورتِ حال اُس وقت بھی ایسی ہی تھی لیکن آصف زرداری اور پیپلزپارٹی نے موجودہ حکومت سے زیادہ عقلمندی کا ثبوت دیا تھا اور کسی خون خرابے کے بغیر دھرنا ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ موجودہ حکومت اور اُس کے وزراء پہلے دن سے یہ تاثر دیتے رہے کہ یہ دھرنا دراصل خفیہ ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔ اس مقصد کے لیے پورے میڈیا کو استعمال کیا جاتا رہا۔ وزراء اپنے بیانات، تقاریر اور میڈیا ٹاکس میں یہ سوال کرتے رہے کہ دھرنا مظاہرین کو ٹرانسپورٹ، کھانا، قیام اور دوسری سہولیات کہاں سے آرہی ہیں اور کون فراہم کررہا ہے؟ میڈیا نے اس سلسلے میں بعض تاجروں کے نام بھی دیے کہ کھانا وغیرہ وہ فراہم کررہے ہیں، لیکن اُن کا ایجنسیوں کے ساتھ تعلق یا اُن کو کسی ایجنسی کی ہدایت سامنے نہ لاسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے اور حکمران اسی میں اپنے لیے عافیت تلاش کرتے ہیں کہ اصل مسئلے پر غور کرنے یا اُسے حل کرنے کے بجائے مختلف قسم کے سوالات اٹھادیے جائیں۔ عام طور پر یہ سوالات اپوزیشن جماعتوں سے کیے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ حکمران بڑے بڑے جلسے اور پروگرام کس کے مالی تعاون سے کرتے ہیں؟ تحریک لبیک کے دھرنے میں بھی اگر ایجنسیوں کی معاونت حکومت کے علم میں تھی تو اسے عوام کے سامنے لانا چاہیے تھا۔ لیکن حکومت نے الزامات کا آسان راستہ تلاش کرلیا اور اپنے اینکرز کو اس کام پر لگادیا، حالانکہ خود میڈیا یہ دکھاتا رہا ہے کہ لوگ پیدل اور موٹر سائیکلوں پر آتے اور وہاں بیٹھے ہوئے مظاہرین میں کھانا تقسیم کرتے تھے۔ کسی اینکر نے کسی حکومتی وزیر سے یہ نہیں پوچھا کہ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مظاہرین کو ایجنسیوں نے اکٹھا کرکے یہاں بھیجا ہے اور وہی ان کی ضروریات پوری کررہی ہیں تو کیا انتخابی اصلاحات بل میں عقیدہ ختم نبوت کی جس شق میں تبدیلی سے یہ فتنہ کھڑا ہوا ہے کیا وہ تبدیلی بھی کسی ایجنسی نے کی ہے یا حکومتی وزراء اس کے ذمہ دار ہیں؟ بدقسمتی سے اس تبدیلی پر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے بغیر پڑھے یا غور کیے دستخط کردیے۔ یہ ایک مجرمانہ غفلت اور کوتاہی ہے، لیکن عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ میں ڈیکلریشن تو انہوں نے تبدیل نہیں کیا۔ یہ تبدیلی تو بل بنانے والوں نے کی تھی، جن کی نشاندہی کا مظاہرین مطالبہ کررہے تھے۔ حکومت نے اب تک یہ نشان دہی نہیں کی کہ یہ تبدیلی کس نے کی ہے، یہ تبدیلی کیوں کی گئی ہے اور کس کے کہنے پر کی گئی ہے۔ نیز تبدیلی کرانے والی اتھارٹی نے اس بارے میں کہاں سے ملنے والی ہدایات پر عمل کیا ہے۔ یہ عقدہ اُسی وقت کھلے گا جب اس معاملے کی باریک بینی سے تحقیقات کی جائیں گی۔ ابتدائی طور پر وزیر قانون زاہد حامد پر شک ہوا، جنہوں نے اب استعفیٰ دے دیا ہے اور یہ وضاحت کی ہے کہ وہ پہلے دن سے مستعفی ہونے کو تیار تھے مگر انہیں پارٹی اور حکومتی قیادت نے روکے رکھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی زاہد حامد نے ازخود کی تھی، یا کسی کے کہنے پر کی تھی؟ اگر انہوں نے ازخود اتنا حساس مسئلہ چھیڑا تھا تو ان کا وزارت سے استعفیٰ کافی نہیں، انہیں سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔ اور اگر انہوں نے کسی اور کی ہدایت کو پورا کیا تھا تو اس کا نام سامنے آنا چاہیے۔
دینی حلقے طویل عرصے سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) بطور پارٹی ایک عرصے سے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو لبرل اور ترقی پسند ثابت کرنے کی کوشش میں ہے، حالانکہ اس کا ووٹ بینک، عمومی قیادت اور کارکن مذہبی رجحان رکھنے والے ہیں۔ اس مقصد کے لیے نوازشریف کے گرد ترقی پسند لیکن عملاً مذہب دشمن عناصر کا ایک گھیرا قائم کیا گیا۔ مشیروں کا درجہ رکھنے والے ان اسلام دشمن افراد نے نوازشریف کو ایسے ایسے سبق پڑھائے کہ انہوں نے ایک دینی مدرسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، علماء اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تمام دینی حلقوں کی مخالفت اور مزاحمت کے باوجود ممتاز قادری کو عجلت میں پھانسی دی گئی اور اس بڑے واقعے کی چینلز پر کوریج روک دی گئی۔ اسی مقصد کے تحت کبھی وزیر خارجہ امریکہ جاکر کہتے ہیں کہ ہم لبرل ہیں، اور کبھی نوازشریف شرمین عبید چنائے کو ضرورت سے زیادہ پذیرائی دیتے ہیں، حالانکہ ان کی دستاویزی فلمیں دنیا میں پاکستان کا گھنائونا چہرہ پیش کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ دراصل ہمارے حکمرانوں کے مغربی آقا توہینِ رسالت کے قانون 295-C کو ختم کرانا چاہتے ہیں، اور آئین میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی شق کو تبدیل کرانے کی مسلسل کوشش میں ہیں جس کی مزاحمت پوری قوم کررہی ہے، لیکن حکمران بغیر سوچے سمجھے ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں جن سے ان کے مغربی آقا یہ تاثر لیں کہ وہ ان کے بنیادی مطالبوں کو ماننے کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے بل میں عقیدہ ختم نبوت سے متعلق تبدیلی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کی کوشش کسی چھوٹی سطح سے نہیں، بلکہ پارٹی اور حکومت کی اعلیٰ ترین سطح سے کی گئی ہے۔ حکومت مغربی آقائوں کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ وہ تو بہت کوشش کررہی ہے مگر کامیاب نہیں ہوپارہی، اس لیے اس کی کوشش کی قدر کی جائے۔ اگر حکومت نے متذکرہ حساس تبدیلی واپس لے لی تھی تو ذمہ دار کے خلاف کارروائی بھی کردیتی۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ تاحال راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ جاری کرنے سے گریزاں ہے اور اس کے لیے تیس دن کی مہلت معاہدے میں لے چکی ہے جس سے مزید شکوک و شبہات جنم لیں گے۔ اس دوران 6 افراد کی ہلاکت ایک نیا مسئلہ ہے۔ حکومت اگر ان ہلاکتوں پر مدعیوں کو انصاف فراہم نہیں کرتی تو ایک اور تنازع کھڑا ہوجائے گا۔ جبکہ وزیر داخلہ کا یہ کہنا ہے کہ دھرنے پر آپریشن ان کے علم میں لائے بغیر کیا گیا ہے۔ انہیں اب اپنے اس بیان کو بھی ثابت کرنا ہوگا، ورنہ یہ معاہدہ بے اثر ہوگا اور لبیک یارسول اللہ تحریک کے لوگ کسی بھی دن اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے دوبارہ سڑکوں پر آسکتے ہیں۔