پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں امتِ مسلمہ کی بڑی تعداد آمدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منارہی ہے۔ جگہ جگہ چراغاں ہورہا ہے، عمارتیں سجائی جارہی ہیں اور آج 12 ربیع الاول کو جلسے ہوں گے، جلوس نکالے جائیں گے اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے مناقب بیان کیے جائیں گے۔ کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جس کے دل میں نبیٔ آخر الزماں کی محبت نہ ہو۔ اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہیں۔ گزشتہ دنوں راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر جو حضرات 22 دن تک راستے بند کرکے دھرنا دیے بیٹھے رہے اور اس کے اتباع میں کراچی سمیت مختلف شہروں میںدھرنے دیے گئے، لاہور میں ابھی تک دھرنا جاری ہے، اس سے قطع نظر کہ عوام کو شدید پریشانی ہوئی، لیکن یہ سب کچھ تحفظِ ناموسِ رسالت اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نام پر ہوا۔ پس منظر سے سب واقف ہیں کہ انتخابات کے امیدواروں کے لیے مخصوص فارم میں قادیانیوں اور احمدیوں سے اظہارِ برأت کے لیے ’’حلف‘‘ کی جگہ اقرار کے الفاظ شامل کردیے گئے تھے۔ اس جرم میں کون کون شامل ہے، اس کی تحقیقات جاری ہے۔ دھرنے دینے کے طریقے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسلمان ناموسِ رسالت پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے۔ جشنِ میلاد کے نام سے ہر سال جو کچھ ہوتا ہے اُس سے کئی سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ کیا عمارتوں کو سجانے اور جلسے جلوس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا حق ادا ہوجاتا ہے؟ اور یہ عمل کس حد تک سنت کے مطابق ہے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ جشن منانے والا ہر شخص سال میں ایک بار یہ عہد کرلے کہ وہ آئندہ کسی ایک سنت پر عمل کرے گا۔ اس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوش ہوں گے اور رب العالمین بھی۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ عموماً چراغاں بھی چوری کی بجلی سے ہوتا ہے جس سے ثواب کے بجائے گناہ ہوتا ہے۔ جلوس نکالتے ہوئے خاص طور پر یہ خیال رکھا جائے کہ راستے بند نہ ہوں اور عامۃ الناس کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہ پہنچے۔ عموماً مذہب کے نام پر نکالے جانے جلوس تکلیف کا سبب بنتے ہیں اور راستے بند کردینے سے لو گ محصور ہوجاتے ہیں۔ حکومتِ سندھ نے 12 ربیع الاول کے حوالے سے ایک ضابطۂ اخلاق بھی جاری کیا ہے۔ اس کے قواعد و ضوابط کی پابندی کی جانی چاہیے۔
اب یہ بحث پرانی ہوچکی ہے کہ کیا 12 ربیع الاول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی تاریخ ہے۔ رسول اکرم جب پیدا ہوئے اُس وقت عربوں میں یومِ ولادت کے اندراج یا اسے یاد رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے لیکن آپؐ کی وفات کی تاریخ مصدقہ طور پر 12 ربیع الاول ہے۔ چنانچہ برعظیم پاک و ہند میں کچھ عرصہ پہلے تک 12 ربیع الاول کو ’’بارہ وفات‘‘ کہا جاتا رہا ہے۔ خود احمد رضا خان بریلوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش 9 ربیع الاول قرار دی ہے اور بعض عرب محققین نے یکم ربیع الاول قرار دی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کب پیدا ہوئے اور کب وصال فرمایا، اصل بات یہ دیکھنا ہے کہ آپؐ کس لیے دنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے امت کو کیا پیغام دیا۔ لیکن جشن منانے والوں میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام تو امتِ مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق ہے۔ اسی کے بارے میں رب کریم کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کی رسّی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘ پورے عالمِ اسلام پر نظر ڈالیں تو ہر طرف مسلمانوں کی ہوا اکھڑی ہوئی ہے کیونکہ مسلمان تفرقے میں پڑے ہوئے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک کا مفہوم ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب دشمن مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا کہ اُس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے؟ فرمایا: نہیں، ان کی تعداد تو بہت ہوگی لیکن انہیں ’وہن‘ کی بیماری لاحق ہوگی۔ اور وہن کی تشریح یہ کی کہ انہیں موت کا خوف لاحق ہوگا اور زندگی سے پیار۔ تعداد میں آج مسلمان ڈیڑھ ارب ہیں لیکن موت سے ڈر کر زندگی سے چمٹے ہوئے ہیں، چنانچہ پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، میانمر، شام، عراق، افغانستان ہر جگہ حدیثِ رسولؐ کے مطابق دشمن مسلمانوں پر ٹوٹے پڑرہے ہیں اور حُبِّ رسولؐ کے دعویدار دبکے بیٹھے ہیں۔ البتہ نعرے لگانے اور جشن منانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ یہ علماء کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اظہار کا مسنون طریقہ بتائیں اور انہیں سنتِ رسولؐ پر عمل کی ترغیب دیں۔ جشن منانے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ صحابہ کرامؓ سے زیادہ کوئی اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی نہیں تھا۔ لیکن ان کی ساری توجہ ایک ایک سنت پر عمل کرنے کی طرف تھی۔ اسی طرح تابعین اور تبع تابعین بھی آپؐ کی پیدائش اور وصال کی تاریخوں پر توجہ دینے کے بجائے قرآن و سنت پر عمل کو حُبِّ رسولؐ کا تقاضا سمجھتے تھے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہی صحیح طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے روکنے اور راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور راستے سے آزار پہنچانے والی کسی چیز کو ہٹادینے کی تاکید کی ہے۔ راستے میں بیٹھنے کے بھی آداب بتادیے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی مسلمان کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچے، اور یہ کہ مسلمان، مسلمان کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر قتل و غارت گری عام ہے۔ بھائی بھائی کا، بیٹا باپ کا، اور باپ اپنی اولاد کا دشمن ہوگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی تحمل، برداشت اور دشمنوں تک کو معاف کردینے سے عبارت ہے، مگر امتِ مسلمہ کا عمل اس کے برعکس ہے۔ آج عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک مسلک سے تعلق رکھنے والا مسلمان اگر کسی دوسرے مسلک کی مسجد میں چلا جائے تو مسجد ناپاک ہوجاتی ہے اور ایسے دھوئی جاتی ہے جیسے کوئی نجس جانور داخل ہوگیا ہو۔ جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران سے آنے والے عیسائی وفد کو مسجد میں ٹھیرایا تھا اور وہاں ان کو اپنے طریقے پر عبادت کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔ کیا آج کے دن یہ تفرقہ اور ایک دوسرے سے نفرت کا طریقہ ختم کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کا عہد نہیں کیا جاسکتا؟ لیکن اس سے کچھ لوگوں کی لیڈری خطرے میں پڑ جائے گی۔