افغانستان: امریکی جارحیت کے 16سال

افغانستان پر اپنے لائو لشکر کے ساتھ سولہ سال پہلے حملہ آور ہونے والی امریکی اور اس کی اتحادی افواج افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے باوجود اپنے دعووں کے مطابق نہ تو افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکی ہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسے کچھ آثار نظر آرہے ہیں کہ پچھلے 40 سال سے جنگ وجدل کے شعلوں میں لپٹے ہوئے دنیا کے اس بدقسمت ترین خطے کو امن و چین نصیب ہوسکے گا۔ افغانستان میں امریکی جارحیت کو سولہ سال پورے ہوگئے ہیں اور ان سولہ برسوں میں دنیا کی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود امریکہ اپنے ان اہداف سے آج بھی کوسوں دور ہے جن کے حصول کا مقصد لے کر وہ اور اُس کی اتحادی افواج افغانستان میں وارد ہوئی تھیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت اور طالبان تحریکِ مزاحمت کو مختلف بین الاقوامی قوتوں سے ملنے والی سپورٹ سے افغان قضیہ حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ افغانستان کے کمزور انفرااسٹرکچر، میڈیا کے محدود کردار اور میڈیا کو لاحق خطرات، نیز میڈیا کو کنٹرول میں رکھنے کی ملکی اور بین الاقوامی پالیسی کے باوجود افغانستان میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا جب ملک کے طول وعرض سے سیکورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات اور اداروں پر حملوں کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت نہ بنتی ہوں۔ افغانستان میں جاری بدامنی کا اندازہ صرف ایک روز وقوع پذیر ہونے والے ان واقعات سے لگایا جا سکتا ہے جن کی مختلف میڈیا رپورٹوں میں نشاندہی کی گئی ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق قندھار میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں آٹھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں،جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ ایک اور رپورٹ جس کے مطابق لوگر صوبے کے عذرا ضلع میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں سات مسلح جنگجوئوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں ایک مقامی کمانڈر بھی شامل ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی مناسب ہوگی کہ امریکی افواج نے افغانستان میں ایک نئی جنگی حکمت عملی کے تحت دوردراز کے دشوار گزار علاقوں میں ڈرون حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس کے نتیجے میں اب تک کئی طالبان جنگجوئوں اور اُن کے کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کچھ عرصہ پہلے تک ڈرونز کا زیادہ تر استعمال پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کرتا رہا ہے اور اُس کی جانب سے اس ننگی جارحیت کی توضیح یہ بیان کی جاتی رہی ہے کہ یہ حملے پاکستان کی اجازت سے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد پاکستانی ریاست کی رٹ سے باہر ان مشتبہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانا ہے جو سرحد کے آرپار امریکی اور نیٹو فورسز کو نشانہ بنانے کے علاوہ افغان سیکورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ہونے والے ان ڈرون حملوں کے بارے میں خود امریکی حکام یہ انکشاف بھی کرچکے ہیں کہ شروع میں یہ حملے نہ صرف پاکستان کی رضامندی بلکہ مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین سے کیے جاتے تھے، البتہ جنرل پرویزمشرف کی رخصتی کے بعد یہ سلسلہ ماند پڑ گیا تھا، تب امریکہ نے اپنا یہ تمام نیٹ ورک افغانستان منتقل کردیا تھا اور بعد ازاں ہونے والے اکا دکا ڈرون حملے افغان سرزمین ہی سے آپریٹ ہوتے رہے ہیں جن پر بالعموم پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل اور احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ جہاں تک افغانستان کے اندر ڈرون حملوں کا تعلق ہے، ان میں تیزی تب سے دیکھنے میں آرہی ہے جب سے امریکہ نے ڈرون حملوں کا نیٹ ورک مبینہ طور پر پاکستان سے افغانستان منتقل کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں بعض سرکردہ طالبان راہنمائوں کے علاوہ زیادہ تر عام معصوم اور بے گناہ لوگ ہی نشانہ بنتے رہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ جب کہ بعض امریکی رپورٹوں میں خود یہ اعتراف کیا جاچکا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں میں جاں بحق یا زخمی ہونے والوں کی کُل تعداد میں دو سے صرف پانچ فیصد تک ہی ’’مطلوب دہشت گرد‘‘ نشانہ بنتے رہے ہیں، جب کہ بقیہ پچانوے فیصد عام نہتے افراد تھے۔
افغانستان میں جاری تشدد اور بدامنی کی تازہ لہر میں فریاب صوبے میں حکومت کے حمایت یافتہ امن لشکر کے تین جنگجوئوں کو ہلاک کیاگیا ہے جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرتے ہوئے سرکاری سرپرستی میں بننے والے امن لشکروں کو خبردار کیا ہے کہ طالبان کے خلاف حکومت اور سیکورٹی فورسز کا ساتھ دینے والوں کا وہی حشر ہوگا جو گزشتہ سوموار کے روز صوبے فریاب میں امن لشکر کے تین وابستگان کا کیا گیا ہے۔ گزشتہ سوموار کے روز صوبہ لوگر کے دارالحکومت پل عالم میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر سمیت گیارہ دیگر افراد کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ اس علاقے میں پولیس اور سیکورٹی فورسز پر ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہاں متعدد مواقع پر سیکورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔
افغانستان میں جاری جنگ وجدل میں کچھ عرصہ پہلے تک بظاہر چار بڑے فریق تھے جن میں ایک امریکہ اور اس کی اتحادی نیٹو فورسز، دوم امریکہ کی کٹھ پتلی افغان اتحادی حکومت اور افغان سیکورٹی فورسز، سوم طالبان جو مختلف علاقائی دھڑوں کی جنگی حکمت عملی کے تحت امریکی، نیٹو اور افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف نبردآزما ہیں، اور چوتھی قوت حزبِ اسلامی افغانستان تھی جو بعض افغان صوبوں میں نہ صرف خاصا اثررسوخ رکھتی تھی بلکہ اس کے جنگجوئوں کی جانب سے امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف جنگی کارروائیوں کی اطلاعات بھی تواتر سے سامنے آتی رہی تھیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدے میں شامل ہونے کے بعد مزاحمت اور طاقت کے ذریعے بیرونی جارح قوتوں کی افغانستان سے اخراج کی حامی ماضی کی سب سے بڑی اور منظم جہادی تنظیم حزب اسلامی اور اس کے روپوش بلکہ امریکہ اور افغان حکومت کو مطلوب راہنما انجینئر گلبدین حکمت یار نہ صرف مسلح مزاحمت کے اپنے چالیس سالہ مؤقف سے رجوع کرچکے ہیں بلکہ متذکرہ امن معاہدے کے نتیجے میں وہ طویل روپوشی اور خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے کابل میں میں داخل ہوکر سیاسی جدوجہد کا آغاز بھی کرچکے ہیں۔ حزبِ اسلامی کے جہادی اور عسکری خلا کو ان علاقوں میں اب داعش پُر کرنے کی کوشش کررہی ہے جن علاقوں میں کچھ عرصہ پہلے تک حزبِ اسلامی کا اثروسوخ تھا۔ ان علاقوں میں زیادہ تر افغانستان کے شمال مشرقی علاقے شامل ہیں جہاں سے نہ صرف داعش کی موجودگی اور اس کی بعض کارروائیوں کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں بلکہ ان علاقوں میں بعض مقامات پر طالبان اور داعش کے آمنے سامنے ہونے اور ایک دوسرے پر حملوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ ایسی ہی ایک اطلاع گزشتہ منگل کو ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے مشرقی صوبے ننگرہار میں ایک مقامی جامع مسجد قنبر علی خان کے پیش امام کو داعش سے مبینہ طور پر رابطہ رکھنے اور مقامی طور پر داعش کو منظم کرنے کے الزامات کے تحت قتل کیا ہے۔ داعش اور طالبان کے درمیان جھڑپوں سے متعلق خبریں پہلے بھی سامنے آچکی ہیں اور اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ طالبان اور داعش کے درمیان افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنی اپنی پوزیشنیں مستحکم کرنے کے لیے اگر ایک جانب بہت عرصے سے محاذ آرائی جاری ہے تو دوسری جانب کچھ عرصہ پہلے سابق افغان صدر حامد کرزئی یہ تلخ سچ بھی اگل چکے ہیں کہ داعش کو براہِ راست امریکی سرپرستی حاصل ہے اور امریکی کوششوں ہی سے داعش کو طالبان کے مقابلے میں منظم کیا جا رہا ہے۔ حامد کرزئی تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ امریکہ داعش جنگجوئوں کو مختلف علاقوں میں اتارنے اور انہیں رسد پہنچانے کے لیے اپنے جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرچکا ہے۔
افغانستان میں جاری بحران کا ایک اور قابلِ غور پہلو افغان حکومت کے بعد حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کی جانب سے پچھلے دنوں اس خبرکا منظرعام پر آنا ہے کہ طالبان کو روس سپورٹ کررہا ہے اور روس افغانستان میں وہی کردار دُہرا رہا ہے جو 1980ء کی دہائی میں امریکہ نے ادا کیا تھا۔ گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ شام اور عراق میں امریکہ مخالف قوتوں کی پشتی بانی کی کامیاب جارحانہ حکمت عملی کے بعد روس نے یوکرائن کے بحران میں امریکی مداخلت کا حساب برابر کرنے کے لیے افغانستان میں طالبان کی سپورٹ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ افغانستان کے اسٹیج پر پہلے سے موجود امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے علاوہ ایران، چین، سعودی عرب اور ترکی کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان میں فعال کردار کی ادائیگی کے ذریعے بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانے کے عزائم، نیز روس کی جانب سے طالبان کو سپورٹ کرنے کے امریکی اور افغان حکومت کے الزامات کے تناظر میں افغان بحران مستقبل قریب میں حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ اور تباہ کن صورت اختیار کرنے کے خدشات مزید بڑھتے جا رہے ہیں، جس کا تمام تر خمیازہ تباہی اور بربادی کی صورت میں جہاں افغان عوام کو بھگتنا ہوگا وہاں ان تباہ کن اثرات سے افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص ایران اور پاکستان کے لیے بھی بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہٰذا وقت اور حالات، نیز حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان، ایران اور چین کو متذکرہ خطرناک اثرات سے بچنے کے لیے اور افغان قضیے کا کوئی دیرپا اور پُرامن حل نکالنے کی غرض سے جتنا جلدی ہوسکے، کسی مشترکہ میکنزم پر متفق ہونا پڑے گا، بصورتِ دیگر ان تینوں ممالک کو افغانستان کی دلدل سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا انتہائی مشکل ہوگا۔