نعت

سیرت النبیﷺ
اوج سبزواری

جی میں ہے مدح شہنشاہِ دو عالم لکھیے نعتِ محبوبِ خداوندِ معظم لکھیے
وصف سرتاجِ رسولانِ مکرم لکھیے سیرتِ پاک کی تفسیرِ مجسم لکھیے
صدقِ دل سے کوئی چاہے جو مسلماں ہونا
فرض سمجھے شہِ والا کا ثنا خواں ہونا
فیض کا اُن کے زمانے میں ہے دریا جاری اُن کے انعام سے معمور ہے دنیا ساری
دونوں عالم کی عطا انؐ کو ہوئی سرداری ایک ہی ذات ہے بس ذاتِ حبیبِ باری
کہیں دنیا میں کسی طور نہ ہوگا کوئی
ایسا یکتا نہ ہوا اور نہ ہوگا کوئی
کلمہ گو ہیں اسی ذات کے سب وحش و طیور جن کا مداح ہے قرآن میں خود ربِ غفور
شمعِ توحیدِ رسالت کا چمکتا ہوا نور مالکِ خلد و جناں بادشہِ حور و قصور
اُن کے درجے تھے بڑے اُن کے مراتب عالی
بزمِ کونین میں اُن کا نہیں ہمسر کوئی
متواضع تھے وہ اس درجہ بہ ایں شانِ کمال خلق ایسا کہ نہیں جس کی زمانے میں مثال
رَد نہ فرماتے تھے کرتا تھا اگر کوئی سوال دوست تو دوست وہ دشمن کا بھی کرتے تھے خیال
نہ برا کہتے تھے اُس کو نہ سزا دیتے تھے
کوئی دیتا تھا جو ایذا تو دعا دیتے تھے
آپؐ کو حق نے کیا دونوں جہاں کا مختار پھر بھی تھا خوفِ الٰہی سے ہمیشہ سروکار
ڈالتے تھے نہ صحابہ پہ کبھی اپنا بار حفر خندق میں کیا سب کی برابر ایثار
اُس کی اس شان کا مضموں کوئی کیونکر باندھے
بھوک میں جو شکمِ پاک پہ پتھر باندھے
فکرِ امت میں نہ آرام کبھی جس نے جو پایا فقط اُن کے کرم سے پایا
اُس کو آغوشِ طرب میں کرم اُن کا لایا اٹھ گیا باپ کا جس بچے کے سر سے سایا
جی میں تو ہے یہی تھک جایئے اتنا لکھیے
مگر اوصاف کی جب حد نہ ہو تو کیا لکھیے
اُن کے اوصاف ہیں اتنے کہ نہیں جن کی حد اُن کے الطاف ہیں اتنے کہ نہیں جن کی حد
رحم و انصاف ہیں اتنے کہ نہیں جن کی حد اُن کے وصاف ہیں اتنے کہ نہیں جن کی حد
شانِ الطاف و عنایاتِ اتم کیا کہیے
کتنی تھی وسعتِ دامانِ کرم کیا کہیے
کام سب اپنا کیا کرتے تھے محبوبِ خدا جاکے بازار سے خود لاتے تھے اپنا سودا
راستے میں انھیں ملتے تھے جو ایسے ضعفا بوجھ لے کر جنہیں دشوار تھا چلنا پھرنا
دیکھا جاتا نہ تھا ضعف و غم و حرماں ان کا
اپنی آغوش میں لے لیتے تھے ساماں اُن کا
دیکھتے تھے جو مسلماں کا جنازہ کوئی ساتھ ہو جاتے تھے اُس کے یہ تھی عادت ان کی
اُس کو پھر دفن کراتے تھے مدد سے اپنی یہ کرامت، یہ عنایت کہیں دیکھی نہ سُنی
اتنی زحمت یہ کرم اتنے معظم ہوکر
اتنا ایثار شہنشاہِ دو عالم ہوکر
اوجؔ اب ختم کرو طول بیاں ہوتا ہے طولِ تقریر سماعت پہ گراں ہوتا ہے
وصف اُس ذات کا انساں سے کہاں ہوتا ہے جس کا مداح خدائے دو جہاں ہوتا ہے
پڑھنے کو وصفِ نبیؐ میری زباں عاجز ہے
میں تو انساں ہوں فرشتہ بھی یہاں عاجز ہے