بعثت نبوی ﷺ کی اقتصادی برکات

عبدالکریم عابد
نبوتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تاریخِ انسانی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، اور نہ صرف مذہب و معاشرت اور سیاست و حکومت بلکہ معاشیات کی دنیا بھی بدل جاتی ہے۔ یہ معاشی انقلاب پہلے سرزمینِ عرب میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کے بعد اقوام و ممالک، عالمی اور بین الاقوامی سطح پر اس انقلاب کی معاشی برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا پر ایک عام اقتصادی پس ماندگی اور معاشی جمود کا غلبہ تھا، اور سب سے برا حال عربوں کا تھا۔ تجارت پر قریش کی اجارہ داری تھی اور قریش ہی تمام عرب قبائل پر معاشی خدائی بھی کرتے تھے، اس کا سبب عربوں کا مشرکانہ نظام تھا۔ ہر قبیلے کا بت جدا تھا۔ اس طرح عرب کوئی قومی وجود نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جب درمیان سے بت ہٹ گئے اور قبائل دینِ حنیف پر متحد ہوگئے تو عربوں کی متحدہ قومیت اور وطنیت کا بھی اظہار ہوا، اور یہ عقیدۂ توحید کی برکت تھی۔ اگر عرب قبیلوں میں منقسم اپنے اپنے بتوں کی پرستش میں لگے رہتے اور ان کے درمیان قبائلی عصبیتوں اور جنگوں کا سلسلہ چلتا رہتا تو وہ نہ کبھی ایک قوت بنتے اور نہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کے مالک بنتے۔ اسلام نے ان میں جو ایمان اور اتحاد پیدا کیا وہ ایک نئے سیاسی اور معاشی نظام پر منتج ہوا جس میں عدل تھا اور دودھ پینے والے بچے تک کا بھی وظیفہ مقرر تھا۔ مجموعی خوش حالی ایسی تھی کہ زکوٰۃ لینے والے مشکل سے ملتے تھے۔
نبوتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عربوں کے مشرکانہ نظام کی نوعیت یہ تھی کہ قریش ’برہمن‘ بن گئے تھے۔ ابتدا میں یہ تجارت کرتے تھے اور اپنے تجارتی قافلوں کو لوٹ مار سے بچانے کے لیے انھوں نے مسلح دستے رکھنے شروع کیے، اور اس طرح تجارتی قوت کے پہلو بہ پہلو وہ فوجی قوت کے بھی مالک بن گئے۔ اس فوجی قوت کے زور پر انھوں نے تمام عرب قبائل کو باری باری زیر کیا اور ان کے بت لا لا کر خانہ کعبہ میں رکھتے گئے، اور ان بتوں کی پوجا کرنے والے قریش ان کو اپنے بتوں کا متولی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس حیثیت میں نذرانہ دینا اور قریش کی تمام شرائط کو ماننا بھی ان کے لیے ضروری تھا۔ قریش نے ہر قبیلے کے لیے ایک دن مقرر کیا تھا جب وہ خانہ کعبہ میں آکر اپنے بت کی زیارت کرسکتا تھا اور رسومات ادا کرسکتا تھا۔ اس کے عوض قریش ان سے طرح طرح کے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ کسی قبیلے کو اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز لانے کی اجازت نہیں تھی۔ ضرورت کی ہر چیز قریش سے خریدنا پڑتی تھی۔
شرک کے نظام کے سبب قریش کو مذہبی مجاورت، سیاسی اقتدار اور معاشی فوائد حاصل تھے۔ اس لیے جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے خلاف آواز اٹھائی تو سردارانِ قریش چیخ اْٹھے کہ یہ تم کیا ہماری بنیادوں پر ہی ضرب لگا رہے ہو، ہم تمھاری ہر بات ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن اس شرک کے نظام کی گنجائش نکال لو، کیونکہ شرک کے خاتمے اور توحید کے رواج پانے کا مطلب ہماری موت ہے۔ اس طرح قبائل پر جو اقتدار اور استحصال ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ عقیدۂ توحید نے اس ناجائز اقتدار اور استحصال کو ختم کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی توحید کی قوت نے عربوں اور خود قریش کو معاشی طور پر وہ فوائد پہنچائے جو کبھی ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتے تھے۔
قبائلی زندگی میں اقتصادیات بہت محدود ہوتی ہے۔ لیکن جب قبائل مل کر قوم بنتے ہیں تو ایک مستحکم ریاست وجود میں آتی ہے، جس میں امن و امان ہوتا ہے، قانون کا حکم چلتا ہے اور جان و مال کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ عربوں کی قبائلیت کا سبب ان کے علیحدہ علیحدہ بت تھے۔ یہ درمیان سے اٹھ گئے تو وہ ایک اور نیک ہوئے۔ ان عربوں کے لیے ایسے سازگار اقتصادی حالات پیدا ہوئے جن میں قومی اقتصادیات ترقی پا گئی اور بین الاقوامی تجارت کو ایسا فروغ حاصل ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
شرک کے نظام نے صرف عرب میں ہی نہیں، دنیا کے بہت سے حصوں میں اقتصادیات کو زوال و انحطاط سے دوچار کررکھا تھا، کیونکہ شرک کا لازمہ جاہلانہ تصورات اور اوہام ہیں۔ مثلاً ہندوستان میں سمندر کے سفر کو گناہ سمجھا جاتا تھا اور یہ عقیدہ بنادیا گیا تھا کہ جو ہندوستان سے باہر جائے گا وہ ہندو سے غیر ہندو ہوجائے گا۔ اس عقیدے کے پس منظر میں برہمنوں کی خواہشِ استحصال بھی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ بیرونی افراد اور بیرونی ملکوں سے رابطے عام ہوگئے تو ان کے اقتدار و استحصال پر ضرب لگے گی۔ سمندر کا سفر یا بیرونِ ملک کا سفر تو بڑی بات ہے، ہندو سوسائٹی میں اپنی زمین چھوڑنے اور دیہات سے شہر تک کے سفر کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ خوف زدہ لوگ سیر و سیاحت کے بجائے اپنے کنویں کے مینڈک یا جس کولہو میں جوت دیے گئے اسی کے بیل بنے رہتے تھے۔ لیکن جب برعظیم پاک و ہند میں مسلمان آئے اور ہندوؤں نے بھی اسلام قبول کرنا شروع کیا تو ہندوستانی معاشرے میں ایک نیا انقلابی اقتصادی عنصر پیدا ہوگیا، جس نے ایک طرف ہندوستان کی بحری تجارت کو فروغ دیا، سورت جیسی بندرگاہیں وجود میں آئیں اور خود اندرونِ ملک بھی تجارت اور روزگار کے لیے سفر کو باعثِ ظفر سمجھا گیا۔ سری لنکا اور دیگر کئی علاقوں کے ہندو اور بودھ راجاؤں نے سمندری تجارت کو فروغ دینے کی خاطر لوگوں کے قبولِِ اسلام کی حوصلہ افزائی کی۔ بعض راجاؤں نے اپنے بیٹوں کو مسلمان ہونے کے لیے کہا، اور بعض خود مسلمان ہوگئے، کیونکہ ہندو دھرم اور اس کے جاہلانہ قاعدے، قوانین اجتماعی اور مملکتی معاشی ترقی کی راہ میں حائل تھے۔
انسانوں کے درمیان چھوت چھات کے فلسفے، عامۃ الناس کو علم و سائنس سے بے بہرہ اور جاہلِ محض رکھنے پر اصرار، طرح طرح کی اوہام پرستیاں، محنت کشوں، دست کاروں، ہنرمندوں کی قدر افزائی کے بجائے انھیں ’شودر‘ اور ناپاک قرار دینے کا فلسفہ، غیر ملکیوں سے رابطہ قائم کرنے اور ان سے کچھ سیکھنے سکھانے کے بجائے انھیں ملیچھ سمجھنا اور ایسے کئی دوسرے امور تھے جن کی وجہ سے ہندوستان کی معاشیات آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اور اس کا ارتقا رُک گیا تھا۔ یہ اقتصادی جمود اُس وقت ختم ہوا جب ہندوستانی معاشرے میں مسلمان آئے اور اسلام پھیلا۔ اسلام نے ہندوستانیوں کو بتایاکہ وہ مذہب جو انسانوں کو مختلف قسم کے اونچے نیچے اور مستقل اعلیٰ و ادنیٰ گروہوں میں تقسیم کرتا ہے، استحصال کے لیے برہمنوں کا ڈھکوسلہ ہے۔ اسلام میں ایک شودر کا بچہ بھی سوداگر بن سکتا ہے یا عالم اور سائنس دان ہوسکتا ہے۔ اور اسلام نے اہلِ حرفہ اور اہلِ پیشہ، یعنی کسبِ حلال کرنے والوں کو اللہ کا دوست قرار دیا ہے اور دیانت دار تاجر کا رتبہ صدیق و شہید سے کم نہیں۔
دنیا کے جن ملکوں میں قیصر وکسریٰ کا نظام تھا، وہاں کاشت کار اور دست کار کی حالت تباہ تھی۔ بادشاہ اور امرا کے ٹیکسوں نے لوگوں کی کمر توڑ رکھی تھی۔ یہ لوگ ظلم و جبر کے طریقوں سے جو بھاری بھاری ٹیکس وصول کرتے تھے اس کا بڑا حصہ اپنی عیاشیوں اور بے جا تکلفات پر اڑا دیتے تھے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں قیصر و کسریٰ کے اس معاشی نظام کا نقشہ کھینچا ہے۔ حالت یہ تھی کہ امرا کے کمر میں باندھنے کے پٹکے 80 ہزار درہم کے ہوتے تھے۔ لوگوں کے خون پسینے کی کمائی جو ٹیکسوں کی صورت میں لی جاتی تھی، مفادِ عامہ پر صرف نہیں ہوتی تھی۔ یہ یا تو نام نہاد مذہبی طبقہ لے اڑتا تھا یا قصیدہ گو شاعر، بھانڈ،گویّے لے جاتے تھے۔ عوام کے روپے سے طوائفیں پالی جاتی تھیں یا وہ فوج جو عوام کو دبانے اور کچل کر رکھنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ کاشت کار اور دست کار کے بوجھ کو کم کرے، ملک میں نہروں کا انتظام بہتر بنائے، سڑکوں کی حالت ٹھیک کرے، مسافر خانے، مدرسے اور شفاخانے قائم کرے۔ غرض ایک بدترین استحصالی نظام تھا، اور مسلمانوں نے جب اس نظام پر ضرب لگائی اور یہ نظام ٹوٹا تو سب سے زیادہ فائدہ دبے اور کچلے ہوئے طبقات کو پہنچا۔ قیصر و کسریٰ کے جابرانہ اور ظالمانہ نظام کے خاتمے نے عام انسانوں کی معاشی حالت کو بہتر بنایا۔ ان پر سے معاشی ظلم ختم ہوا۔ دنیا نے اقتصادی عدل کا نظارہ کیا۔
یورپی اور عیسائی مؤرخین نے خود لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں بڑی بڑی بادشاہتوں کی بساط اس لیے الٹ گئی کہ عوام کے دل ان کے ساتھ نہیں تھے۔ اور جب عوام نے مسلمانوں کا طرزِ حکومت دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔ خاص طور پر ٹیکسوں کی وصولی کا ظالمانہ نظام ختم ہوگیا۔ مسلمان حکمرانوں نے جہاں بھی حکومت کی، نہروں کا عمدہ انتظام کرنے، شفاخانے، مدرسے اور تعلیمی ہاسٹل قائم کرنے اور لوگوں کے لیے مادّی سہولتیں فراہم کرنے پر خاص توجہ دی، کیونکہ حکمرانوں پر مذہباً یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ وہ اپنی رعایا کی بہتری کے لیے تدابیر اختیار کریں۔ مسلمانوں نے جب مصر پر قبضہ کیا تو حضرت عمرؓ نے والیِ مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کو لکھا کہ مصر کی اقتصادی خوش حالی کے لیے جو تدابیر ضروری ہیں وہ معلوم کریں۔
مؤرخ ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ: مصر میں نہروں کی کھدائی، سڑکوں، پُلوں کی تعمیر اور دوسرے تعمیراتی کاموں پر ایک لاکھ 24 ہزار مزدور لگائے گئے، اور ان مزدوروں کا کام سردی، گرمی جاری رہتا تھا۔ زمانۂ قدیم میں دریائے نیل سے ایک نہر نکال کر بحیرۂ قلزم سے ملائی گئی تھی۔ بعد میں یہ نہر اَٹ گئی اور بند ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اس نہر کو دوبارہ جاری کیا جائے، اور نہر کو جاری کرنے کے لیے مسلسل چھے ماہ کام ہوتا رہا۔ اس نہر کی تکمیل پر مصر کے زرخیز علاقوں اور حجاز کے درمیان آمدورفت شروع ہوگئی۔ بصرہ میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے ایک نہر کھدوائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے زیر اہتمام بھی ایک نہر کی تعمیر شروع ہوئی تھی جو دورِ حجاج میں مکمل ہوئی۔
مسلمانوں کے عہد میں اقتصادی ترقی کے سبب نئے نئے شہر آباد ہوئے اور پرانے شہروں میں نئی جان پڑ گئی۔ مسلمانوں کی بین الاقوامی تجارت نے عرب و ہند، چین و روس اور افریقہ و یورپ تک اپنا سلسلہ بڑھایا۔ یہ تجارتی کارواں ایک نئی اور بہتر زندگی کا عنوان بن گئے۔ ان کی وجہ سے اقتصادیات اور تہذیب کی رگوں میں نیا خون دوڑنے لگا۔ بحری تجارت نے دنیا کے مختلف براعظموں میں رشتہ قائم کردیا اور یہ اقتصادی رشتہ دنیا کے تہذیبی ارتقا کا بھی سبب بن گیا۔ اس اقتصادی ترقی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلام نے رہبانیت اور ترکِ دنیا کے رجحان کو ناپسند قرار دیا۔ عیسائی پادری یا دوسرے مذہبی لوگ معاشی سرگرمیوں کو ناپسندیدہ اور مکروہ سمجھتے تھے، لیکن اسلام نے ہر قسم کی اقتصادی جدوجہد اور سرگرمی کی حوصلہ افزائی کی۔ لوگوں کو سفر پر مائل کیا، سیاحت اور تجارت کی خوبیاں بیان کیں۔ دست کار طبقے کو عزت دی گئی، اسے اللہ کا حبیب قرار دیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں نے ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں قیصر و کسریٰ اور برہمنی نظام کے استحصال کا خاتمہ کیا گیا تھا۔
مسلمان جب ترقی کی راہ پر گامزن تھے، انھوں نے بے کار اور بے ہودہ علوم و فنون کے بجائے اُن علوم و فنون پر توجہ دی، جو انسانیت کے لیے مادّی طور پر منفعت بخش تھے۔ انھوں نے طرح طرح کی ایجادات کیں اور سائنس کو آگے بڑھایا۔ یہ ساری برکات جو اقتصادیات کی دنیا میں ظاہر ہوئیں اسلام کی وجہ سے تھیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لیے نہ صرف روحانی بلکہ مادّی اور خالصتاً معاشی اعتبار سے بھی ایک نعمتِ عظمیٰ ثابت ہوئی۔