محض تفننِ طبع

محمد طارق غازی ایک بڑے صحافی ہیں۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی پہچان بڑے زوروں سے منوائی ہے لیکن ان کے اجداد کا حوالہ بھی بڑا بھرپور ہے۔ علمی و ادبی خانوادے سے تعلق ہے اور ایک نہایت معتبر حوالہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند کا ہے جو موصوف کے نانا تھے۔ اتفاق سے قاری صاحب کی زیارت کا شرف ہمیں بھی حاصل رہا جب وہ لاہور میں جامعہ اشرفیہ کی نئی عمارت کے افتتاح پر تشریف لائے تھے۔ خود طارق غازی سے جدہ میں سرسری ملاقاتیں رہیں جہاں وہ ایک انگریزی اخبار سے وابستہ تھے۔ اب وہ کینیڈا میں ہیں اور محترم عبدالمتین منیری کے توسط سے اُن کا تبصرہ موصول ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اگرچہ جناب اطہر ہاشمی کی یہ تحریر اور ایسی تحریریں تفنن طبع کا سامان بہم پہنچاتی ہیں اور کبھی لوگوں کے کان میں دم کرتی ہیں، کبھی گھٹنے میں سردرد کرتی ہیں، مگر ان تحریروں سے وہ فائدہ ہرگز نہ ہوگا جس کی ہم سب توقع کرتے ہیں۔ ہندوستان میں مدت سے ہندی کے ادیب ’’خلافت‘‘ بمعنی’’مخالفت‘‘ استعمال کرتے آرہے ہیں۔ جیسے ہندوستان

پاکستان میں 1947ء سے آج تک خلافت چلی آرہی ہے۔ اللہ مبارک کرے۔
ایک پاکستانی ٹیلی وژن چینل پر خبروں کے دوران میں خبری پٹی پر لکھا تھا ’’سکوت ڈھاکہ کے بعد…‘‘ غالباً مراد یہ تھی کہ سقوط کے بعد سکوت ہوگیا اور اس کے بعد…
بہرحال اصل مسئلہ یہ ہے کہ اردو کو آسان بنانے کی مہم میں اس زبان کو اس کی عربی، فارسی اساس سے لاتعلق کردیا گیا۔ اب اطہر ہاشمی صاحب لاکھ چیختے رہیں پرنالہ وہیں گرے گا جہاں سرسید سے ظ انصاری اور عزیز بگھروی تک اسے گرانے پر بضد تھے۔ اب بے زبان لوگوں کو الزام دے کر کیا حاصل جو سقوط اور سکوت کے معنی تو درکنار، ہجے بھی نہیں جانتے۔ اس محروم نسل کو تو شاید کسی نے قرآن شریف بھی نہیں پڑھایا۔
اس ’’مردنی‘‘ پہ کون نہ مرجائے اے خدا
مرتے ہیں اور مرنے کا ارمان بھی نہیں
بہرحال اگر اہلِ پاکستان اور اُن سے زیادہ اربابِ پاکستان کسی بھی درجے میں اردو سے کوئی تعلق رکھتے ہیں تو کم سے کم پانچویں جماعت سے گریجویشن تک عربی، فارسی کی لازمی تعلیم کا انتظام کریں، ورنہ اردو مرحومہ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سے بدتر ہوگا، اور بقول فیض:’’ہم دیکھیں گے…‘‘
(محمد طارق غازی۔ اونٹاریو۔ کینیڈا)
اتنے بڑے صحافی اور عالم کا اعتراض سر آنکھوں پر، لیکن ان کی اس بات سے، بہت معذرت کے ساتھ، اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ ان تحریروں سے وہ فائدہ ہرگز نہ ہوگا جس کی ہم سب توقع کرتے ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ ان کی توقعات کیا ہیں، لیکن کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہورہا ہے ورنہ آپ بھی اپنا وقت ضائع نہ کرتے۔ اردو جب سے وجود میں آئی ہے اس کی تہذیب کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس کے بارے میں آپ سے زیادہ کون واقف ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری تحریر تفننِ طبع کا سامان بہم پہنچاتی ہو لیکن ٹھوس مقالے اور علمیت جھاڑے بغیر ہلکے پھلکے انداز میں زبان کی اصلاح ہوجائے تو کیا حرج ہے۔ ان تحریروں کا اثر بھی ہورہا ہے اور پذیرائی بھی۔ اس ضمن میں رشید حسن خاں نے بڑا سنجیدہ کام کیا ہے، اور بھی کئی لوگ ہیں جنہوں نے زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے اور ان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بھی پیش پیش ہیں۔ ہماری ان تحریروں کا اصل مقصد تو اپنے صحافی بھائیوں کی زبان اور بیان کی غلطیاں درست کرنا ہے اور اس کا فائدہ ہورہا ہے۔ طارق غازی صاحب خود دیکھیں کہ انہوں نے ’سقوط‘ اور ’سکوت‘ پر گرفت کی ہے۔ ان کا یہ مشورہ صائب ہے کہ عربی، فارسی کی شدبد کے بغیر اردو بہتر نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے ایک مشہور شعر میں پیوندکاری کی ہے لیکن دوسرا مصرع ’’مرتے ہیں اور مرنے کا ارمان بھی نہیں‘‘ بے وزن ہوچکا ہے۔ بہتر ہے ’مرنے‘ کی جگہ ’موت‘ استعمال کریں۔ واضح رہے کہ ہم ہرگز بھی شاعر نہیں ہیں لیکن ’مرنے‘ سے سکوت والا سکتہ پیدا ہورہا ہے۔
پاکستان کے ایک کثیر الاشاعت اخبار کی 28 نومبر کی اشاعت میں ایک دلچسپ سرخی ہے ’’مدفن جوڑے کی قبرکشائی‘‘۔ ظاہر ہے کہ ہمارے صحافی بھائی کو مدفن اور مدفون کا فرق نہیں معلوم ہوگا۔ یہاں مدفن کی جگہ مدفون یعنی دفن کیا ہوا ہونا چاہیے۔ مدفن اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کسی کو دفن کیا گیا ہو۔
آج کل یہ الفاظ تواتر سے اخبارات میں نظر آرہے ہیں’’این ٹی ایس ٹیسٹ‘‘۔ ہمارے بھائی یہ تو بتائیں کہ این ٹی ایس میں ’ٹی‘ کیا ہے۔ کیا یہ ٹیسٹ کے لیے نہیں ہے یعنی ’’نیشنل ٹیسٹ سروس‘‘۔ پھر اس کے آگے ٹیسٹ لگانے کی کیا ضرورت ہے! یہ ایسے ہی ہے جیسے بہت سے لوگ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی لکھتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ آخر کا ایس سوسائٹی ہی کے لیے ہے۔
25 نومبر کو کراچی پریس کلب میں محفلِ غزل کا انعقاد ہونا تھا جو شہر میں دھرنوں کی نذر ہوگیا۔ اس کے دعوت نامے تقسیم کردیے گئے تھے، دعوت نامے پر کسی کا شعر بھی درج تھا جس کا دوسرا مصرع تھا :
وابسطہ فکر و فن کی زیارت غزل سے ہے
مصرع میں زیارت کا جواب نہیں لیکن وابستہ کی جگہ ’وابسطہ‘ بھی سکوت اور سقوط کی طرح ہے۔ ہم اب تک دعوت نامے پر درج شعر کا مطلب جاننے کی کوشش میں ہیں۔
اخبارات میں کلونجی کے حوالے سے ایک دوا کا اشتہار آرہا ہے جس میں کلونجی کے بارے میں ایک حدیثِ رسولؐ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ اس میں ’’موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے‘‘۔ یہاں ’’علاوہ‘‘ کے استعمال کا مطلب ہوگا کہ موت کا بھی علاج ہے، جبکہ یہاں ’سوا‘ ہونا چاہیے۔ پروفیسر غازی علم الدین پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج میرپور آزاد کشمیر نے بھی اس سہو کی نشاندہی کی ہے کہ ’سوا‘ اور ’علاوہ‘ کے استعمال میں بڑی لاپروائی اور بے احتیاطی کا مظاہرہ ہورہا ہے اور بعض سکہ بند اہلِ زبان اور معروف ادیب و صحافی بھی اس غلطی کو دہرا رہے ہیں۔ اگر کسی محفل میں کوئی کہے کہ ’’میرے علاوہ‘‘ سب احمق ہیں‘‘ تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ خود بھی احمق ہے۔ ممکن ہے وہ شخص اعترافِ حقیقت کررہا ہو۔
اے آر وائی نیوز چینل پر اس وقت (29 نومبر) بھی خبری پٹی چل رہی ہے کہ ’رفاحی‘ پلاٹوں سے قبضہ ختم نہیں کرایاگیا۔ بعض اخبارات اسے رفاعی بھی لکھ ڈالتے ہیں۔ جانے ’رفاہی‘ لکھنے اور کہنے میں کیا پریشانی ہے۔ کراچی میں تو رفاہ عام سوسائٹی بھی ہے۔ صحافی حضرات کبھی اس کے بورڈ ہی پر نظر ڈال لیں۔
محترم طارق غازی جب جدہ میں تھے تو انہیں یاد ہوگا کہ عرب نیوز میں ہر جمعرات کو ایک انگریز ادیب کا کالم شائع ہوتا تھا جس میں وہ مختلف اخبارات اور کتابوں میں شائع ہونے والی غلط انگریزی کی اصلاح کرتے تھے۔ شاید اب بھی یہ کالم شائع ہوتا ہو۔ ہر زبان میں غلطیوں کی اصلاح کا عمل جاری ہے اور اسی لیے لغات مرتب کی گئی ہیں۔ یہ عمل بے معنیٰ اور محض تفننِ طبع کے لیے نہیں۔ بس یوں ہے کہ تحریر کو بوجھل بنائے بغیر بات پہنچادی جائے تو اس سے ’’گھٹنے میں سردرد نہیں ہوگا‘‘۔