خالد محمد ولد مولانا خادم حسین مہر (مرحوم) علمی اور ادبی حلقوں میں اپنے قلمی نام خلیل مہر کے نامِ نامی سے معروف ہیں۔ انہوں نے بزبانِ اردو اور سندھی مختلف دینی، اصلاحی، معاشرتی اور سیاسی موضوعات پرگزشتہ تیس برس کے عرصے میں اَن گنت مضامین تحریر کیے ہیں جو معروف اخبارات اور جرائد (بشمول ماہنامہ ’’وینجھار‘‘ اور روزنامہ ’’جسارت‘‘) میں شائع ہوچکے ہیں، اور یہ سلسلہ تاحال تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ خالد محمد مہر اردو اور سندھی زبان کے ایک اچھے شاعر، مترجم اور عمدہ خطاط بھی ہیں۔ انہیں اردو سے سندھی اور سندھی سے اردو میں تحاریر کو ترجمہ کرنے کا شوق بھی ہے اور اس کام میں موصوف کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اردو کے معروف افسانہ نگاروں غلام عباس اور ہاجرہ مسرور کے افسانوں کا بھی سندھی میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں اردو شعراء کی شاعری کا سندھی زبان میں اور سندھی زبان کے شعراء کے کلام کو اردو کا جامہ پہنا چکے ہیں۔ معروف روحانی بزرگ حضرت عبدالکریم بیر شریف والے کی سوانح پر مبنی سندھی زبان کی ایک ہزار سے زائد صفحات کی حامل کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کے علاوہ دیگرکئی کتب کا اردو سے سندھی اور سندھی سے اردو میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ تاہم وسائل کی عدم دستیابی کے سبب ان کی کوئی کتاب تاحال منصۂ شہود پر نہیں آسکی ہے۔ انہیں مطالعے سے شغف ہے اور اپنا بیشتر وقت اردو اور سندھی کتب کے مطالعے میں صرف کرتے ہیں۔ یہ سادہ اطوار مگر پُروقار علمی اور ادبی شخصیت پیشے کے اعتبار سے ٹیکنیکل کالج جیکب آباد میں استاد ہے۔ عام افراد اور ان کے طلبہ پروفیسر صاحب کہہ کر انہیں مخاطب کیا کرتے ہیں۔ گزشتہ لگ بھگ 40 برس سے موصوف اس کالج میں درجہ یازدہم اور دوازدہم (فرسٹ ایئر اورانٹر) کے طلبہ کو اردو، سندھی، اسلامیات اور پاکستان اسٹڈیز کے مضامین پڑھا رہے ہیں اور اس عرصے میں بلاشبہ سیکڑوں طلبہ ان سے پڑھنے کے بعد کارگہِ حیات میں مختلف سرکاری اور نجی اداروں میں عام ملازم سے لے کر اعلیٰ عہدوں تک مصروفِ کار ہیں۔ خالد صاحب اپنے طلبہ میں اپنی علمیت اور مشفقانہ انداز کے سبب ہر دل عزیز ہیں۔ یہاں یہ بات ناگواریٔ خاطر کے ساتھ لکھی جارہی ہے کہ اتنا طویل عرصہ شعبۂ تعلیم سے وابستگی کے باوجود اور عوام میں ’’پروفیسر‘‘ کے لقب سے ممیز ہونے کے باوجود خالد صاحب تاحال گریڈ 14 کے سرکاری ملازم ہیں۔ درآں حالیکہ اس عرصے میں ان سے کہیں جونیئر ملازم بھی گریڈ 19 اور 20 حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن خالد محمد مہر کیونکہ اپنے کام سے کام رکھنے والے فردِ فرید ہیں اور انہیں کبھی کسی نے تماشا گروں کے اسٹیج پر اوروں کی خوشامد کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر قریب ہونے کے باوجود ان کا جو گریڈ 14 ہے وہ ہمارے ہاں رائج ناانصافی، حق تلفی اور میرٹ کی خلاف ورزی کا ایک ایسا واضح مظہر ہے جو اربابِ اختیار اور متعلقہ ذمہ داران کی توجہ کا متقاضی ہے۔ خالد صاحب جیسی علمی اور ادبی شخصیات ہر چند کہ گریڈوں سے ماورا ہوتی ہیں لیکن بہرحال ’’حق بہ حق دار رسید‘‘ کے مصداق انہیں ان کی تعلیمی کوالی فکیشن، تجربہ اور سینیارٹی کی بنیاد پر ان کا حق ضرور ملنا چاہیے۔
خالد محمد مہر یکم مارچ 1962ء کو جیکب آباد کے ایک متوسط دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ پرائمری اور ہائی اسکول کے امتحانات گورنمنٹ پرائمری حمیدیہ اور حمیدیہ ہائی اسکول سے پاس کرنے کے بعد انٹر اور بی اے کی اسناد گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد سے، جبکہ ایم اے اسلامیات کی سند سیکنڈ کلاس میں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے حاصل کی۔ عربی اور فارسی کی تعلیم بھی مدارسِ عربیہ سے پائی، لیکن صرف و نحو کے بعد مزید تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔
1980ء کے آخر میں گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ (کالج) جیکب آباد میں بہ طور شاپ اسسٹنٹ بھرتی ہوئے۔ بعد ازاں 25 مارچ 1988ء کو بہ طور انسٹرکٹر اسلامیات گریڈ 10 میں نواب شاہ تعیناتی ہوئی۔ جبکہ اس سارے عرصے میں 11 ستمبر 2011ء کو پہلی مرتبہ ان کا پروموشن جونیئر انسٹرکٹر گریڈ 14 میں کیا گیا، اور جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہوچکا ہے تاحال اسی گریڈ اور عہدے پر کام کررہے ہیں۔ اوائل ہی سے محنت و مشقت زندگی کا شعار رہا ہے۔ جب تک کمپیوٹر نہیں تھے اُس وقت تک خطاطی کرکے بھی گزر اوقات کرتے رہے ہیں۔ جیکب آباد کے تمام طباعت گھروں پر بٹر پیپر پر خطاطی کرکے لکھ کر دیا کرتے تھے۔ جیکب آباد کے مقامی اخبارات میں علی شیر آفریدی مرحوم کے اخبار ’’غریب نواز‘‘ (اردو)، بالم بروہی مرحوم کے ’’نوجوان‘‘ (اردو، سندھی) اور دیگر کئی مقامی اخبارات بہ شمول ’’حیدر‘‘ اپنے ہاتھوں سے لکھتے رہے ہیں۔ خالد صاحب کے مطابق ’’میرا دل آج بھی ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھڑکتا ہے اور اہلِ بیت و صحابہؓ سے دلی عقیدت و محبت ہے۔ زندگی تو بس مرنے کے انتظار میں ہی ہر ذی نفس بسر کرتا ہے تاہم میں نے کبھی مایوسی کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیا۔ ٹیوشنز بھی پڑھائیں، شام کے پرائیویٹ کالجز میں بھی مختلف مضامین پڑھاتا رہا ہوں لیکن اب بڑھاپا بتدریج غالب آتا جارہا ہے۔ اپنی تیرہ برس کی مرحومہ بیٹی جنت (وفات2014ء) کی جدائی کا سانحہ تاحال فراموش نہیں کرپایا ہوں۔ اولاد میں جب شوقِ مطالعہ اور احساسِ ذمہ داری کا فقدان دیکھتا ہوں تو دل رنج و غم سے بھر جاتا ہے۔‘‘
اولاد میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اور ایم آر ڈی تحاریک کو بچشمِ خود ملاحظہ کرچکے ہیں۔ اپنی زندگی میں مولانا مفتی محمود، شہید ذوالفقار علی بھٹو، مولانا عبداللہ درخواستی، غلام غوث ہزاروی، نواب زادہ نصراللہ خان اورکئی لیڈرانِ کرام کو دیکھا ہے اور خود بھی دینی و اصلاحی موضوعات کے حوالے سے خالد مہر بلا کے مقرر ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری اور حافظ حسین احمد سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔
پسندیدہ کتب: قرآن مجید، معارف القرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کتب
پسندیدہ ادیب: علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی
پسندیدہ شعراء: علامہ اقبال، شاہ عبداللطیف بھٹائی، مولانا حالی، احسان دانش۔
پسندیدہ طعام: دال چاول، کریلے، آلو گوشت۔
پسندیدہ مشروب: سادہ پانی اور چائے۔
شخصی اوصافِ طبع: ہمدرد، ملنسار اور بے حد خوش اخلاق، مہمان نواز، رقیق القلب ہیں۔ امتِ مسلمہ کے لیے متفکر اور دعاگو رہتے ہیں۔
موبائل نمبر: 0333-7358487
رہائش: نزد کے جی اسکول، اولڈ مال پڑی فرسٹ فیملی لائن جیکب آباد