(نام کتاب : وضعِ اصطلاحات (اشاعت ہفتم
مصنف : مولوی وحید الدین سلیم
صفحات : 392 قیمت 300 روپے
ناشر : انجمن ترقی اردو پاکستان۔ ڈی۔159 ،بلاک 7، گلشن اقبال، کراچی 75300
’وضعِ اصطلاحات‘ مولوی وحید الدین سلیم کی معروف کتاب ہے جو ایک اہم موضوع پر لکھی گئی تھی۔ اس کی یہ اشاعتِ ہفتم ہے۔ جناب جمیل الدین عالی معتمد اعزازی انجمن ترقی اردو پاکستان نے اشاعت چہارم پر دیباچے میں تحریر کیا:
’’بحمداللہ یہ اس کتاب کی چوتھی اشاعت ہے۔ جیسا کہ پیش ورق بتائے گا پچھلے تین ایڈیشن 1929ء،1952ء، اور 1965ء میں شائع ہوئے تھے۔ یہ چوتھا ایڈیشن جلد تر آتا مگر بوجوہ اب آرہا ہے۔ اس کتاب کی حیثیت اہلِِ علم میں ایک ناگزیر نصاب کی ہوچکی ہے۔ جوں جوں تمام تر مخالفتوں اور نام نہاد مشکلات کے باوجود تمام سرکاری دفتروں میں نہ سہی، بہت سے دفتروں اور عوام کی عملی زندگی میں اردو اصطلاحات سازی فروغ پارہی ہے، اس کتاب کی عجیب و غریب رہنمایانہ حیثیت اس کی اوّلیت… اور قدامت… کے باوصف روزافزوں اہمیت اختیار کرتی جاتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی مسئلے پر ابتدائی مفکروں نے ایسی دوربینی سے کام لیا ہو۔ فاضل مصنف مرحوم کا دیباچہ محض تبرک نہیں، ایک زندہ شاہکار ہے۔
وضع اصطلاحات پر خود بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق مرحوم نے ایک مبسوط مضمون لکھا تھا۔ وہ انجمن نے خود انہی کی ہدایت پر، ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع کررکھا ہے۔
زیرنظر ایڈیشن میں مصنف کے بارے میں مشہور ماہر لسانیات ڈاکٹر عبدالستار صدیقی مرحوم (الٰہ آباد) کے دو مضامین شامل کردیے گئے ہیں جو نہ صرف صاحبِ کتاب بلکہ کتاب کے بارے میں بھی نہایت مفید معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اردو اصطلاح سازی کن مراحل سے گزری اور گزر رہی ہے، اس کی پوری کہانی تو اس حرفے چند میں نہیں سما سکتی کہ ضخامتی محدودات حائل ہیں، لیکن راقم ضروری سمجھتا ہے کہ اپنے ایک حرفے چند سے دو اقتباسات پیش کردے۔ یہ حرفے چند انجمن کی تازہ ترین کتاب ’’اصطلاحاتِ بینکاری‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں ایک کسی قدر طویل گفتگو نفاذِ اردو کے حوالے سے کی گئی ہے۔ اسی ذیل میں وضعِ اصطلاحات کا معاملہ بھی آگیا۔ وہ من و عن نقل ذیل ہے (وہ کتاب 1992ء میں پریس گئی اور 1993ء میں اس کی رونمائی گورنر اسٹیٹ بینک نے کی۔)‘‘
اس اشاعتِ ہفتم کے سلسلے میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ’’لغتِ کبیر‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’’ہماری اردو لغات میں علوم و فنون تو ایک طرف، عام پیشوں اور صنعت و دست کاری تک کے معروف لفظ نہیں ملتے… مجھے خوب یاد ہے کہ شمس العلماء مولوی سید علی بلگرامی نے تمدنِ عرب کے ترجمے میں horse-shoe arch کا ترجمہ نعل اسپ محراب کیا ہے۔ یہ لفظی ترجمہ ہے، اصطلاح نہیں ہے۔ دلّی کے پرانے استاد معمار سے پوچھا تو اس نے کہا: اسے ’’گھڑنال‘‘ کہتے ہیں۔ بات وہی ہے مگر دیکھیے کتنا فرق ہے۔ گھڑنال میں اصطلاحی شان ہے۔‘‘ (ص51)
یہ ’’اصطلاحی شان‘‘ ہی کسی لفظ یا ترکیب کو قبولیت دیتی اور مفید بناتی ہے۔ ہمارے پرانے کاری گروں میں صناعوں نے ایسی سیکڑوں اصطلاحیں گھڑی ہوئی تھیں اور وہ کام بھی خوب دیتی تھیں۔ ہنرمندوں کی سیکڑوں اصطلاحات مولوی ظفرالرحمن دہلوی کی مؤلفہ اور انجمن ترقیٔ اردو کی شائع کردہ ’’اصطلاحاتِ پیشہ وراں‘‘ میں بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب جو 8 جلدوں میں ہے، تکنیکی اصطلاحات کا خزینہ ہے، لیکن افسوس کہ ہم اس سے اعتنا نہیں کرتے۔ مولوی صاحب نے ’’لغتِ کبیر‘‘ کے مقدمے میں ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ اردو زبان میں اصطلاحات کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔ لیکن یہ اصطلاحات مٹتی جارہی ہیں اور انگریزی الفاظ ان کی جگہ لیتے جارہے ہیں۔ اردو کی اس پسپائی کی ایک وجہ بقول بابائے اردو یہ ہے کہ جو لوگ ان کاری گروں یا ہنرمندوں سے کام لیتے ہیں وہ انگریزی کے تعلیم یافتہ ہیں اور وہ اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی ازراہِ فخر انگریزی الفاظ استعمال کرنے لگتے ہیں، حالانکہ ہماری دیسی اصطلاحات انگریزی الفاظ سے بدرجہا بہتر ہیں اور انگریزی الفاظ کا اردو میں صحیح تلفظ ادا کرنا ان کاری گروں کے لیے آسان بھی نہیں ہوتا۔
’’اصطلاح‘‘ ان بنیادی اجزا میں شامل ہے جو کسی بھی زبان کی علمی ترقی کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ علوم و فنون کی وسعت پذیری اور نئے علوم کی آمد کے ساتھ ہی نئی اصطلاحات کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ زبان اس ترقی کا ساتھ دے سکے، ذریعہ تعلیم بھی بن سکے اور دفتری و سرکاری زبان کے طور پر بھی کارآمد رہے۔ اسی لیے اردو میں اصطلاحات وضع کرنا اور ان کو رائج کرنا ایک اہم قومی ذمے داری بھی ہے۔
مختلف لغات کے مطابق لفظ ’’اصطلاح‘‘ کا مادہ ’’ص ل ح‘‘ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں: باہم صلح کرنا یا کسی گروہ یا جماعت کا کسی امر پر باہم متفق ہونا۔ ’’اصطلاح‘‘ سے مراد ہے کوئی لفظ یا مرکب یا فقرہ جس کو معروف اور رائج لغوی معنوں سے ہٹ کر کسی خاص مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور اس استعمال پر ماہرین متفق ہوں۔ اصطلاح عام طور پر علمی یا فنی مفاہیم و مطالب کے لیے وضع کی جاتی ہے اور اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لکھنے یا بولنے والا (اور پڑھنے یا سننے والا بھی) اس طویل جملے یا فقرے کی تکرار سے بچ جاتا ہے جو اصطلاح کے بجائے اس فنی مفہوم کے لیے استعمال کرنا پڑتا۔ مثلاً ’’جوہر‘‘ کے لغوی معنی کچھ ہی ہوں، اردو میں ہم اسے اصطلاح کے طور پر ’’ایٹم‘‘(atom)کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور اس سے مراد لیتے ہیں ’’کسی کیمیائی عنصر کا وہ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ جو وجود رکھ سکتا ہے۔‘‘ اس طرح تحریر اور تقریر میں جوہر یا ایٹم کہہ کر ہم اس فقرے کی تکرار سے بچ جاتے ہیں جس میں ایٹم یا جوہر کی مذکورہ بالا تکنیکی تعریف بیان کی گئی ہے، ورنہ عبارت میں ہر اُس جگہ جہاں ایٹم کا لفظ آتا، یہ تعریف لکھنی پڑتی۔ اس طرح عبارت طویل بھی ہوجاتی اور مضحکہ خیز بھی۔ گویا اصطلاح کسی طویل عبارت یا فقرے کی جگہ لے لیتی ہے، لہٰذا نہایت مفید ہے۔ اصطلاح ایک لفظ پر بھی مبنی ہوسکتی ہے اور چند الفاظ کا مرکب بھی ہوسکتی ہے۔ اصطلاح کو اردو میں ’’مصطلح‘‘ بھی کہا گیا ہے جس کی جمع مصطلحات آتی ہے۔
اردو میں اصطلاح سازی کی تاریخ اس لحاظ سے قدیم ہے کہ بزرگانِ دین اور صوفیہ کرام نے برعظیم پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ شروع کی اور مقامی زبانوں کو اس کا ذریعہ بنایا تو دین اور تصوف کی اصطلاحات یہاں رائج ہونے لگیں۔ پھر دکن میں فنی اور سائنسی علوم پر کتابیں لکھی گئیں تو ان میں بھی اردو کی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا، اوریہ سلسلہ سترھویں صدی عیسوی ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ انگریزوں کی آمد سے قبل اردو میں مذہبی، صوفیانہ، قانونی، عدالتی، مالیاتی اور زرعی اصطلاحات کا خاصا ذخیرہ موجود تھا۔ لیکن اردو میں اصطلاحات کا باقاعدہ استعمال اور اصطلاح سازی کی باقاعدہ کوششیں انگریزوں کی آمد کے بعد شروع ہوئیں اور فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج کا اس میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ دکن میں شمس الامراء کے زیرانتظام سائنسی و فنی کتابوں کی تدوین و اشاعت ہوئی جن میں اردو اصطلاحات استعمال کی جاتی تھیں۔
انگریز لغت نویسوں نے بھی اپنی اردو لغات میں بہت زیادہ نہ سہی کچھ اصطلاحات ضرور درج کیں۔ اس ضمن میں جان ٹی پلیٹس کی لغت خاص طور پر قابل ذکر ہے، کیونکہ اس نے مقامی چرند، پرند، نباتات اور حشرات کے نہ صرف انگریزی مترادفات لکھے ہیں بلکہ ان کے لاطینی نام اور نوع بھی درج کردی ہے۔ سرسید احمد خان نے سائنٹفک سوسائٹی کے زیراہتمام سائنس پر کتابیں بھی لکھوائیں اور ان میں اردو اصطلاحات بھی استعمال کیں۔ رڑکی کالج کا کردار بھی فنی تعلیم اور اصطلاحات کے ضمن میں اہم رہا ہے۔ اداروں کے علاوہ ہمارے کئی اہلِ علم نے بھی انفرادی طور پر اصطلاح سازی کی، اور کچھ نے اس کے اصول بھی بنائے، مثلاً رائے سوہن لال، مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی اور سید حسین بلگرامی وغیرہ۔ سوہن لال نے پلیٹس اور فیلن دونوں کو سائنسی اصطلاحات کے مقامی لفظوں پر مبنی اپنے ڈھالے ہوئے تراجم پیش کیے جس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا۔ اصطلاح سازی کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ مقامی لفظوں کو اہمیت دی جانی چاہیے اور محض عربی، فارسی الفاظ کو اصطلاح سازی یا اصطلاحات کے تراجم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ابتدا میں ہم نے مولوی عبدالحق کا جو اقتباس نقل کیا ہے اور جس میں انہوں نے ’’گھڑنال‘‘ کی تعریف کی ہے، اس میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔
جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) کا کردار اردو اصطلاحات سازی کے ضمن میں ناقابلِ فراموش ہے۔ ہزارہا اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کے ساتھ جامعہ عثمانیہ نے اصطلاح وضع کرنے کے اصول بھی دیے۔ جامعہ عثمانیہ کی اصطلاحات پر مبنی ایک لغت مقتدرہ قومی زبان نے شائع کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد کئی اداروں نے اصطلاحات کے ضمن میں اہم کام کیے، مثلاً مرکزی اردو بورڈ (جس کا نام اب اردو سائنس بورڈ ہے)، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام اب ادارۂ فروغِ قومی زبان ہے)، انجمن ترقی اردو وغیرہ۔ بعض سرکاری محکموں نے بھی اس ضمن میں مفید کتابیں یا کتابچے شائع کیے۔ مثلاً محکمۂ زراعت (لاہور) یا مجلسِ دفتری پنجاب نے۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ تصنیف و تالیف نے کثیر تعداد میں علوم و فنون کی اصطلاحات کی فرہنگیں تیار کرائیں۔ انفرادی سطح پر اور نجی اشاعتی اداروں کی شائع کردہ کتب ان کے علاوہ ہیں۔ غرضے کہ اردو میں اصطلاحات پر بہت کام ہوچکا ہے۔ اردو اصطلاحات کے استعمال کی تاریخ اور اصولوں کی تفصیلات کئی کتابوں میں موجود ہیں، مثلاً خواجہ حمید الدین شاہد کی ’’اردو میں سائنسی ادب‘‘ اور ابواللیث صدیقی کی ’’اردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ‘‘ اردو میں سائنسی اصطلاحات کا حال بھی بیان کرتی ہیں۔ عطش درانی نے اپنی کتاب ’’اردو اصطلاحات سازی‘‘ میں اصطلاح کی تاریخ اور اصول دونوں کو سمیٹ لیا ہے۔ اب تو اردو میں اصطلاحات کے موضوع پر خاصی کتابیں موجود ہیں جن میں بڑی تعداد اُن فرہنگوں کی ہے جن میں کسی علم یا فن کی اصطلاحات کے اردو اور انگریزی مترادفات دیے گئے ہیں۔ بلکہ ان فرہنگوں اور سائنسی کتابوں کی کتابیات اور اشاریے دیکھنے سے احساس ہوتا ہے کہ اردو میں اصطلاحات کی فرہنگوں کے علاوہ سائنسی اور تکنیکی موضوعات پر سیکروں کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں ہزاروں اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔
البتہ اردو میں اصطلاح سازی اور لفظ ڈھالنے کے اصولوں پر ذرا کم ہی کام ہوا ہے۔ اصطلاح کیا ہوتی ہے؟ اصطلاح کیسے بنتی ہے یا کیسے بننی چاہیے؟ اس کے اصول کیا ہیں؟ اردو کا تعلق زبانوں کے جس خاندان سے ہے ان میں لفظ ڈھالنے اور اصطلاح بنانے کے کیا قاعدے ہیں؟ اس سلسلے میں کیا احتیاط کرنی چاہیے؟ ان سوالوں کے جواب صحیح معنوں میں یا تو دلی کالج نے دیے یا جامعۂ عثمانیہ نے، یا پھر وحید الدین سلیم نے۔
وحید الدین سلیم (1867ء۔1928ء) ہمارے اُن اہلِ علم میں شامل ہیں جنہوں نے لفظ سازی اور اصطلاح سازی کے اصول بیان کیے۔ ان کی کتاب ’’وضعِ اصطلاحات‘‘ اس موضوع پر لکھی گئی اردو کی چند کتابوں میں سے ہے۔ یہ اردو کی پہلی باقاعدہ کتاب تھی جس میں اصطلاح سازی کے اصول اس تفصیل سے اور اتنے مربوط انداز میں پیش کیے گئے تھے۔ بالخصوص سابقوں اور لاحقوں کی مدد سے انہوں نے سیکڑوں تراکیب اور اصطلاحات وضع کردیں۔
یہ ’’وضعِ اصطلاحات‘‘ کا ساتواں ایڈیشن ہے۔ پہلا ایڈیشن انجمن ترقیٔ اردو کے زیراہتمام 1921ء میں شائع ہوا تھا۔ گویا جلد ہی اس کی پہلی اشاعت کو 100 سال مکمل ہوجائیں گے۔ یہ نہ صرف اس کتاب کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اردو کی معیاری اور مفید کتاب سو سال کے بعد بھی فروخت ہوتی رہتی ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی صاحب نے نشان دہی کی ہے، وحید الدین سلیم صاحب نے اردو کی کئی اصطلاحات ایسی وضع کیں جو رائج بھی ہوگئیں اور اب تک برابر مستعمل ہیں، مثلاً والنٹیر (volunteer)کے معنی میں ’’رضاکار‘‘ کی ترکیب انہی کی ڈھالی ہوئی ہے۔ اسی طرح ’’عصرانہ‘‘ کا لفظ انہوں نے ہی سب سے پہلے استعمال کیا۔ البتہ کچھ اصطلاحات یا مترادفات وحید الدین سلیم نے ایسے ڈھالے جو کچھ عرصہ چلے اور پھر ان میں کچھ جزوی ترمیم ہوگئی، جیسے: عید ملاپ جلسہ جس کو اب ہم عید ملن پارٹی کہتے ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی بعض اصطلاحات ایسی ہیں جو اب بھی استعمال ہوسکتی ہیں مثلاً baloonist کا ترجمہ انہوں نے غبارچی کیا تھا۔ ان کی وضع کردہ کچھ اصطلاحیں رائج نہ ہوسکیں لیکن نہایت برجستہ اور مفید ہیں، انہیں لے لینا چاہیے، مثلاً انہوں نے enquiry office کا ترجمہ ’’دریافت خانہ‘‘ کیا تھا۔ کم ازکم انگریزی ترکیب کے استعمال سے تو بہتر ہے۔
پاکستان میں اردو کو بطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کیے جانے کے عدالتی اعلان کے بعد اب اردو میں اصطلاحات سازی کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے اور ضرورت بھی۔ اس کتاب میں اصطلاح سازی کے اصول علمی اور لسانی بنیادوں پر بیان کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ کتاب اصطلاح سازوں، لغت نویسوں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، استادوں، طالب علموں اور سرکاری افسروں کے لیے مفید بھی ہے اور ضروری بھی۔
انجمن بڑے فخر اور مسرت سے اس کتاب کی ساتویں اشاعت کو پیش کررہی ہے۔‘‘
کتاب مجلّد ہے اور سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔ سادہ سرورق سے مزین ہے۔
شاعرِحمد و نعت طاہر سلطانی کی ادارت میں ’’جہانِ نعت‘‘ کا کتابی سلسلہ فروغِ نعت کے لیے کوشاں ہے۔ اس کتابی سلسلے کے مدیر محمد رمضان میمن ہیں۔ اس کتابی سلسلے کی ساتویں خصوصی اشاعت حمد، نعت، منقبت اور سلام کے 25 مجموعوں کے تخلیق کار ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم کے نعتیہ قصیدے ’’نقشِ نعلین حضورؐ‘‘پر مشتمل ہے۔ یہ 510 اشعار پر مشتمل طویل نعت ہے۔ مدیر اعلیٰ جہانِ نعت طاہر حسین سلطانی کے مطابق ’’ڈاکٹر مشرف حسین انجم نے اپنے تازہ نعتیہ مجموعے میں ایک طویل نعتیہ قصیدہ ایک ہی بحر اور ایک ہی ردیف میں پیش کیا۔ ’’نقشِ نعلین حضورؐ‘‘ کی اشاعت تمام وابستگانِ نعت کے لیے بہارِ جاں فزا کاایک جھونکا ہے۔‘‘
جہانِ نعت کا کتابی سلسلہ معروف نعت نگار حضرت ِمسرور کیفی کی یادمیں جاری کیاگیا۔ یہ کتابی سلسلہ اس سے قبل مسرور کیفی نعت نمبر، بہزاد لکھنوی نعت نمبر اور اقبال عظیم نعت نمبر شائع کرچکا ہے، جسے اہلِ علم و قلم کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوچکی ہے۔
مقام اشاعت: جہانِ نعت، شارع مسجد حدیبیہ، گلشن حدید فیز 2، بن قاسم ضلع ملیر کراچی۔فون:0331-2633426 ۔ای میل: jahanenaatkarachi@gmail.com۔قیمت :100 روپے