ممتاز احمد شیخ بظاہر تو ایک فرد ہیں لیکن وہ جو کام کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ جن ان کے قابو میں ہیں یا وہ جنوں کے قابو میں ہیں۔ یہ نہیں تو ’’جنوں‘‘ ان سے کام لے رہا ہے۔ ابھی تو انہوں نے سہ ماہی ’’لوح‘‘ کے چوتھے شمارے میں اسیرانِ علم و ادب کے لیے توشۂ خاص پیش کیا تھا کہ اب شمارہ پنجم و ششم ایک ساتھ لے آئے ہیں اور کس شان سے۔ یہ توشہ خاص نہیں بلکہ ایسا طویل دستر خوان ہے جو علم و ادب کے متلاشیوں کو مہینوں سیر کرتا رہے گا۔ ییہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ یہ شمارہ 115 سالہ افسانوی تاریخ کے اہم اور ناگزیر افسانوں کا مجموعہ ہے۔ افسانوں سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ نادر تحفہ ہے۔ تاہم ’’ناگزیر افسانے‘‘ کیا ہوتے ہیں‘ اس پر غور کرنا پڑے گا۔
ممتاز شیخ نے اپنے طور پر پوری کوشش کی ہے کہ 1901ء سے لے کر اب تک کوئی معروف افسانہ نگار اور اس کی تخلیق رہ نہ جائے۔ ممکن ہے کہ کسی کے نزدیک اس کا کوئی پسندیدہ افسانہ رہ گیا ہو لیکن یہ ایک بھرپور انتخاب ہے جس کو مہینوں مزے لے لے کر پڑھا جاسکتا ہے۔ بڑی تقطیع پر 1120 صفحات شائع کرنا کوئی مذاق نہیں۔ بقول مدیر ممتاز احمد شیخ لوح کا یہ افسانہ نمبر اردو افسانے کے آغاز سے ا تک کے تقریباً تمام موضوعاتی اور فنی رویوں کو سمیٹے ہوئے اردو افسانے کی ایک دستاویزی تاریخ مرتب کر رہا ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ یعنی صرف یہ نہیں ہوا کہ اِدھر اُدھر سے افسانے سمیٹ کر شائع کر دیے بلکہ موضوعاتی اور فنی رویوں کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ 170 افسانے کوئی مذاق نہیں‘ یہ دستاویزی تاریخ نہیں تو اور کیا ہے۔
ان افسانوں کو چھ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا دور اختراورینوی سے شروع ہوتا ہے جو نیازفتح پوری تک جاتا ہے۔ میر باقر علی کا برا خاوند ان ادوار سے باہر رکھا گیا ہے۔ چھٹا دور نزہت عباسی پر ختم ہو رہا ہے لیکن اس بیچ میں مزید کئی اچھے افسانے بھی ہیں۔ کتنے ہی افسانے ایسے ہیں جو ہم نے نوعمری میں پڑھے تھے اور ذہن میں جم گئے تھے‘ انہیں دوبارہ پڑھنے کی خواہش رہی جو لوح کے افسانہ نمبر سے پوری ہوگئی۔
بار بار نیا سرورق بنوانے کی کھکھیڑ سے بچنے کے لیے بس ایک ہی ڈیزائن سے کام چلایا جارہا ہے جو لوح کی پہچان بھی بن گیا ہے۔ آخر میں ممتاز احمد شیخ نے حرف آخر کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے اور ان سے اختلاف یا اتفاق کرنے کا حق بڑی فراخ دلی سے عطا کر دیا ہے۔ آغاز اس جملے سے کیا ہے کہ ’’اس بحث میں پڑے بغیر کہ سب سے پہلے اردو افسانہ کس نے لکھا‘‘ لیکن پھر خود ہی اس کا جواب بھی دے دیا کہ اردو کا سب سے پہلا اور اہم افسانہ نگار پریم چند ہے۔ پھر بحث کی گنجائش کہاں رہی۔
افسانوں کے علاوہ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے آغاز میں حمد اور نعتیں ہی نہیں تین عدد ’’سلام‘‘ بھی شامل ہیں۔ پورے مجموعہ کی کمپوزنگ بڑے سلیقے سے کی گئی ہے البتہ کہیں کہیں پروف ریڈنگ کا سہو رہ گیا ہے مثلاً روایت کو روائت (صفحہ 37) لکھا ہے اور نیّر مسعود کو نیئر مسعود۔ نیّر کو نیئر عمومی غلطی ہے۔ شاید کمپوزر کو تشدید لگانے سے گریز ہے۔ ہم ایک بار پھر ممتاز شیخ کو اتنے بڑے کام پر مبارک باد دیتے ہیں۔