کلام نبوی ﷺ کی کرنیں

مولانا عبدالمالک
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے پاس سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ کھجور کا یہ دانہ صدقے والی کھجوروں میں سے ہے، تو میں اسے کھا لیتا۔(متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمہاری پڑوسی بن جائیں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئو (حسنِ سلوک سے پیش نہ آئو گے تو بھاگ جائیں گی) اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں، ان کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔ (ابن ماجہ)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ شیطان تمہارے پاس ہر کام کے وقت آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھالے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگ گئی ہو اسے دور کردے، پھر اسے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ جب فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے، پتا نہیں کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔ (مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے، پلیٹ کو صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: تم نہیں جانتے کہ برکت کس حصے میں ہے۔ (مسلم)
آج صبح، دوپہر، شام کے معمول کے ناشتوں اور کھانوں، دعوتوں اور ضیافتوں میں رزق کی جو ناقدری، اسراف اور ضیاع ہوتا ہے، اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جی چاہتا تو کھالیتے، چاہت نہ ہوتی تو واپس کردیتے، لیکن کھانے کی کبھی برائی بیان نہ کی۔ آج اگر ہم اپنے گھروں، ہوٹلوں، دعوتوں اور تقریبات میں کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیں، ضرورت کے مطابق کھانا پکائیں اور ضرورت کے مطابق پلیٹ میں ڈال کر کھائیں تو ہر گھر اور کھانے کی ہر تقریب میں رزق کی اتنی بچت ہوجائے کہ ایک ایک گھر سے دو، دو اور تین تین آدمیوں کو کھانا دیا جاسکے۔ کھانا ضائع ہونے کے بجائے کسی بھوکے کے کام آجائے گا۔ گھروں میں بھی احتیاط نہیں ہوتی، پلیٹوں میں کھانا بچ جاتا ہے جسے کوئی دوسرا آدمی کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے گٹر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ روٹیاں بھی ضرورت سے زائد ہوتی ہیں، انہیں بھی ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے، اور تقریبات میں تو بعض اوقات سو آدمیوں کے لیے اتنا کھانا پکایا جاتا ہے جو دو سو، تین سو کے لیے کافی ہو۔ نتیجتاً بہت سارا کھانا بچ جاتا ہے اور ضائع کردیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نامعقول عمل پر نکیر فرمائی۔ زمین پر کھجور کے ایک دانے، روٹی کے ایک معمولی ٹکڑے، پلیٹ میں بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کو چھوڑ کر ضائع کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اسے نعمت کی ناقدری اور ناشکری قرار دیتے ہوئے، اس سے محرومی کا سبب قرار دیا۔
آج حکمران طبقہ دولت کا جو ضیاع کرتا ہے، ان کے محلات میں کھانے کی جس طرح اسراف و تبذیر ہوتی ہے، وہ عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایک طرف لوگوں کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی روٹی نہیں ملتی کہ اپنا پیٹ بھر سکیں، آٹے کے حصول کے لیے اسٹوروں پر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، ملک میں آٹے، بجلی، گیس کا بحران ہے اور دوسری طرف ایک ایک آدمی کے کھانے پر ہزاروں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ سرکاری افسران، حکومتی عہدے دار، بیوروکریٹ، فوجی جرنیل، سرمایہ دار، مل مالکان کے پیٹوں کو بھرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی اس دولت کے ضیاع کو روکنا چاہیے، تعلیم و تربیت اور قانون سازی کے ذریعے اس عمومی وبا کے آگے بند باندھنا چاہیے۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ناآشنا ہیں، ان کو تو اس کا ہوش نہیں ہے، لیکن اسلام کو سینے سے لگانے والوں کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اپنے گھروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں، اپنی معیشت میں رزقِ حلال کی قدر اور اسے ضیاع سے بچانے کا ضروری اہتمام کرنا چاہیے، کہ یہ شکر گزاری کا تقاضا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پھر معاشرے اور اونچی سوسائٹی کی عیاشی، پیٹ پرستی اور شہوت پرستی کے فتنے سے امت ِمسلمہ کو نجات دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے۔ اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔