اینڈروئیڈ فون‘ صارف کی لوکیشن گوگل کو بھیجتا ہے

نیوز ویب سائٹ ’کوارٹز‘ کے مطابق اگر صارفین، لوکیشن سروسز کو بند کردیں تب بھی زیادہ تر اینڈروئیڈ اسمارٹ فونز، لوکیشن کی معلومات اکٹھی کرکے گوگل کو بھجواتے ہیں۔ کوارٹز کا کہنا ہے کہ اینڈروئیڈ فونز صارف کے آس پاس کے اسمارٹ فونز سے معلومات اکٹھی کرتے ہیں جس سے صارف کی لوکیشن معلوم ہوجاتی ہے، اور یہ معلومات گوگل کو بھیجتے ہیں۔ گوگل نے کوارٹز کو بتایا کہ اینڈروئیڈ فونز سے ملنے والی معلومات کبھی بھی محفوظ نہیں کی جاتیں اور اینڈروئیڈ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسا نہ ہو۔ فون کو یہ معلومات اکٹھی کرنے سے روکنے کے لیے کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی اور کون سی چیزیں ہیں جو اسمارٹ فونز کے صارفین کے علم میں نہیں ہیں؟صارفین کی پرائیویسی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’پرائیویسی انٹرنیشنل‘ کا کہنا ہے کہ اس سے یہ واضح ہے کہ لوگوں کا اپنے اسمارٹ فونز پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اگرچہ گوگل انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اس طریقے سے معلومات اکٹھی کرنے کو روک دیں گے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی اور کون سی چیزیں ہیں جو اسمارٹ فونز کے صارفین کے علم میں نہیں ہیں!

خبردار 482ادارے آپ کا ٹائپ کیا ہوا ہر حرف ریکارڈ کررہے ہیں

پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ سینکڑوں کمپنیاں اپنی ویب سائٹ پر آنے والے ہر وزیٹر کی جانب سے ٹائپ کیے جانے والے ایک ایک لفظ کو ریکارڈ کررہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی تعداد 480 سے بھی زیادہ ہے جو ایک عمل ’سیشن ری پلے‘ کے ذریعے ٹائپ کی جانے والی ہر ’کی‘ کو ریکارڈ کررہی ہیں۔ سیشن ری پلے کے اس عمل سے ویب سائٹس یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ صارفین ان کی ویب سائٹ پر آکر کس طرح کی اشیا تلاش کرتے ہیں۔ لیکن تمام صارفین اس سے آگاہ نہیں، اور یوں ان کی اجازت کے بنا کمپنیوں کا یہ عمل کئی قانونی سوالات اٹھا رہا ہے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ان ویب سائٹس پر چلنے والے اسکرپٹس اور سافٹ ویئر، کی بورڈ پر دبائی جانے والی ہر کی، ماؤس کی حرکت اور اسکرولنگ کے عمل کو نوٹ کررہے ہیں اور یہ تمام تفصیلات کسی تھرڈ پارٹی سرور پر بھیجی جارہی ہیں۔
تھرڈ پارٹی ری پلے اسکرپٹس کے ذریعے صارف کی حساس معلومات مثلاً میڈیکل ریکارڈ، کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات اور دیگر ذاتی معلومات کسی نامعلوم تیسرے فریق تک جارہی ہیں، ان سے شناخت کی چوری، آن لائن فراڈ اور دیگر ممنوع عمل انجام دیئے جاسکتے ہیں۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ جو سافٹ ویئر استعمال کیے جارہے ہیں اُن میں فل اسٹوری، سیشن کیم، کلک ٹیل، اسمارٹ لک، یوزر ری پلے، ہوٹ جار اور یانڈیکس شامل ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ایسی 50 ہزار سائٹس میں سے 482 انہی سافٹ ویئر کو استعمال کررہی ہیں۔ یہ سافٹ ویئر استعمال کرنے والے مشہور اداروں میں برطانوی اخبار ٹیلی گراف، سام سنگ، رائٹرز، سی بی ایس نیوز اور دیگر شامل ہیں۔

زمین پر مصنوعی روشنی میں اضافے کے منفی اثرات

زمین کی رات کے وقت خلا سے لی گئی تصاویر پر کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال مصنوعی روشنیاں زیادہ پھیل رہی ہیں۔ 2012ء سے 2016ء کے درمیان اس سیارے پر گھروں سے باہر مصنوعی روشنیاں دو فیصد سے زیادہ بڑھی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بہت سارے ممالک میں ’رات کا غائب‘ ہونا حیوانات، نباتات اور انسانوں پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ سائنسی جریدے ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں ناسا کے سیٹلائٹ ریڈیو میٹر سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے، یہ مخصوص آلہ رات کے وقت روشنی کی پیمائش کرتا ہے۔
اس سے مختلف ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ روشنیوں کی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ دنیا کے ’روشن ترین ممالک‘ مثلاً امریکہ اور اسپین میں تبدیلی نہیں دیکھی گئی، جبکہ جنوبی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک زیادہ روشن ہوئے ہیں۔
صرف چند ممالک میں روشنیوں میں کمی دیکھی گئی جن میں جنگ زدہ ممالک یمن اور شام بھی شامل ہیں۔رات کے وقت ساحلی علاقے اور مکڑی کے جالوں کی طرح پھیلی شہروں کی روشنیاں دیکھنے میں خوبصورت دکھائی دیتی ہیں لیکن مصنوعی روشنیوں کے انسانی صحت اور ماحول پر غیرارادی طور پر نتائج بھی مرتب ہورہے ہیں۔جرمن ریسرچ سینٹر فار جیوسائنس ان پوٹسڈم سے وابستہ اس تحقیق کے سربراہ کرسٹوفر کائبا کا کہنا ہے کہ مصنوعی روشنی کا آغاز ’ہمارے ماحول میں انسانوں کی جانب سے سب سے بڑی ڈرامائی طبعی تبدیلیوں میں سے ایک تھا۔‘
کرسٹوفر کائبا اور ان کے ساتھیوں کو توقع تھی کہ وہ امیر شہروں اور صنعتی علاقوں میں روشنیوں میں کمی دیکھیں گے کیونکہ وہ سوڈیم لائٹس سے توانائی بچانے والے ایل ای ڈیز پر منتقل ہوگئے ہیں اور سیٹلائٹ کے لائٹ سینسرز ایل ای ڈیز سے خارج ہونے والی روشنی کے نیلے حصے کی پیمائش نہیں کرسکتے۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکزیٹر کے مطابق انسان خود پر خلافِ معمول روشنیاں طاری کررہے ہیں۔’’اب آپ کو یورپ میں کہیں بھی رات کے وقت آسمان کی قدرتی روشنی ڈھونڈنے میں مشکل پیش آتی ہے۔‘‘