حضور رسالت مآب ﷺ میں

یہ مختصر سی نظم اُس زمانے میں لکھی گئی تھی، جب اٹلی نے طرابلس پر حملہ کیا تھا۔ ترک، عرب اور مصری مل کر مقابلے میںکھڑے ہوگئے تھے اور انہوں نے غیر معمولی قربانیوں سے کام لے کر اٹلی کی پیش قدمی روک دی تھی۔ وہ دور بڑا نازک تھا۔ طرابلس جسے آج کل لیبیا کہتے ہیں، رسمی طور پر سلطنتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا۔ اٹلی کے پاس بحری بیڑا کوئی نہ تھا۔ اس کی فوجیں مصر سے گزر کر طرابلس پہنچ سکتی تھیں، لیکن انگریزوں نے مصر کا راستہ روک لیا۔
نوجوان بہادر ترک بھیس بدل بدل کر مصر کے غیر معروف راستوں سے گزرتے ہوئے طرابلس پہنچے اور عربوں کو منظم کرکے انہوں نے اٹلی کی فوجوں سے لڑایا۔ ان بہادر ترکوں میں انور پاشا شہید، نیازی بے شہید، غازی عصمت انونو، غازی مصطفی کمال اور بیسیوں دوسرے جواں مرد قابلِ ذکر ہیں، جن کے نام تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
یورپی طاقتوں پر اٹلی کی نامرادیوں کا راز آشکار ہوگیا تو انہوں نے بلقانی ریاستوں کو شہ دے کر ترکی پر حملہ کرادیا۔ اس طرح ترکوں کے گھر میں جنگ شروع ہوگئی اور بہادر ترک سالاروں کو طرابلس چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔
یہ نظم اقبال نے شاہی مسجد لاہور میں پڑھی تھی۔ خود بھی روئے تھے اور مسلمانوں کو بھی بے طرح رلایا تھا۔ نظرثانی میں اس کا یہ شعر قلم زد کردیا:

ہوا رفیقِ اجل اشتیاقِ آزادی
سمند عمر کو اک اور تازیانہ ہوا
……
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کر رختِ سفر روانہ ہوا
قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی، لیکن
نظامِ کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو
کہا حضورؐ نے اے عندلیب باغِ حجاز!
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز
ہمیشہ سر خوش جام ولا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرت سجود نیاز
اڑا جو پستیِ دنیا سے تو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بُو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تُو آیا؟
’’حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں‘‘

پہلا بند:گراں: ناقابلِ برداشت یعنی شاق۔ آیہ رحمت: حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، جن کی ذاتِ مبارک سراپا رحمت تھی۔ ولا: محبت۔ ملائک: ملک کی جمع، فرشتے۔ آبگینہ: شیشہ ،صراحی
جب زمانے کا ہنگامہ میرے لیے حد درجہ ناگوار اور ناقابلِ برداشت ہوگیا تو میں نے سفر کا سامان باندھا اور دنیا سے رخصت ہوگیا، اگرچہ میں نے صبح و شام کی قید میں زندگی کے دن کاٹے لیکن اس دنیا کے پرانے نظام سے ربط پیدا نہ کیا۔ فرشتے مجھے رسالتؐ کی محفل میں لے گئے اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کردیا۔
دوسرا بند:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حجاز کے باغ کی بلبل! جس کے نغموں کی حرارت سے باغ کی ہر کلی کا دل پگھل رہا ہے۔ تیرا دل ہمیشہ ہماری محبت کی شراب کے نشے میں چُور رہتا ہے۔ تیری افتاد کا بھی وہی درجہ ہے کہ عجز بھرے سجدوں کو اس پر رشک آئے۔ تُو دنیا کی پستی سے اڑ کر آسمان کی طرف آیا۔ فرشتوں نے تجھے اونچا اڑنا سکھادیا۔ باغِ جہاں سے خوشبو کی طرح نکل کر آیا ہے۔ بھلا یہ تو بتا کہ ہمارے لیے کیا تحفہ لایا ہے؟
تیسرا بند:میں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم! دنیا میں آرام اور امن چین نصیب نہیں۔ وہ زندگی میسر نہیں آتی جس کی سب کو تلاش ہے۔ اگرچہ وہاں کے باغ میں لالے اور گلاب کے ہزاروں پھول ہیں، لیکن وہ کلی دکھائی نہیں دیتی، جس میں وفا کی خوشبو ہو۔ تاہم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لیے شیشے کی ایک صراحی لایا ہوں، جو چیز اس میں بھری ہوئی ہے وہ بہشت میں بھی نہیں ملتی۔ حضورِ والاؐ! اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی آبرو جھلک رہی ہے، یعنی یہ شہیدانِ طرابلس کے خون سے لبریز ہے۔
(مطالب کلام اقبال… مولانا غلام رسول مہر)